ساحلی مکران ڈویژن کا ادھورا خواب

تحریر:جاوید بلوچ
جام حکومت جتنا جام باہر سے کیا جاتا ہے اتنا ہی اندر سے، سیاسی جماعتوں میں بھی سرداری اور درباری نظام سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا مگر جو پارٹی طے شدہ اسکرپٹ کے مطابق چند دنوں میں ہی گنے چنے اور بعد میں چنے گئے والے لوگوں پر مشتمل ہو تو وہاں ہر شخص میر معتبر اور حکم دینے والا ہوتا ہے تابع کوئی نہیں، موجودہ بلوچستان صوبائی حکومت اور جماعت اکثر معاملات میں بالکل ایسا ہی لگتا ہے
جام حکومت یا شاید وزیر اعلی جام کمال کی اپنی خواہش تھی جس کا شروع کے ایام میں کچھ خبریں بھی بنتی گئیں مگر اب تو بالکل ہی دم توڑ چکی ہے، خبر تھی گوادر و لسبیلہ پر مشتمل ایک نئے ڈویژن بننے کی جو رخشان ڈویژن کی طرح  عوام کی سہولت اور وقت کی ضرورت ہے، رخشان ڈویژن نے قلات کے بوجھ کو تھوڑا سا ہلکا کیا تھا مگر اب بھی حب چوکی سے لیکر دشت تک ایک طویل رقبہ اور بڑی آبادی پر مشتمل ایک ایسی مثال بنی ہوئی ہے جیسے کسی ایک سرکاری نوکری کے لیے بے روزگار انسانوں کی ایک لمبی قطار ہو،
یہی مثال مکران ڈویژن کی ہے جو  تین طویل سرحدوں کے مالک اضلاع پر مشتمل ہے، یہ ڈویژن جس جغرافیہ پر موجود ہے وہ تو سرحد کے اس پار ایران میں بھی مکران ہی کے نام سے جانا جاتا ہے، یہاں اس طویل جغرافیہ اور آبادی کو ایک ڈویژن تک محدود رکھنا نہ صرف انتظامی امور کے لیے مشکل ہے بلکہ عوام کے لیے بھی نامناسب ہے
ہمارے کچھ دانشور حضرات ساحلی مکران ڈویژن کے بننے سے اس لیئے خوش نہیں ہیں کہ یہ تقسیم کرو اور حکمرانی کرو والی ریاستی پالیسی ہے جس کا مقصد گوادر کو مکران سے علیحدہ کرنا ہے اور پھر اس خطے کو مکمل وفاق کے کنٹرول میں لانا ہے، اول اگر کوئی ایسی بات ہے تو اٹھارویں ترمیم کے صوبائی اختیارات کدھر گئے؟ صوبے میں موجود قوم پرست جماعتیں جو وفاق کے دوست اور حامی ہیں وہ قانون سازی کیوں نہیں کرسکتیں؟ اور دوسری بات یہ کہ یہ سارے خدشات صرف گوادر سے متعلق ہی کیوں؟ کیا لسبیلہ بلوچستان نہیں ہے؟ اگر ہے تو گوادر اور لسبیلہ کا ایک ڈویژن ہونے پر سیاست کیوں؟ 
اگر وفاق کے عزائم درست نہیں اور نیت میں کھوٹ ہے کہ پہلے وہ گوادر کو لسبیلہ کے ساتھ ملا کر نیا ڈویژن بنائے گا اور بعد میں بلوچستان کے تمام ساحل پر براہ راست قبضہ کرے گا تو اس وقت یہ قوم پرست اور گوادر و مکران کے غمخوار کہاں تھے جب الیکشن کے لئے نئی حلقہ بندیاں تشکیل دی جارہی تھیں اور گوادر کی قومی اسمبلی کی نشست کو مکران سے نکال کر لسبیلہ کے ساتھ ملایا گیا۔ بلکہ اس وقت تو مکران کے تمام سیاست دان خوش تھے چاہے وہ موجودہ حکمران جماعت کا حصہ ہوں یا اپوزیشن کا، تمام راضی تھے کہ گوادر کے نکلنے سے کیچ کی نشستوں میں اضافہ ہوگا اور وہی ہوا۔
یہ کام بھی اس وقت کیا گیا جب صوبے میں نیشنل پارٹی کی حکمرانی تھی اور مکران کو صوبائی حکومت میں اہم اختیارات حاصل تھے، بلکہ گوادر کے ساتھ اس قدر نا انصافی ہوئی کہ گوادر بلوچستان کا وہ ضلع ہے جہاں کسی قسم کی نقل مکانی نہیں ہوئی اگر تھوڑی بہت ہوئی بھی تو اندرون ضلع مگر مردوم شماری میں گوادر کی آبادی نہ بڑھ سکی جبکہ کیچ جہاں بڑی تعداد سے نقل مکانی ہوئی تھی وہاں آبادی میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔۔۔
خئیر اگر مان لیا جائے کہ نیشنل پارٹی نے تو کچھ بھی نہیں کیا اور عوام نے انھیں مسترد کیا تب بھی بلوچستان کی ایک اور قوم پرست پارٹی بلوچستان نیشنل پارٹی نے بھی تو کچھ نہیں کہا کہ گوادر کو لسبیلہ کے ساتھ ملانا وفاقی سازش ہے بلکہ بی این پی کے سربراہ جناب اختر مینگل صاحب نے اسی حلقے کو اپنے لئے بہترین سمجھ کر خود گوادر لسبیلہ کی قومی اسمبلی کی نشست  کے لئے الیکشن لڑا۔
جیونی سے لیکر حب چوکی تک نہ صرف اس ساحلی پٹی پر رہنے والوں کے ذرائع معاش ایک ہیں بلکہ مسائل بھی ایک جیسے ہیں، اگر ساحلی علاقے مکران ڈویژن کا حصہ بن سکے تو ساحل بلوچستان پر بسنے والے ماہیگیروں کی یکساں نمائندگی بھی ہوگی اور قلات و مکران ڈویژنز کا بوجھ بھی ہلکا ہوگا، گوادر، پسنی، حب اور بیلہ پر مشتمل چار نئے اضلاع کا خواب بھی پورا ہوگا کیونکہ ضلع گوادر جو ایرانی سرحد سے شروع ہوکر ہنگول تک پھلا ہوا ہے نا صرف طویل رقبہ ہے بلکہ سرکاری افیسران کیلئے بھی اپنے ذیلی اداروں کادیکھ بال بھی ایک مشکل کام ہے اور اسی طرح کیچ کی گنجان آبادی میں بھی دشت، تمپ اور تربت کے اضلاع کا خواب  بھی شرمندہ تعبیر ہوسکتاہے۔
باپ حکومت میں چونکہ کیچ اور لسبیلہ سے بڑی مؤثر نمائندگی ہے تو انھیں چاہیے اس جغرافیہ پر بسنے والے انسانوں کو صرف اپنی مفادات کی نظر سے دیکھنے کی بجائے وقت کی ضرورت کے تحت دیکھا جائے، جام صاحب کی اپنی تو شاید دلی خواہش ہو کہ یہ کام انہی کے دور میں مکمل ہو مگر بقول بلوچستان عوامی پارٹی گوادر کی ایک اہم شخصیت کے کہ کیچ سے انھیں مزاحمت اور انکار کا سامنا کرنا پڑے گا
باقی اس حلقے کے لئے جن کا ماننا ہے کہ یہ نئے ڈویژن کا بننا مکران کی شناخت کو ختم کرنا ہے تو ان کے لئے عرض ہے کہ مکران صرف تین اضلاع پر مشتمل اس زمین کے ٹکڑے کا نام نہیں وہ تو سرحد کے اس طرف ایران میں بھی باقاعدہ طورپر مکران ہی ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں