کرونا اور ڈارون کا نظریہ ارتقا

تحریر: پرویز ہود بھائی
چارلس ڈارون ایک ایسا نام ہے جس سے پاکستانیوں کو نفرت کرنا سکھایا جاتاہے۔ اسکول کے اساتذہ اور یونیورسٹی کے پروفیسر صاحبان جنہیں ڈارون کے نظریہ ارتقا کی تعلیم دینے کی ذمہ داری تفویض کی جاتی ہے، وہ عمومی طور پر اس موضو ع کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ اگر کوئی بادل نخواستہ اسے پڑھا ہی دے تو وہ پہلے اس پر طنزیہ فقرہ کہتا ہے اور پھر اپنا لیکچر شروع کرتا ہے۔ عام طور پراسکولوں میں پڑھائی جانے بیالوجی کی کتاب اس نظریہ کو فضول گردانتی ہے اور دعوی کرتی ہے کہ نسلوں کے ارتقا پر یقین کرنا ایسے ہی ہیں جیسے کہ ہم قیاس کرلیں کہ جب دو رکشہ آپس میں ٹکرائے تو موٹر کار تیار ہوگئی۔ عمران خان نے 2002 میں اپنے ایک مضمون میں مغرب کے لوگوں پر الزامات عائد کیے، جس میں اس نے کہا کہ ”ڈارون جیسے فلاسفر نے اپنے خام نظریات کی بنیاد پر انسانوں کی تخلیق اور مذہب کو مفروضہ طور پر غلط ثابت کیا ہے“۔
کرونا سے دنیا پر تباہ و بربادی کے منڈلاتے ہوئے خطرات کے پیش نظر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ڈارون فلسفی ہونے کی بجائے فطرت پسند، ماہر حیاتیات اور ماہر ارضیات تھا۔ اس حقیقت سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ بنیاد پرست عیسائی، یہودی اور ہندو بھی ڈارون پر کڑی تنقید کرتے ہیں۔ اس سب کے باوجودآج کے بدمعاش وائرس سے نپٹنے کی ہر امید ڈارون کی دو سو سال پرانی دریافت ’انتخاب کا اصول‘ پر مرکوز ہے۔
مختصراً! قدرتی انتخاب کا کہنا ہے کہ مذہبی روایت کے برعکس زمین پر زندگی پہلے سے ہی موجود تھی، نہ ہی اس کا کوئی پہلے سے طے شدہ مقصد تھا۔ بلکہ اس نظریہ کے مطابق انسان یا خوردبینی جراثیم سمیت زندگی کی صر ف وہ صورتیں باقی رہ جاتی ہیں جو خود کو ایک خاص ماحول کے مطابق ڈھال لیں، جبکہ باقی سب مرجاتے ہیں۔ نظریہ ارتقا کے مطابق سب سے اہم بات یہ ہے کہ نئی قسم کی زندگی اور مالیکولز بغیر کسی مخصو ص ترتیب کے وجود میں آتے ہیں۔ کرونا وائرس جیسے کچھ امراض کو جونہی مناسب جانوریا انسانی سیل میسر آئے گا وہ نمو پائے گا۔
کیا آپ کو اس بات پر یقین نہیں آیا؟ آپ ایسا کریں کہ کچھ سلائیڈز اور طاقتور مائیکروسکوپ لیں۔ میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ اس کام کے لیے دس لاکھ ڈالر مالیت کی الیکٹرون مائیکروسکوپ بہترین رہے گی۔ پھر انتظار کریں اور دیکھیں کہ خلیے دوبارہ پیدا ہوتے ہیں۔ جلد ہی آپ کو کچھ ایسی چیزیں نظر آئیں گی جو نامکمل کاپیاں ہوں گی، جو زیادہ خراب حالت میں ہوں گی وہ مرجاتی ہیں اور کچھ زندہ رہ جاتی ہیں اور پھر تیزی سے بڑھنا شروع ہوجاتی ہیں۔
مثال کے طو رپر اس بات پر غور کر نا دلچسپ ہوگا کہ کینسر کے خلیوں کی تشکیل کس طرح ہوتی ہے۔ سلوآن کیٹرنگ کینسر سنٹر کے تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ بیکٹریا کی کچھ نسلوں کا جب ماحول بدلا جا تا ہے تو وہ کس طرح ردعمل ظا ہر کرتے ہیں۔ اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے مالیکولر بیالوجسٹ ہیمنت ملک کا قدرتی ارتقا کے بارے میں کہنا ہے کہ ”دنیا یقینی طور پر چوہے اور بلی کا کھیل ہے۔ وائرس نشوونما پاتے ہیں، میزبان انہیں اپناتاہے، پروٹین تبدیل ہوتے ہیں اور وائرس ان سے بچ نکلتا ہے، یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں