ادب پر کرونا کے اثرات

تحریر:ذوراخ بزدار
انسان جبلی طور پہ اپنے ماحول سے بہت جلد متاثر ہوتا ہے. اور جب مادی یا پھر روحانی اثرات اس کے جسم جان یا روح پہ اثر انداز ہوتے ہیں تو پھر یہ ایک فطری بات ہے کہ وہ انکا اظہار چاہتا ہے.اظہار کے لیے ایک طریقہ کار تو روز مرہ کا ہے کہ ہم آپس کی یا ملاقات ٹیلی فونک گفتگو میسجز وغیرہ میں کرتے ہیں جس کو کسی صورت بھی ادب نہیں کہا جاسکتا مگر ایک دوسرا طریقہ ہے اظہار کو ایک لطیف انداز میں پیش کیا جائے جو سامعین یا ناظرین کے لیے دلفریب اور پرکشش ہو اس طرح کے تمام اثر انداز ہونے والے تخلیقات کو ادب کہا جاتا ہے. اور اس کی تین شکلیں ہیں مگر عام طور پہ دو ہی معروف ہیں نظم اور نثر پہلا جس سیانسان روز اول سے واقف ہے اور کرتا آرہا ہے وہ ہینظم یا شاعری جب کسی حساس مزاج انسان اپنے محسوسات کو ایک خاص پابند قانون کے تحت بیان کرنے کا فن جانتا ہو تو اسے شاعر کہتے ہیں اور اس تخلیق کو شاعری کہا جاتا ہے. شاعر معاشرے کا عکاس ہوتا ہے اس کی ایک گہری نظر ہے معاملات پہ ہوتی ہے. اور وہ الفاظ ایک خاص ترکیب سے پرونے کا فن بھی جانتا ہے پھر جو وہ بروقت تخلیق کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ میری ہی آواز تھی پر میں کہہ نہ سکا. اس فن کے کچھ عرصہ بعد انسانوں نے جب مجسمہ سازی کا فن سیکھ لیا تو انہوں نے اپنے جذبات کو مجسم روپ میں پیش کیا اور اسی فن نے پھر آگے بڑھکر کارٹون کی شکل اختیار کی.مگر افسوس کہ عام آدمی آج بھی اس فن کو ادب مانے کے لئے تیار نہیں. چونکہ مذاہب نے اس کی حوصلہ شکنی کی ہے.
اس کے بعد انسان نے جب ارتقاء کے کچھ اور منازل طے کیے تو اس نے نثر نگاری شروع کی اور اس کو بھی اس عروج پہ پہنچایا کہ جہاں آج نظم موجود ہے.اب انسان یا اس کے ماحول پہ کہیں بھی کچھ ہوتا ہے تو انسان اسکو کسی نہ کسی شکل میں بیان کرنے کی کوش کرتا ہے.
جنگ ہو اس میں فتح یا شکست ہو خوشی ہو غم ہو آفات ہوں یا قدرتی وباء سب پہ ادب نے خوب لکھا دنیا کی تمام زبانوں میں ادب بھی کبھی خاموش نہ رہا سوائے اسکے کہ تخلیق شدہ ادب کو کسی جابر نے مٹا نہ دیا ہو. تاریخ بھری پڑی ہے کروناء جیسی وباؤں کی داستانوں سے اور ان پہ ہونے والی شاعری اور نثر سے.
یہ فارسی اشعار جس فارسی نظم سے لئے ہیں لگتا ہے کہ ان میں بھی کرونا جیسی کوئی تاریخی وباء کا تذکرہ موجود ہے
وای از دنیا کہ یار از یار می ترسد
غنچہ ہای تشنہ از گلزار می ترسد
عاشق از آوازہ دلدار می ترسد
پنجہ خنیاگران از تار می ترسد
شہ سوار از جادہ ہموار می ترسد
این طبیب از دیدن بیمار می ترسد
(دنیا پر افسوس کہ جہاں دوست دوست سے ڈر رہا ہے
جہاں غنچہ ہائے تشنہ باغ ہی سے ڈر رہا ہے
جہاں عاشق اپنے دلدار کی آواز سے ہی ڈر رہا ہے
جہاں موسیقاروں کے ہاتھ تارِساز سے ڈر رہے ہیں
شہسوار ہموار رستے سے ڈ ر رہا ہے
طبیب بیمارکو دیکھنے سے ڈر رہا ہے)
آج کل جب پوری دنیا میں لاک ڈاؤن ہے اگر چند سال پہلے کا زمانہ ہوتا تو شاید ہمیں یہی محسوس ہوتا کہ ان مرغیوں کی طرح ڈربے میں بند ہیں جن کو (مری) جو ایک بیماری ہے جس سے کوئی مرغی زندہ نہیں بچتی جب تک اسکو صحت مند حالت میں علیحدہ ڈربے میں نہ رکھا جائے. اب اس مرغی کو نہ دوسری مرغیوں کا کوئی پتہ ہے اور نہ باہر کی دنیا کاآج سے سوسال تقریباً ایک صدی پہلے طاعون اور چیچک نے دنیا میں کیا کیا تباہیاں مچادی دیں انسانیت کی نصف آبادی آج بھی ان واقعات سے لاعلم ہے مگر آج ہر فرد کو کرونا کے تازہ تریں حالات کا علم ہے. یہ سب جدید سائنس کی دین ہے. انتیسویں صدی میں جو وبائیں آئیں انکا بھی کسی کو تفصیلی علم نہیں. مگر جب ہم تاریخ کے اوراق میں جھانک کر دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان تمام واقعات پہ ادبی تخلیقات ہوئی تھیں. دنیا کی تمام زبانوں میں انکی مثالیں موجود ہیں. مگر چونکہ ہماری گفتگو کا موضوع کرونا اور آج کا ادب ہے تو اس پہ بات کرتے ہیں. آج کل چونکہ جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے آپ سب اس سے واقف ہیں لمحے لمحے کی خبر پہنچ رہی ہے. تو بیماری کے ساتھ ساتھ کرونا کے متعلق تخیلق شدہ ادب بھی سامنے سے گزر رہا ہے. جو سوشل میڈیا کی عنایت خاص ہے.
پچھلے دنوں ایک کارٹون دیکھا تھا سوشل میڈیا پہ وہ یہ تھا کہ شوہر گھر میں ہے مگر بیوی ڈنڈا اٹھا کر اسے گھر سے بھگانا چاہتی ہے اور وہ ڈر کے مارے دروازے کا رخ کرتا ہے جونہی سر باہر نکالتا ہے پولیس والے اس کے سر پر ڈنڈوں کے وار کرکے باہر نکلنے نہیں دیتے. اب یہ ایک تخلیقی عکس بندی ہے.
اس طرح کی اور بھی بہت سی چیزیں دیکھی ہیں کہ شوہر گھر میں بیوی کے بالوں سے جوئیں تلاش کرکر نکال رہا ہے.
کارٹون کے علاوہ جگت بازی بھی ادب ہی ہے اور کئی جگتیں تو ضرب المثل بن چکی ہیں. لاک ڈاؤن کے دوران بھی جگت بازی جاری ہے
لاک ڈاؤن کے دنوں میں ویڈیو کال کے دوران ایک باہر کے دوست نے گھر بیٹھے کسی دوست پوچھا تیرے کان آج بہت لمبے نظر آرہے ہیں تو اس نے کہا بھائی کیوں جگتیں مارتے ہو دو ہفتے گھر رہتے تو تمہارے کان اس سے بھی لمبے ہوتے.
اس کے علاوہ شعرا کا کلام جن میں جذبات کی ترجمانی تھی کہیں اور کہیں دل کو بہلانے والی باتیں. جیسے ایک پنجابی شاعر نے کہا کہ پوری زندگی روٹی گول روٹی پکانے کی کوشش کرتا رہا بالآخر لاک ڈاؤن کے دنوں میں سیکھ لیا. پشتو کے ایک شاعر کا ایک دوست بتارہا تھا کہ انہوں نے کہا کہ یزید نے امام حسین کا پانی بند کردیا کرونا نے نسوار سارے ڈاکٹر کہتے ہیں کہ تمباکو نوشی چھوڑ دیں ورنہ کرونا کا خطرہ زیادہ ہے.
ہمارے ایک دوست نے مضمون لکھا کہ اگر میرا بیٹا پیدا ہوا تو میں اسکا نام کرونا بگٹی رکھ دوں گا
یہ تو دو چار لطیفے نما تراجم تھے.
مگر جو عکاسی شعراء اور نثر نگاروں نے کی وہ کمال ہے آپ اگر صرف بلوچی سندھی پنجابی پشتو یا اردو میں کرونا پہ کیے گئے شاعری کو جمع کریں تو ہر زبان کی شاعری کا ایک الگ مجموعہ تیار ہوسکتا ہے نہ جانے اس کے بعد کیا لکھا جائے گا. مضمون چونکہ اردو میں ہے اس لیے یہاں سوائے اردو کے کسی اور شاعری یا نثر کو لکھ دینا ممکن نہیں ہے۔ اردو میں جو لکھا گیا اسکی چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔ ادریس بابر کا شعر ہے.
ٹینشن سے مرے گا نہ کرونے سے مرے گا
اک شخص ترے پاس نہ ہونے سے مرے گا
ایک اور شاعر کا شعر ہے
رکھا نہ کرونا نے کسی اک کا بھرم بھی
مے خانہ بھی خالی ہے، کلیسا بھی، حرم بھی
ایک اور شاعر کے جذبات دیکھیں.
‘ایک ہی صف میں مرغا بن گئے محمود و ایاز
نہ کوئی دہی لاسکا، نہ کوئی آلو و پیاز’
ہمارے ایک دوست ہیں وہاب شوھاز انکی ایک پوری غزل ہے جوپیش ہے
اپنے گھر کے, در و دیوار سے, ڈر لگتا ہے
گھر کے باہر, تیرے گلزار سے, ڈر لکتا ہے
فاصلے بن گئے, تکمیلِ محبت, کا سبب
وصلِ جاناں سے, رُخِ یارسے, ڈر لگتا ہے
اُسکی یادوں سے ہی تسکینِ تصور کرلوں
اب مجھے, محفلِ دلدار سے, ڈر لگتا ہے
سارے تبدیل ہوے, مہر و وفا کے دستور
چاہنے والوں کے, اب پیار سے ڈر لگتا ہے
خوشبووں,لذتوں,رنگوں میں خوف پنہاں ہے
برگ سے پھول سے اشجار سے ڈر لگتا ہے
تھی کسی دور, علیلوں کی عیادت واجب
لیکن اب, قربتِ بیمار سے, ڈر لگتا ہے
جنکی آمدکو سمجھتے تھے خداکی رحمت
ایسے مہمانوں کے, آثار سے, ڈر لگتا ہے
اب تو لگتا ہے, میرا ہاتھ بھی اپنا نہ رہا
اس لئے, ہاتھ کے تلوار, سے ڈر لگتا ہے
تن کیکپڑے بھی عدو, پیرکیجوتے دشمن
سر پہ پہنے ہوئے, دَستار سے ڈر لگتا ہے
ایک نادیدہ سی ہستی نے جھنجوڑا ایسے
خلق کو, گنبد و مینار, سے ڈر لگتا ہے
بن کے ماجوج, نمودار ہوا, چاروں اور
اِسکی یاجوج سی, رفتار سے, ڈر لگتا ہے
عین ممکن ہے یہاں سب ہوں کورونا آلود
شہر کے. کوچہ و بازار سے. ڈر لگتا ہے
خوف آتا ہے صحیفوں کی تلاوت سے اب
ہر رسالے سے, ہر اخبار سے, ڈر لگتا ہے
اب تواپنوں سیمصافحہ بھی پُرخطرہے وہاب
یوں نہیں ہے, فقط اغیار سے, ڈر لگتا ہے
ایک مشہور بلوچی شعر ہے جو اب ایک کہاوت بن چکی ہے
بے زرا مرو بازارا
روحءَ چی مدئے آزارا
ترجمہ. خالی جیب کبھی بازارا مت جانا خوامخواہ آزار لینے والی بات ہے.
اس پہ میں نے کچھ یوں اضافہ کیا
گو زراں دہ مہ رو بازارا
کرونا چھرغیں بیوارا
نواں دستا بھا گرئے آزارا
ترجمہ آپ کی جیب گرم ہو تب بھی بازار کا رخ مت کرنا کہ وہاں کرونا گھوم رہا ہے یہ نہ تو اپنے پیسوں سے دکھ خرید لائے.
جب ہاتھ دھونے کی بات ہوئی تو یہ مزاحیہ جملہ عام ہوا
کھایا پیا چین نے ہاتھ پوری دنیا دھو رہی ہے.
معلوم نہیں یہ کس نثر نگار کا جملہ ہے
اس سے پہلے صرف اسلام اتنی تیزی سے پھیلا تھا.
ایک اور جملہ
جلدی سو جاؤ صبح اٹھ کر آرام بھی کرنا ہے.
آخر میں اللہ بشک بزدار کے کالم
(عالمی ہیجان کے دور میں کرونا) سے ایک اقتباس.
کچھ عرصے کے بعد کورونا دنیا کی 7 ارب آبادی سے کئی ہنستے مسکراتے انسانوں کا خراج وصول کر کے ماضی کا قصہ بن جائے گا. اور زندگی ایک دفعہ پھر اپنی ڈگر پر روان دواں ہوگی.

اپنا تبصرہ بھیجیں