نیامیدان جنگ

تحریر: انور ساجدی
جاوید احمد غامدی ایک منفرد مگر متنازعہ عالم دین ہیں وہ کئی معاملات میں مختلف اور جداگانہ رائے رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے جید علماء انکے علمی اور دینی مقام کو نہیں مانتے اسکے باوجود ٹی وی چینل انہیں اپنے پروگراموں میں مدعو کرتے اور حساس معاملات پر انہیں اظہارخیال کاموقع دیتے ہیں وہ کافی عرصہ سے زوردے رہے ہیں کہ حاکم وقت کے احکامات ماننا عوام پرلازم ہے انکے برعکس علامہ شاہ احمد نورانی کہتے تھے کہ اگرحاکم وقت غلط احکامات صادر کرتے ہوں تو انہیں ماننا لازم نہیں ہے انہوں نے اپنے کئی خطبات میں مثال دی کہ جب اسلامی نظام نافذ ہو تو اسکا ڈسپلن اتنا سخت ہوتا ہے کہ کوئی حاکم اسے برداشت نہیں کرسکتا وہ حضرت عمر کا یہ قول دہراتے تھے کہ
لوگو اگر میں سیدھا چلوں تو میراساتھ دو
اگرٹیڑھا چلوں تو مجھے سیدھا کردو
یعنی اسلامی نظام میں رعایا کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حاکم کا احتساب کرے ان کا کہنا تھا کہ جب حضرت خالد بن ولید سے غلطی ہوئی تو انہیں سپہ سالار کے عہدے سے معزول کرکے اسی فوج میں سپاہی بنادیا گیا لیکن انہوں نے کوئی حکم عدولی نہیں کی۔
غامدی صاحب شرعی داڑھی نہیں رکھتے لیکن قرآن وحدیث اور تاریخ کاوسیع مطالعہ رکھتے ہیں ان کا علم و ایقان بہت وسیع ہے جس طرح کہ غلام احمد پرویز کا تھا لیکن علماء نے قراردیا کہ غلام احمد پرویز نے ایک الگ فرقہ بنارکھا ہے جس کا نام پرویزی گروپ رکھ دیا گیا جاوید احمد غامدی پرغالباً ابھی تک ایسا الزام نہیں لگا۔
گزشتہ شب ایک ٹی وی چینل نے انہیں پروگرام میں مدعو کیا اور پوچھا کہ اس وقت کرونا کی وبا کے بارے میں وفاقی حکومت کی اور پالیسی ہے اور صوبہ سندھ کی مختلف پالیسی ہے لہٰذا کسے حاکم وقت مان کر اسکے احکامات پرعمل کیاجائے غامدی صاحب نے جواب دیا کہ ملکی آئین میں وفاق اور صوبوں کے اختیارات طے کردیئے گئے ہیں اس طرح کے معاملات کا تعلق صوبوں سے ہے لہٰذا صوبائی حکمرانوں کو حاکم وقت تسلیم کرکے انکے احکامات پرعمل کیاجائے انہوں نے تراویح کے بارے میں وضاحت کی کہ اس نام کی کوئی نماز موجود نہیں ہے جو تہجد کی نماز ہے اس کا نام تراویح رکھ دیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ آنحضرت ﷺ رمضان میں مسجد نبوی میں اعتکاف پربیٹھتے تھے ایک مرتبہ انکے خیمے کے اندر گرمی تھی اس لئے انہوں نے باہر آکر تہجد کی نماز پڑھی لوگوں نے انہیں دیکھ کر انکے ساتھ نماز پڑھی انکے مطابق لوگوں نے اجازت طلب کی رمضان میں انکے لئے تہجد پڑھنا ممکن نہیں کیا وہ عشاء کے بعد یہ عبادت کرسکتے ہیں تو حضور نے اسکی اجازت دی جید سنی عالم مولانا محمد اسحاق نے بہت پہلے یہی کچھ کہا تھا انکے بقول جب لوگ مسجد نبویؐ میں الگ الگ نماز پڑھتے تھے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اکٹھے نماز پڑھو انہوں نے ایک امام مقرر کردیا لیکن انہوں نے خود کبھی تراویح کی نماز نہیں پڑھی مولانا اسحاق کے مطابق بعد میں لوگوں نے تراویح کی نماز کو رمضان سے منسلک کرکے اسے باقاعدہ شکل دیدی اگرچہ یہ نماز فرض سنت یاواجب نہیں ہے لیکن اگر لوگ عبادت کرنا چاہتے ہیں تویہ انکی مرضی پر منحصر ہے اور تراویح اچھی روایت ہے جاوید غامدی نے ایک اینکر سے پوچھا کہ مولانا طارق جمیل نے ٹی وی چینلوں پرجھوٹ پھیلانے کاالزام لگایا اس کے بارے میں کیا خیال ہے تو موصوف نے کہا کہ اگر کسی پر الزام لگایا جائے تو اس کا ثبوت ہونا چاہئے اور وہ کسی معین معاملہ کے بارے میں ہونا چاہئے غامدی نے کہا کہ تراویح گھر پر پڑھی جائے تو انکی فضیلت زیادہ ہے اگر کرونا کی وبا کی وجہ سے جولوگ حکومتی احکامات کونظرانداز کرکے اجتماعی نمازپڑھیں تو یہ خود کشی کے مترادف ہے۔
مولانا طارق جمیل نے ٹی وی چینلوں کے بارے میں جو کچھ کہا تھا انہوں نے اسکی معافی مانگ لی ہے اور کہا ہے کہ ہر انسان غلطی کاپتلا ہے اور مجھ سے بھی غلطی ہوئی ہے مولانا سے جب دیگرمعاملات پرسوالات کئے گئے تو انہوں نے واضح طور پر کہا کہ یہ باتیں بڑے علماء سے پوچھی جائیں یہ پہلا موقع تھا کہ طارق جمیل نے اپنے آپ کوبڑاعالم نہیں کہا مولانا کی وزیراعظم کی گزشتہ ملاقات کے بعد مولانا منظور مینگل نے قراردیا تھا کہ طارق جمیل ایک خطیب ہیں عالم دین نہیں ہیں منظور مینگل نے انکے بعض دینی بیانات پرتنقید کی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ وہ غلط حوالے دیتے ہیں۔مولانا طارق جمیل کی معافی اور وضاحت کے باوجود تحریک انصاف کا سوشل میڈیا انکے دفاع کیلئے پوری طاقت کے ساتھ میدان میں اترا ہے ان کا کہنا ہے کہ مولانا نے سچ کہا تھا کہ میڈیا جھوٹ کے پھیلاؤ کا باعث بن رہا ہے انکے مطابق میڈیا کل بھی جھوٹا تھا میڈیا آج بھی جھوٹا ہے پی ٹی آئی کے ایک گروپ کاکہنا ہے کہ
ہمارے تاجر پورا ٹیکس نہیں دیتے
لوگ قرآن پر جھوٹی گواہیاں دیتے ہیں
مساجد سے جوتے اور ٹونٹیاں چوری
ہوتی ہیں حکمران پانانہ مے فیئرفلیٹس
فالودہ اکاؤنٹس اورسرے محلات
میں ملوث ہیں تھانوں میں ریپ ہوتے ہیں پھر
بھی ٹی وی اینکر حیران ہیں کہ مولانا طارق
جمیل نے قوم کو بددیانت کیوں کہاہے
ایک گروپ نے لکھا ہے کہ کل سارے لفافے مولانا طارق جمیل پربھونک رہے تھے۔
سوال یہ ہے کہ جب مولانا نے خود معافی مانگ لی ہے تو پی ٹی آئی کا سوشل ونگ میڈیا کو مغلظ گالیوں سے کیوں نوازرہا ہے ایسا تو نہیں کہ دعا مانگنے سے قبل طارق جمیل صاحب نے وزیراعظم سے کوئی بریفنگ لی تھی اور انہوں نے کہا ہوگا کہ زرا میڈیا کی خبر بھی لیں۔
پی ٹی آئی کے مقابلے کیلئے مخالفین بھی اس جنگ میں کودپڑے ایک خاتون نے لکھا ہے کہ یہ اکیلا ایماندار ہے جس نے کرپشن کیلئے جہانگیر ترین،خسروبختیار،عامر کیانی،علیم خان،رزاق داؤد اورغلام سرور جیسے ڈکیت رکھے ہوئے ہیں جو آٹا،چینی،گیس،بجلی اور دواؤں کی مد میں غریبوں کا خون نچھوڑرہے ہیں غرض کہ فریقین کے جتنے منہ اتنی باتیں،سوشل میڈیا کی بے لگام پالیسی سے خیال آتا ہے کہ پرنٹ میڈیا تو ذمہ داری سے اپنا کام کررہا تھا لیکن حکومت نے اسے مفلوج کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ سوشل میڈیا تو ایک زہرآلود اورقہر آلود ذریعہ ہے حکومتی ٹیم مخالفین کیخلاف جتنا زورلگاتی ہے اسکے جواب میں ہزاروں مخالفین کود پڑتے ہیں جس کے باعث حکومت کولینے کے دینے پڑتے ہیں حکومت اس صورتحال سے کافی پریشان ہے اور بجائے کہ سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرے وہ پرنٹ میڈیا کاگلہ مزید دباکر فنڈز اپنے سوشل میڈیا گروپوں کوجاری کررہی ہے۔اب تو خیر سے یوٹیوب چینلوں کی سرپرستی کااعلان بھی کردیا گیا ہے یہ حکومت اور معاشرے کیلئے ایک اور عذاب کا باعث بنے گا پاکستان کے تمام نامور اینکرز نے یوٹیوب چینل بھی کھول رکھے ہیں یہ دراصل ایک ٹریپ ہے کیونکہ جو لوگ حکومت پر تنقید کریں گے حکومت انکے خلاف کارروائی کرے گی اوراس طریقے سے مخالف آوازوں کودبائے گی پاکستان میں سوشل میڈیا فکری،ذہنی اورمعاشرتی انتشارکاسبب بن رہاہے اس پرتمام اخلاقی،سیاسی اور معاشرتی اقدار پامال ہورہی ہیں نئی نسل صرف الزام بازی اور دشنام طرازی کے گرُہی سیکھ رہی ہے کم از کم حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنے حامیوں کو قابو میں رکھے اور انکی اچھی تربیت کا بندوبست کرے ایسا نہ ہو کہ جس طرح بی جے پی کی پالیسیوں کی وجہ سے انڈیا فرقہ واریت اورنسلی نفرتوں کا شکار ہورہا ہے پاکستان بھی اسی صورتحال سے دوچار ہوجائے بی جے پی نے شیوسینا بجرنگ دل راشٹریہ سیوک سنگھ جیسی تنظیموں کو آگے کیا ہے جب کہ یہی کام تحریک انصاف اپنے سوشل میڈیا گروپوں کے ذریعے کررہی ہے انڈیا میں مسلمان ولت اقلیتیں اورکمزور طبقات بی جے پی کی قہرآلود پالیسیوں کا شکار ہیں جبکہ پاکستان میں ہر حکومت مخالف کوہدف بنایاجارہاہے۔
عمران خان کوسوچنا چاہئے کہ آج انکی جماعت کو24سال پورے ہوگئے ہیں اتنے عرصہ ایک پارٹی کا قائم رہنا بذات خود ایک بڑی کامیابی جبکہ اسے اقتدار بھی ملا ہے بجائے کہ وہ امن وآشتی سے رہ کہ ملک کے مسائل حل کرے عوام کی حالت بہتر بنانے کے منصوبے بنائے وہ کن چکروں میں پڑگئے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے اپنے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد تیار کی ہے یہ لوگ اتنے پرعزم اور پرجوش ہیں کہ اپنی حکومت کی کوئی خامی،کوئی غلطی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں نہ صرف یہ بلکہ وہ اپنے لیڈر کی پالیسی کے تحت مخالفین کو برداشت کرنے کے روادار بھی نہیں اگرعمران خان اپنے کارکنوں کی فوج کوصحیح ڈسپلن میں نہیں لائے اور اپنی جماعت کی تنظیم سازی اور ایک اچھے منشور کی تشکیل پرکامیاب نہیں ہوئے تویہ منتشر لوگوں کاہجوم ہی رہے گی اسے اچھی جماعت بنانے کیلئے ایک نئی جدوجہد کی ضرورت ہے اسکے ساتھ جیو اور جینے دو کی پالیسی پر عمل کرنا لازم ہے کیونکہ پاکستان جیسے ملک میں یک جماعتی آمریت بھی کامیاب نہیں ہوسکتی اس سلسلے میں ماضی کی مثالیں سامنے ہیں ایوب خان کی کنونشن لیگ انکے زوال کے ساتھ ہی ختم ہوگئی ضیاء الحق نے جونیجو لیگ بنائی لیکن وہ بھی انکے ساتھ ہی ختم ہوگئی مشرف نے ق لیگ بنائی وہ بھی آکسیجن پرزندہ ہے اور اس کا ملکی سیاست میں کوئی فعال کرادر نہیں ایسا نہ ہو کہ تحریک انصاف کو بھی اسی طرح زوال آجائے وقت آگیا ہے کہ عمران خان اپنی جماعت کو تحریک نہیں باقاعدہ جماعت میں تبدیل کردیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں