پاکستان کی معیشت میں بہتری کے اشارے؟
وزیر اعظم عمران خان نے بہاول پور میں صحت کارڈ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر کہا ہے کہ پاکستان ابھی اپنی معیشت کو بہتر بنانے کی کوشش میں مصروف ہے، آج ملک کا رواں مالی سال کا خسارہ 2018کی ہوشربا سطح پر نہیں، اسے پر قابو پالیا گیا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ مزید بہتری آئے گی۔کورونا کی وبا کے باوجودپاکستانی معیشت میں بہتری کا اعتراف عالمی معاشی میگزین اکنامسٹ اور بلوم برگ جیسے میگزین کرتے ہیں۔تین سال پاکستان کارکردگی کے لحاظ سے پہلی تین پوزیشن والے ملکوں میں شامل رہا۔آج معاشی بہتری کے اشارے مل رہے ہیں۔انہوں نے یاد دلایا کہ پاکستان کے دستور میں قرادادِ مقاصد شامل ہے، اس میں ملک کو فلاحی ریاست بنانے کا وعدہ لکھا ہے مگر اس وعدے کی تکمیل کے لئے سنجیدہ اقدامات نہیں کئے گئے۔ ملک میں ویسے توتمام اداروں کو معیاری بنانے سے عدم توجہی برتی گئی لیکن صحت کے شعبے کو نظر انداز کیا گیا،حکمران خاندان نزلے زکام کا علاج کرانے ملک سے باہر جاتے تھے مگر غریبوں کو بے یارو مددگار چھوڑدیا گیا۔آج پی ٹی آئی کی حکومت اپنے تمام شہریوں کو ایسی سہولتیں فراہم کر رہی ہے جہاں امیر اور غریب دونوں کو ایک جیسی سہولتیں دستیاب ہوں گی۔سرکاری اسپتالوں کی یہ حالت ہے کہ ڈاکٹرز نہیں جاتے،غریبوں کو ڈسٹرکٹ اسپتالوں میں جانا پڑتا ہے،جہاں مریضوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے، ایک بیڈ پر دو، دو اور تین، تین مریض لٹائے جاتے ہیں۔اب صحت کارڈ کی بناء پر مریض پرائیوٹ اسپتالوں میں علاج کرائیں گے،اس سہولت کی اہمیت سے وہی واقف ہے جس کے بچے یا والدین کو علاج کی ضرورت ہو مگر پیسے نہ ہونے کی وجہ سے وہ انہیں تکلیف میں دیکھتے رہتے ہیں مگر اسپتال نہیں لے جا سکتے، علاج نہیں کرا سکتے۔انہوں نے نجی شعبہ دیہاتوں میں بھی مریضوں کے لئے اسپتال قائم کریں گے کیونکہ ہر خاندان کے پاس سالانہ 10لاکھ روپے تک علاج کا صحت کارڈ ہوگا۔ اس کے علاوہ سرکاری اسپتال بھی مسابقت کی دوڑ میں اپنی کارکردگی بہتر بنانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ سہولت امیر ملک بھی اپنے شہریوں کو فراہم نہیں کر تے۔جو ہیلتھ انشورنس پریمیم ادا کرتا ہے صرف اسے یہ سہولت میسر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب کاصحت کارڈ بجٹ 400ارب روپے ہے۔اور صحت کے شعبہ میں اتنی بڑی رقم مختص کرنے کا کسی نے سوچا بھی نہیں۔انہوں نے خیبرپختونخوا کے کامیاب تجربے کو اس سمت میں اساس قرار دیااور کہا کہ یہ سہولت بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، ہر خاندان کو میسر ہوگی۔ان کا اشارہ سندھ کی طرف تھا کہ وہاں پی پی پی کی حکومت ہے،اوریہ ذمہ داری اسی کو پوری کرنی ہوگی کیوں کہ صحت صوبائی مسئلہ ہے۔بعض پاکستانی معیشت دان وزیر اعظم کے برعکس یہ رائے رکھتے ہیں کہ اصل سچائی یہ ہے پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے اور صرف اس کارسمی اعلان ہونا باقی ہے۔عین ممکن ہے کہ معیشت کو دیکھنے کا ان کا پیرایہ حکومتی وزارت خزانہ کے پیمانے سے مختلف ہوں، ان کی ترجیحات مختلف ہوں،اور وہ انتہائی ایمان داری سے سمجھتے ہوں کہ حکومت جس راہ پر ملکی معیشت کو لے کر چل رہی ہے اس کا انجام دیوالیہ ہونے کی صورت میں سامنے آئے گا۔لیکن حکومتی معاشی پالیسی کو غلط سمجھنے والے ماہرین معیشت سابق حکومتوں (پی پی پی اور پی ایم ایل این) کے معاشی مشیر رہ چکے ہیں۔اگر ان کی وضع کردہ معاشی حکمت عملی غلطیوں سے پاک تھی تو وہ 2018میں ملکی تاریخ کا اتنابڑا بجٹ خسارہ اور قرضوں کی فوری ادائیگی کا بوجھ چھوڑنے پر کیوں مجبور ہوئی؟کیا 50سال تک ملک میں ایک ڈیم بھی تعمیر کرنا ملکی معیشت کو زوال پذیر کرنے کااس ایک بڑا سبب نہیں تھا؟کیا اس غلطی کے نتیجے میں ملک بیک وقت صنعتی اور زرعی،دونوں شعبوں میں،مفلوج ہو کر نہیں رہ گیا؟ملک میں ایک جانب سستی بجلی (پن بجلی)پیدا ہونایکسررک گئی اور دوسری جانب زراعت کے لئے دراکار پانی ختم ہوتا چلا گیا۔آج پاکستانی شہری پینے کے پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔زیر زمین پانی کی سطح اس حد تک گر چکی ہے کہ اول تو مہنگی بجلی کی مدد سے اسے اتنی گہرائی سے سطح زمین تک لانا زرعی اور صنعتی ہر دو اعتبار سے قابل عمل نہیں رہا۔ اس سے پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے،دیگر ملکوں سے منڈی میں مسابقت کی صلاحیت پاکستان کے ہاتھ سے جاتی رہی اور وہی نتیجہ نکلا جو ریکارڈ کا حصہ ہے۔اگر ملک کو معاشی تباہی کے دہانے تک پہنچانے والوں کی فہرست میں آج کے ناقد معیشت دان شامل نہ ہوتے تو عوام یقینا ان کی رائے کو معتبر سمجھتے۔50سال میں جن ملکوں نے ڈیم تعمیر کئے، قدرتی آبی دولت کو اپنی معیشت کا کارآمد حصہ بنانے سے فرار کی راہ اختیار نہیں کی،ان کی معیشت پاکستان کی معیشت سے نمایاں حد تک بہتر اور مستحکم ہے۔کیاناقدینِ معیشت اپنی اس غلط اور تباہ کن غلطی کا عالمی دلائل کی مدد سے دفاع کر سکتے ہیں؟خدا کو حاضر و ناظر سمجھ کر خود ہی جواب دیں۔ عوام مہنگائی کے جس عذاب میں گرفتار ہیں، اس جڑیں گزشتہ 50سال تک جاتی ہیں۔ اقتدار سنبھالتے ہی پی ٹی آئی کی حکومت جو قرضے ادا کرنے پڑے وہ ہر گز ہرگز پی ٹی آئی کی حکومت نے نہیں لئے تھے۔ اس نے تو سابق حکومتوں کے واجب الادا قرض ادا کئے اور آج بھی کر رہی ہے۔کم از کم ناقدینِ معیشت اتنی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ تو کریں اور عام آدمی کو بتائیں کہ یہ سب کچھ 50سال میں ایک ڈیم تعمیر نہ کرنے کا منطقی نتیجہ ہے، اور اس بھیانک غلطی کا ارتکاب پی پی پی اور مسلم لیگ نون دونوں نے کیا، زراعت اور صنعت کیسے چلے گی؟ قرضوں کی ادائیگی کیسے کی جا سکے گی؟اس بارے میں دونوں حکمراں
سیاسی پارٹیوں نے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔آئی پی پیز (بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں)سے کئے گئے معاہدے جن میں پیدا نہ کی جانے والی بجلی کی ادائیگی والی نقصان دہ شرط بھی شامل تھی، خدا لگتی کہیں تو پی ٹی آئی کے دور حکومت میں نہیں کئے گئے تھے۔جن وزراء نے ان معاہدوں پر دستخط کئے وہ عوام کے روبرو اعتراف تو کریں۔عوام کو گمراہ تو نہ کریں۔ اگربجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ ان معاہدوں کی وجہ تھی تب بھی اس لوڈ شیڈنگ کا ذمہ دار پی ٹی آئی کو قرار دینا کسی طور درست نہیں۔کل غلطی کی تھی،آج اس غلطی کا اعتراف کیا جائے۔اپنے دور میں کی گئی غلطیوں کے نتائج قبول کئے جائیں۔ صاف ستھری اوراصولی سیاست کا تقاضہ یہی ہے۔اپنے گناہ اپنے مخالفین کی جھولی میں نہ ڈالے جائیں، مستقبل کا مؤرخ اس ہٹ دھرمی کو قبول نہیں کرے گا۔


