جراحت

تحریر: انور ساجدی
صدرٹرمپ نے کہا ہے کہ کرونا کے بعد عوام میں انکی مقبولیت مزید بڑھ گئی ہے وہ دوروز قبل اپنی طرف سے منعقدہ بریفنگ سے واک آؤٹ کے بعد اظہار خیال کررہے تھے انہوں نے کہا کہ چند چینل اوراخبارات انکی مخالفت کررہے ہیں جبکہ عوام ان کے ساتھ ہیں انہوں نے یہ دلچسپ تبصرہ بھی کیا کہ انکے مدمقابل کوئی اپوزیشن گراؤنڈ پر نہیں ہے البتہ انکی مخالفت صرف آن لائن پر ہے صدرٹرمپ پرتنقید اس وقت شروع ہوگئی تھی کہ جب انہوں نے مشورہ دیا تھا کہ عام استعمال کی جراثیم کش ادویات کے انجکشن بناکر کرونا کوماردیاجائے انکے مشورہ کے بعد ایسی ادویات بنانے والی تمام کمپنیوں نے اس بات کو احمقانہ قراردیا اور کہا کہ انکی دوائیں انجیکٹ نہیں ہوسکتی ان کمپنیوں میں ڈیٹول بنانے والی کمپنی بھی شامل تھی اگلے دن جب انکے مشیروں نے سمجھایا کہ آپ غلط مشورے نہ دیا کریں اس سے لوگوں کی جان جاسکتی ہے کیونکہ دوا اور ویکسین بنانا ماہرین طب کا کام ہے آپ کا نہیں اپنے بیان کے بعد کھسیانی ہوکر مسٹر ٹرمپ نے کہا کہ وہ تو انہوں نے مذاق کیا تھا میڈیا نے اسے سنجیدہ لیا صدر ٹرمپ اس لئے زیادہ پریشان ہیں کہ شروع میں انہوں نے کہا کہ تھا کہ یہ عام فلو ہے اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے اسکی وجہ سے لاک ڈاؤن احمقانہ خیال ہے لیکن اب جبکہ امریکہ میں مریضوں کی تعداد ایک ملین تک پہنچ گئی ہے اور ہلاک شدگان کی تعداد60ہزار کے قریب ہے تو ٹرمپ صاحب گھبراگئے ہیں کبھی وہ گورنروں کو برابھلا کہتے ہیں کبھی چین پرالزام لگاتے ہیں یعنی ایک دن بھی وہ چین سے بیٹھنے کے روادار نہیں ہیں۔امریکی عوام تو پاکستانیوں سے بھی گئے گزرے ثابت ہوئے ہیں کئی شہروں میں لوگوں نے لاک ڈاؤن کیخلاف مظاہرے کئے ہیں کیونکہ کرونا کی وجہ سے ڈھائی کروڑ لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں اور انکی تعداد بڑھنے کا امکان ہے ٹورزم مکمل طور پر بند ہے جہاز رانی اور پروازیں بند ہیں ہوٹل اور ریستورانوں کابزنس دم توڑگیا ہے موٹرسازی موقوف ہے تمام چھوٹے ریٹیلرز ختم ہوچکے ہیں لیکن امازون کی اونچی پرواز جاری ہے جیف بیروز کی دولت میں 20ارب ڈالر کااضافہ ہوچکا ہے ایشیاء میں جیک ما کے علی بابا کا کاروبار اتنا بڑچکا ہے کہ صرف دوماہ میں جیک ما بھارت کے مکیش امبانی کو پیچھے چھوڑ کرایشیاء کے سب سے بڑے دولتمند کااعزاز حاصل کرچکے ہیں وجہ انکی آن لائن سروس اور اشیائے ضروریہ کی سپلائی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا کی وجہ سے دنیا اسکی ضروریات اور ترجیحات تبدیل ہورہی ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لندن کا سپراسٹور ہیروڈ بند ہوچکا ہے یہ وہ اسٹور تھا کہ بکنھگم پیلس اور وزیراعظم کا سامان یہاں سے جاتا تھا امریکہ اور یورپ میں آن لائن ریٹیلرز کاروبار کئی گنا بڑھ چکا ہے جبکہ روایتی کاروبار نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے گزشتہ روز کراچی کے ایک سٹیھ نے کہا کہ اسکے گوداموں میں 16ارب روپے کامال پڑا ہے لیکن وہ چند ہزارروپے کیلئے محتاج ہیں۔ایک اور عجیب بات یہ دیکھنے میں آرہی ہے کہ کرونا کی دوا نہ ہونے کی وجہ سے ادویات کابزنس بلندسطح پر ہے لوگ بلاوجہ ایسی ادویات خرید رہے ہیں کہ انکی ضرورت ہی نہیں ہے امریکہ نے امیگریشن بند کرنے کا جو قدم اٹھایا ہے اسکے جاری رہنے کاامکان ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک لوگ سیروسیاحت کیلئے امریکہ کا رخ نہیں کریں گے امریکہ کے لئے کرونا سے پہلے نئی ولایت کادرجہ رکھتا تھا جبکہ پرانی ولایت برطانیہ عظمیٰ کابھی اس سے براحال ہوگا اگرچہ گوری نسل میں علم اور سائنس کی صلاحیت بہت زیادہ ہے وہ موجودہ بحران سے باہر نکل آئے گی لیکن جب تک جو خلا پیداہوگا وہ یاجوج اور ماجوج پرُ کردیں گے پہلے سیاحوں کے پسندیدہ ممالک امریکہ اور یورپ تھے لیکن اب سیاحوں کی ایک بڑی تعداد مشرق بعید کارخ کرے گی جیسے کہ چین،ملائیشیا،انڈونیشیا،ویٹ نام،کمبوڈیا اور جنوبی کوریا انڈونیشیا کا جزیرہ بالی پہلے ہی سیاحوں کا پسندیدہ مقام ہے یہ چونکہ بہت بڑاملک ہے اس لئے وہاں سیروتفریح کے اور بے شمار مقامات بھی ہیں گھنے جنگلات طرح طرح کے چرند پرند آتش فشان اور وسیع سبزہ زار سیاحوں کیلئے کشش کاسامان رکھتے ہیں۔تھائی لینڈ توسیاحت کے لحاظ سے ٹاپ پر ہے لیکن امریکہ کے ہاتھوں تباہ شدہ ویت نام اپنا انفرااسٹرکچر اتنا ڈویلپ کرچکا ہے کہ لوگ بڑی تعداد میں وہاں جارہے ہیں۔ملائیشیاء سیاحت کے حوالے سے ایک اور پسندیدہ ملک ہے مشرق بعید کے تمام ممالک میں شفاف ساحل دلکش سفید ریت اور گھنے جنگلات دلچسپی کااچھاخاصا سامان رکھتے ہیں چین رقبہ میں تقریباً امریکہ کے برابر ہے وہ 25سال پہلے تک بند سماج تھا لیکن اب یہ سیاحت کیلئے اوپن کردیا گیا ہے اسکے بے شمار مقامات ابھی تک پوشیدہ ہیں سیاح انکے کھوج میں وہاں جاسکتے ہیں۔
اگرانڈیا میں ملا مودی نہ ہوتے تو دنیا کے بے شمار سیاح اور کاروباری طبقہ اس کا رخ کرسکتا تھا لیکن مودی نے اپنی حماقتوں سے اپنے ملک کے دروازے بند کردیئے ہیں حالانکہ امریکہ اور یورپ میں جوکساد بازاری شروع ہوئی ہے انڈیا اس کا فائدہ اٹھاسکتا تھا خود پاکستان کے شمالی علاقہ جات کوہ پیماؤں کیلئے جنت کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس ملک کے حالات اتنے ناموافق ہیں کہ سیاح یہاں کارخ نہیں کرتے دہشت گردی کا خوف اب بھی موجود ہے یہاں کے انتہا پسند ملاصاحبان بدستور ریاست کی رٹ کوچیلنج کئے ہوئے ہیں اور وہ ایک طرح سے متوازی آرڈر چلارہے ہیں۔کرونا کی وبا کی وجہ سے جب حکومت نے ہدایت کی کہ مساجد میں نمازوں کااہتمام نہ کیاجائے تو مفتی منیب اور تقی عثمانی نے اکٹھے بیٹھ کر اس فیصلہ کی مزاحمت کااعلان کیاجسکی وجہ سے حکومت کو ہتھیارڈالنے پڑے۔مولانا طارق جمیل نے وزیراعظم کی موجودگی میں جس طرح فحاشی عریانی اور بے حیائی کا ذکر کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کا طاقتور دینی طبقہ خواتین کے موجودہ کردار اور سرگرمیوں سے مطمئن نہیں ہے وہ طالبان کی طرح پاکستانی خواتین کو بھی شٹل کاک برقعے پہناکر گھروں تک محدود رکھناچاہتے ہیں۔حالانکہ پاکستان کی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں ایک تہائی تعدادخواتین کی ہے خود مذہبی جماعتوں نے بھی کئی خواتین کو اسمبلیوں میں بھیجا ہے پاکستان کامذہبی حلقہ اتنا زور ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ عالم اسلام کا واحد اسلامی ملک پاکستان ہے اور یہاں پر دینی طبقہ کا غلبہ ہوناچاہئے پہلے سعودی عرب کی مثالیں دی جاتی تھیں لیکن وہاں پر ولی عہد محمد نے بہت تبدیلیاں برپا کی ہیں خواتین کو کافی حد تک آزادی دی ہے اب تو تعزیری سزاؤں میں تبدیلی کافیصلہ بھی کیا گیا ہے گزشتہ روز وہاں پر ”درّوں“یعنی کوڑوں کی سزا ختم کردی گئی وہاں پر تجویز زیرغور ہے کہ سرعام سرقلم کرنے کی سزابھی ختم کی جائے کرونا کی وجہ سے سعودی عرب نے مکہ اورمدینہ میں کرفیو لگادیا اور لوگوں سے کہا کہ وہ گھروں کے اندرنماز پڑھیں لیکن پاکستانی ملاصاحبان زیادہ زور ہوئے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں قانون کی حکمرانی نہیں ہے جس کی وجہ سے حکومتی رٹ صرف مخالفین پرنافذ ہے حیرانی کی بات ہے کہ ملاصاحبان نے ابھی تک شرعی نظام کے نفاذ کیلئے تحریک کیوں شروع نہیں کی حالانکہ یہ موقع نہایت موزوں ہے کیونکہ وزیراعظم خودریاست مدینہ کے قیام کی باتیں کررہے ہیں گزشتہ روزتحریک انصاف کی24ویں سال تاسیں کے موقع پر انہوں نے فرمایا کہ تحریک انصاف کے قیام کا مقصد اسلامی فلاحی ریاست کا قیام ہے اگریہ بات درست ہے تو وزیراعظم ابھی تک انگریزی قوانین کیوں چلارہے ہیں۔کوئی90سال پہلے ریاست قلات کے چیف جسٹس مولانا عبدالصمد سربازی نے شرعی قوانین مرتب کئے تھے جنہیں احمد یار خان نے نافذ کیاتھا دنیا کے کئی جید علماء نے قراردیا ہے کہ شرعی نظام کے نفاذ کیلئے اس سے بہترین قوانین اور نہیں ہیں حضرت مولانا عمران خان کو چاہئے کہ وہ قلات کے شرعی قوانین کا مطالعہ کریں اورجید علماء سے مشورے کے بعد انہیں نافذ کردیں۔کیونکہ زبانی کلامی ریاست مدینہ قائم نہیں ہوسکتی وزیراعظم کے روحانی پیشوا جنرل ضیاء الحق بھی گیارہ سال تک آسرا دیتے رہے کہ وہ اسلامی نظام نافذ کردیں گے وہ ایسا نہیں کرسکے کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے وزیراعظم بھی اسی طرح کی سطحی باتیں کررہے ہوں جن کا مقصد اپنے اقتدار کو استحکام اور دوام بخشنا ہو اگروزیراعظم سنجیدہ اورمخلص ہیں تو ملک کے تمام چیدہ چیدہ علماء کو بلائیں اور ان سے کہیں کہ وہ ایک اسلامی آئین مرتب کریں تاکہ اسے فوری طور پر نافذ کیاجاسکے۔
جہاں تک مولاناطارق جمیل کا تعلق ہے تو
انکے بیان پر جید علماء کی طرف سے اعتراض
کے بعد وہ سہم گئے ہیں
اس سلسلے میں ویسٹ بنگال کی ایک
کہانی پیش خدمت ہے
انگریزوں کے دور میں ویسٹ بنگال میں ایک ہی
میڈیکل کالج تھا جو کلکتہ میں تھا وہاں
سے فارغ التحصیل ڈاکٹر پورے صوبے میں
خدمات انجام دیتے تھے ان میں ایک ڈاکٹر
کی پوسٹنگ ایک دوردراز قصبہ میں ہوا
تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ انکے اسپتال کوئی مریض آتا ہی نہیں ہے پوچھنے پراسپتال کے اسٹاف نے بتایا کہ سارے لوگ ایک جراح کے پاس جاتے ہیں جس کے ہاتھوں میں بڑی شفا ہے وہ مایوس ہوکر کلکتہ گئے جہاں اس نے سینئرپروفیسر سے مشورہ کیا اس نے کہاکہ تم روزانہ جراح کے پاس جایا کرو اور کچھ عرصہ کے بعد اسے سمجھاؤ اگر تم انسانی باڈی کو پڑھ کر جراحی کرو تو آپ کی پریکٹس زیادہ کامیاب ہوجائے گی چنانچہ ڈاکٹر واپس قصبہ گئے اورجراح کے پاس جاکر تعارف کروایا اور کہا کہ میں آپ کاکام دیکھنا چاہتا ہوں چند روز بعد اس نے کہا کہ آپ عظیم جراح ہیں لیکن آپ کو انسانی باڈی اسکی ہڈیوں اور رگوں کا علم نہیں لہٰذا پہلے آپ مجھ سے اسکی تعلیم حاصل کریں اسکے بعد اپناکام جاری رکھیں جراح نے کچھ ہفتے ڈاکٹر سے تعلیم حاصل کی ایک دن ڈاکٹر نے کہا کہ اب استرااٹھاکرآپ آپریشن کرو لیکن جراح نے جب استرا اٹھایا تو اسکے ہاتھ کانپنے لگے اس کا اعتمادختم ہوچکا تھا اسے ڈرتھا کہ کہیں رگ کٹ نہ جائے۔کوئی ہڈی نہ ٹوٹ جائے اس دن کے بعد جراح نے یہ کام چھوڑدیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں