کورونا، سرمایہ و محنت کا تضاد

صباح الدین صباء
بنی نوع انسان کو اس وقت اولین مشترکہ دشمن کا سامنا ہے جسے Covid_19کورونا وائرس کہا جاتا ہے۔ مذکورہ وائرس نے سب سے پہلے چین کے صوبے ہبئی کے شہر ووہان میں تباہی مچائی اور اس کے بعد یہ تیزی کے ساتھ دنیا کے مختلف ملکوں میں پھیلتا چلا گیا۔ اب تک دنیا میں دس لاکھ سے زائد اس وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں جبکہ 50ہزار سے زائد انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ عالمی ادارہِ صحت (WHO) نے اسے عالمی وباء قرار دیا ہے۔
جیسے جیسے اس وائرس کا پھیلاؤ ہو رہا ہے اور انسان بے بسی کے ساتھ موت کے منہ میں جا رہا ہے۔ موجودہ عالمی نظام کی صلاحیت اور خاص طور سے جان لیوا بحران سے نمٹنے میں اس کی اہلیت پر سوال اٹھنے لگے ہیں دنیا بھر کے عوام حیران ہیں کے معاشی سائنس اور سماجی ترقی کے دعوے کرنے والی بڑی قوتیں کورونا وائرس کے چیلنج سے نمٹنے میں بے بس نظرآ رہی ہیں، بقول شاعر
یہ کیسی ہوائے ترقی چلی ہے
دیئے تو دیئے دل بجھے جا رہے ہیں
اس حوالے سے دو بڑے ممالک کے ردِ عمل اور چیلنج سے نمٹنے کے طریقہ کار کا تقابلی جائزہ لینا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ کسی بھی بحران سے نمٹنے کی ان کی علیحدہ علیحدہ صلاحیت بلکہ ان کی بنیادی اقدار کا بھی جائزہ لیا جانا چاہئے۔
اس وقت کورونا وائرس سے سب سے بری طرح متاثر ہونے والا ملک امریکہ ہے۔ خود امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگلے دو ہفتے انتہائی دردناک ہو سکتے ہیں۔
دنیا کی بزعم خود واحد سپر پاور عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے سرخیل اور تیسری دنیا کے اکثر ملکوں میں جنت تصور کئے جانے والے ملک میں آج عوام کی اکثریت انتہائی بھیانک اور افسوس ناک صورتحال سے دوچار ہے۔ اس ترقی یافتہ ملک میں کورونا متاثرین کے لئے طبی آلات اور ضروری سامان کی کمی ہے۔ ہسپتالوں میں مریضوں کی گنجائش ختم ہو رہی ہے۔ یہاں تک کے لاشوں کے لئے سرد خانے کم پڑ گئے ہیں اور کھلی جگہوں اور سڑکوں پر عارضی سرد خانے بنائے جا رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ماسک کی قلت کے باعث عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اسکارف پہنیں۔ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والا بحران معاشرے میں موجود عدم مساوات کو بھی اجاگر کرر ہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی خامی یہ تصور ہے کہ نجی منافع کو پبلک ہیلتھ پر برتری حاصل ہے۔ امریکہ میں ہیلتھ انشورنس کمپنیوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ ٹیسٹ کا خرچہ تو برداشت کریں گی لیکن علاج کے اخراجات برداشت نہیں کریں گی۔ اگر کسی کو پتہ ہو کہ اس کے مریض کو علاج نہیں ملے گا تو وہ ٹیسٹ کیوں کروائے گا۔ امریکہ کے وہ لاکھوں شہری اس کے علاوہ ہیں جنھیں ہیلتھ انشورنس کی سہولت میسر ہی نہیں۔ انشورنس اور میڈیکل کمپنیوں کو اس بات کا پابند بنایا جانا چاہئے کہ وہ منافع کی خواہش کو موخر کر کے تمام ضرور ت مندوں کو بلا معاوضہ مکمل علاج کی فراہمی یقینی بنائیں۔ صحت کی سہولتیں تمام عوام کو پہنچائے بغیر مسائل حل نہیں ہوں گے۔ تنخواہ کے ساتھ مریض کی چھٹی (Paid Sick Leave) کے بل پر بھی کانگریس بحث کر رہی ہے۔ اس کی منظوری کے بغیر لاکھوں محنت کشوں کے پاس کام پر واپس جانے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچے گا چاہے ان میں مرض کی علامات موجود ہی کیوں نہ ہوں۔ گھر پر رہنے کے لئے مالی ضمانت مہیا کرنا ضروری ہے اس کے بغیر لوگ چلتے پھرتے وائرس بن سکتے ہیں۔
صرف صنعتی اور پیشہ وارانہ ادارے نہیں اسکول، کالج اور یونیورسٹی وغیرہ بھی وباء کے پھیلاؤ کا زریعہ بنتی ہیں۔ امریکہ میں بڑی تعداد میں طلباء و طالبات اپنے تعلیمی ادارے سے ملنے والے کھانے پر انحصار کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کو بے گھر پکارا جاتا ہے۔ صرف نیو یارک شہر میں ایسے طلبا و طالبات کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔ ایسے طلبا و طالبات کو بھوک کا شکار ہونے سے بچانے کے لئے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ کالج کے طالبعلموں کو ہاسٹلوں میں آنے کی اجازت نہیں اس طرح بہت سے طالبعلموں کے سر سے چھت چھن جائے گی۔ امریکہ میں جیلوں کی صورتحال مزید خراب ہے۔ اکثر قیدیوں کو ہاتھ دھونے کے لئے صابن یا سینی ٹائزر کی سہولت دستیاب نہیں۔ علاوہ ازیں مریضوں کی طرف سے یوٹیلٹی کا بل ادا نہ کرنے کی صورت میں بجلی کے شٹ ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
امریکی طرز حکمرانی کے مقابلے میں چین کے اندر کئے جانے والے تجربے کو بھی دیکھا جانا چاہئے۔ کورونا وائرس کا پہلا شدید حملہ چین کے صوبے ہبئی کے شہر ووہان کو برداشت کرنا پڑا چین نے اس وباء سے نمٹنے کے لئے فوری اور فیصلہ کن اقدامات کئے۔ چینی حکومت کا ردِ عمل بنیادی سوشلسٹ اقدار کے مطابق رہا۔ وہاں منافع کی بجائے صحت عامہ کو برتری حاصل ہے۔ لہٰذا چین نے وباء کے پھوٹتے ہی تمام لوگوں کو مفت ٹیسٹ اور علاج فراہم کرنے کا اعلان کیا اور عملی طور پر اس کا اہتمام کیا گیا۔ ووہان میں ریکارڈ مدت میں عارضی ہسپتال تعمیر کئے گئے۔ فیصلہ کیا گیا کہ بجلی، وائرلیس اور گرمائش کی سہولتیں عدم ادائیگی پر ختم نہیں کی جا سکیں گی۔ صنعتوں میں ترجیحی بنیادوں پر میڈیکل آلات، ماسک اور دیگر ضروری سامان کی تیاری شروع کر دی گئی۔ جہاں جہاں ممکن تھا کارکنوں نے آن لائن کام شروع کر دیا۔ جو ادارے بند تھے ان کے کارکنوں کو متبادل اداروں میں لگایا گیا۔ بہر حال روزگار اور تنخواہوں کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا۔ کسی مرحلے پر اشیائے صرف کی ناپیدی یا قلت پیدا نہ ہونے کی ضمانت دی گئی۔
عوام کی جانب سے سماجی فاصلے کے اصول پر عملدرآمد میں تعاون کرنے اور مرکزیت پر مبنی قرنطینہ کے نظام نے انتہائی متاثرہ علاقے میں وباء پر قابو پانے میں مدد دی۔ چین نے دو مہینے کی سخت محنت کے بعد وباء کو پھیلنے سے روکے رکھا اور دنیا کو تیاری کے لئے وقت ملا لیکن افسوس کے کئی ملکوں نے اس وارننگ کو نظر انداز کیااس وقت کو چین کے خلاف منفی پروپیگنڈے میں ضائع کر دیا۔ چینی تجربے سے سیکھنے کی بجائے وہ چین کو سخت گیری اور آمرانہ رویے کے طعنے دیتے رہے۔ تاہم ان ملکوں سے اس سے مختلف توقع بھی نہیں کی جا سکتی کیونکہ سرمایہ دارانہ طرز فکر میں سفاکانہ مسابقت کو تعاون اور یکجہتی پر تقدم حاصل ہوتا ہے۔ امریکہ میں کورونا وائرس کے حوالے سے سب سے تلخ حقیقت یہ ہے کہ جو عناصر نا اہلی اور خرابیوں کے ذمہ دار ہیں وہ اتنے متاثر نہیں ہوں گے جتنے عوام خاص طور سے محنت کش ہوں گے۔ دولت مند اور طاقتور لوگوں کو صحت کی بہترین سہولتیں حاصل ہیں۔ یہ غریب اور محنت کش عوام ہیں جو اس بحران کا سارا بوجھ برداشت کریں گے۔ انھیں تنخواہوں میں کٹوتی بھاری،میڈیکل بلز اور بڑے پیمانے پر دوستوں اور رشتہ داروں کی اموات کاسامنا کرنا پڑے گا۔
کورونا وائرس کی عالمی وباء بین الاقوامی اقتصادی نظام کا اصل چہرہ بے نقاب کر رہی ہے۔ ایک طرف وہ عناصر ہیں جو صحت عامہ اور انسانی زندگی کو دوسری تمام چیزوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ دوسری جانب وہ ہیں جو موت کو بھی منفعت بخش تبدیلی کا ذریعہ جانتے ہیں۔ دنیا بھر کے عوام کے ساتھ ساتھ خود امریکی عوام اور محنت کشوں کو متحد ہو کر اپنے مسائل خود حل کرنا ہوں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں