پس چہ باید کرد

تحریر: انور ساجدی
آخر کار بلی تھیلے سے باہر آگئی یہ میاؤں میاؤں کرنے کی بجائے غرارہی ہے بالکل شیر کی مانند وفاقی کابینہ کے سینئروزیراسدعمر نے گزشتہ روز کہاکہ انکی حکومت نے18ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ ترمیم میں کچھ خامیاں ہیں جبکہ این ایف سی ایوارڈ یک طرفہ اور منصفانہ نہیں ہے۔
بظاہر وفاقی وزیرمنصوبہ بندی کااعلان سیاسی شوشہ لگتا ہے اور18ویں ترمیم کاخاتمہ بہت ہی مشکل نظرآتا ہے لیکن میراخیال ہے کہ اس سلسلے میں ”بڑوں“ نے کافی عرصہ پہلے کام شروع کیا تھا اس مقصد کیلئے لندن اور اسلام آباد میں ابتدائی مذاکرات بھی ہوچکے ہیں لیکن ن لیگ نے اپنی بارگینگ پوزیشن بڑھانے کیلئے کڑی شرائط رکھی ہیں اس لئے شروع میں یہ جماعت پیپلزپارٹی اور اے این پی سے بھی زیادہ واویلا مچائے گی سخت مزاحمت کااعلان کرے گی حتیٰ کہ نوراکشتی کی طرح حکومت یانیب کئی ن لیگی رہنماؤں کو گرفتار کرے گی میاں جاوید لطیف رانا ثناء حتیٰ کہ شہبازشریف کی دوبارہ گرفتاری بھی عمل میں آسکتی ہے لیکن خفیہ مذاکرات لندن میں جاری رہیں گے اور شرائط کے ساتھ سب سے بڑی شرط یہ ہوگی کہ مریم بی بی کو بھی لندن جانے کی اجازت دی جائے اس کے بعد ن لیگ اسی طرح18ویں ترمیم کے خاتمہ کی حمایت کرے گی جس طرح کہ اس نے آرمی ایکٹ کی حمایت کی تھی چونکہ پارٹی میں واحد ویٹو پاور میاں نوازشریف ہیں اس لئے فیصلہ انہوں نے اکیلے کرنا ہے اور پیچھے پارٹی کے اراکین اسمبلی میں انگوٹھا ثبت کردیں گے حالانکہ اس سے پہلے یہ ڈرامہ بھی ہوگا کہ میرشکیل الرحمن کیس میں نوازشریف کو اشتہاری ملزم قراردیاجائیگا۔18ویں ترمیم کے بارے میں دورائے ہیں جب زرداری نے یہ منظور کروایا تھا تو اس پر کوئی بحث نہیں ہوئی تھی کیونکہ انہوں نے میاں صاحب کو اسکی منظوری کیلئے قائل کیا تھا شروع میں اچھے خاصے لوگوں کو سمجھ نہیں آیا تھا کہ یہ کیا بلا ہے لیکن جب زرداری نے پہلا این ایف سی ایوارڈ دیا تو پتہ چلا کہ اس ترمیم کے ذریعے آدھے ملکی وسائل صوبوں کومنتقل ہوگئے ہیں جبکہ وفاقی حکومت کایہ اختیار باقی نہیں رہا کہ وہ صوبوں کو ڈکٹیٹ کرے یا ماضی کی طرح صدر کے ذریعے انہیں برطرف کروائے جو لوگ ترمیم کے حق میں ہیں انکے مطابق اسکے ذریعہ پاکستان پہلی مرتبہ صحیح معنوں میں فیڈریشن بن گیا ہے اور وفاقی اکائی کی حیثیت سے صوبے خودمختار ہوگئے ہیں حالانکہ زرداری کے بعد جب میاں صاحب اقتدار میں آئے تھے تو انہوں نے18ویں ترمیم کودل وجان سے قبول نہیں کیاتھا کیونکہ اس ترمیم کے تحت اعلیٰ تعلیم صحت اور اطلاعات صوبائی سبجیکٹ قراردیئے گئے تھے لیکن ن لیگ کی حکومت نے یہ محکمہ صوبوں کومنتقل نہیں کئے البتہ اس نے این ایف سی ایوارڈ کاخوب فائدہ اٹھایا کیونکہ اس سے صوبہ پنجاب کی مالی استعداد بہت بڑھ گئی تھی18ویں ترمیم کے بانی میاں رضا ربانی تو پسماندگی اوررقبہ کی بنیاد پر بھی کچھ فنڈز مختص کرنا چاہتے تھے لیکن ن لیگ کی مخالفت کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔ن لیگ کے زوال کے بعد جب حکومت تحریک انصاف کوملی تو یہ شروع سے اس ترمیم کے حق میں نہ تھی اور اس کا کہنا تھا کہ اسکی وجہ سے مرکز مالی اعتبار سے کمزور ہوگیا ہے اور وہ اپنے روزمرہ کے اخراجات پورے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے چنانچہ اسکے بعد بڑے اسٹیک ہولڈرنے غورفکر شروع کردیا کہ18ویں ترمیم میں مزید ترمیم کیسے عمل میں لائی جائے یا اس کا مکمل خاتمہ کس طرح کیاجائے مرکز نے بارہا18ویں ترمیم کی خلاف ورزی کی اور این ایف سی کے تحت صوبوں کیلئے مختص وسائل میں کٹوتی کردی جیسے کہ حال ہی میں اس نے صوبوں کے ترقیاتی بجٹ میں 40فیصد کمی کردی ہے کافی غوروفکر کے بعد یہ سوچا گیا کہ پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت کی حمایت کیسے حاصل کی جائے کیونکہ سینیٹ میں تو اپوزیشن کی اکثریت ہے جبکہ قومی اسمبلی میں بھی دوتہائی اکثریت کا حصول تقریباً ناممکن ہے لیکن بڑے اس نتیجے پرپہنچے کہ جس طرح صادق سنجرانی مطلوبہ ووٹوں کے بغیر چیئرمین منتخب ہوگئے تھے یااپوزیشن کی اکثریت کے باوجود انکے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوگئی تھی اسی طرح18ویں ترمیم کاخاتمہ ممکن ہے اس کے لئے سب سے اہم جماعت ن لیگ ہے اس جماعت کوآرمی ایکٹ کی منظوری کے وقت آزمایاگیا جو وہ اس آزمائش پرپوری اتری بڑوں کوتوقع ہے کہ میاں نوازشریف چند ذاتی سہولتوں کے حصول کے بعدترمیم کے حق میں ووٹ دیدیں گے میاں صاحب کوکیارعائتیں سہولتیں یاآسانیاں درکار ہیں تو وہی جانتے ہیں لیکن گماں یہی ہے کہ وہ اپنے اورخاندان کیخلاف مقدمات کاخاتمہ چاہتے ہیں تاکہ وہ اطمینان کے ساتھ ولایت میں رہ سکیں۔جہاں تک پیپلزپارٹی کا تعلق ہے تو سندھ کیلئے18ویں ترمیم زندگی اور موت کا مسئلہ ہے وہ حتیٰ الامکان مزاحمت کرے گی یہی مسئلہ اے این پی کیلئے بھی ہے اگرچہ حکومت یہ رسک نہیں لے گی کہ صوبہ پشتونخوا کانام تبدیل کرے لیکن اے این پی کو ڈرانے کیلئے حکومتی گروپوں نے پشتونخوا نام کو ہدف بنانا شروع کردیا ہے وہ لکھ رہے ہیں کہ اقلیتی نام کو افغانی گروپ کوخوش کرنے کیلئے صوبہ کانام تبدیل کیا گیا تحریک انصاف کو اگرچہ گزشتہ انتخابات میں پشتون ووٹوں سے کامیابی ملی لیکن اسکی روح میں پشتون دشمنی شامل ہے اور بڑی حد تک یہ جماعت خان عبدالقیوم خان کشمیری کی جانشین دکھائی دیتی ہے انگریزوں نے قیوم خان کوکشمیر سے بلاکر شمال مغربی سرحدی صوبے میں پلانٹ کردیا وہ پہلے کانگریس میں شامل ہوکر اسکے بڑے لیڈر بنے حتیٰ کہ انڈین پارلیمنٹ میں وہ کانگریس کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر کے عہدے پر فائز ہوگئے لیکن1946ء میں پلٹا کھاکر مسلم لیگ کی زینت بن گئے ان کا ساراقہر اور جبرخدائی خدمت گار تحریک کیخلاف تھا قیوم خان وہ رہنما تھے کہ انہوں نے آزاد پختونستان کانظریہ پیش کیا اپنی کتاب
GOLD AND GUN ON
NORTH WEST
FRONTIER SIDE
میں پختونستان کے حق میں دلائل دیئے لیکن پھر یوٹرن لیکر خان غفار خان پرالزام لگادیاکہ آزاد پختونستان وہ بنانا چاہتے ہیں قیوم خان کی طاقت پشاور کی شہری آبادی اور ہند کو بولنے والے علاقے تھے اسی آبادی کومسلم لیگ ایوب خان یحییٰ خان اوربھٹو نے بھی اپنے حق میں استعمال کیا1970ء کے عام انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو نے پشاور ون کے حلقے سے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی لیکن اب پشتونخواء میں ڈیموگرافک تبدیلی آگئی ہے افغان جنگوں کے نتیجے میں پشتون آبادی میں اضافہ ہوا ہے جبکہ فاٹا کے صوبہ میں انضمام کے بعد پشتون غالب اکثریت میں ہیں لیکن ایک بات یادرکھنے کی ہے۔
طویل منصوبہ بندی اور تپسیا کے بعد
پشتونخواء میں بڑی سیاسی معاشرتی
اورمعاشی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں
کئی ایسے لوگ حتیٰ کہ سیاسی لیڈر جو
اپنے آپ کو پشتون کہتے ہیں وہ ذہنی
اعتبار سے پشتون نہیں ہیں نہ ہی
پشتون ولی کی نزاکتوں اورمعیار سے
واقف ہیں انکے بارے میں کہاجاسکتا ہے
کہ یہ لوگ پشتواسپیکنگ ضرور ہیں
لیکن عملی پشتون نہیں ہیں
اس وقت تحریک انصاف کے بیشتر لیڈر
اسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں مثال کے
طور پر مرادسعید اور محمود خان کاتعلق تو
سوات سے ہے لیکن وہ جانتے نہیں کہ لالہ
افضل خان کون تھے علی محمدخان مردان کے
ہیں لیکن انگریز استعمار کیخلاف مردان نے
جو کردارادا کیا وہ اس سے آگاہ نہیں ہیں
مجھے جان اللہ کو دینی ہے والے آفریدی اپنے
عمل سے باالکل آفریدی نہیں لگتے
حالات کچھ بھی ہوں پشتونخوا کے لوگ جتنے بھی برین واش کیوں نہ ہوئے ہوں لیکن پشتون عوام اور پشتونخواء سرزمین کی نمائندگی اے این پی اور بھائی آفتاب شیرپاؤ کررہے ہیں انکے خلاف مضبوط مرکز والے بہت پرپیگنڈہ کرچکے ہیں آئندہ بھی کریں گے لیکن انہی کو معلوم ہے کہ پشتون تاریخ کیا ہے پشتون سرزمین کیا ہے انہی کے اسلاف نے ماضی میں ناقابل فراموش قربانیاں دی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اے این پی انتہا پسندوں کی سافٹ ٹارگٹ ہے یہ جماعت18ویں ترمیم کے خاتمہ کیخلاف بھرپور مزاحمت کرے گی سندھ کیلئے جوپلان بنا ہے وہ نیا نہیں ہے ضیاء الحق کا فیصلہ تھا کہ پیرپگارا اورنام نہاد سندھی قوم پرستوں کوملاکر سندھ پرمرکز کاقبضہ کروایا جائے لیکن ضیاؤ الحق کی ناگہانی موت بے نظیر کی واپسی اور پیرصاحب پگارا کی پیرانہ سالی کی وجہ سے اس منصوبے پرپوری طرح عمل نہ ہوسکا البتہ ضیاؤالحق کے دست راست غلام اسحاق خان نے سندھ پر قبضہ کرکے جام صادق علی کو وزیراعلیٰ بنایا بعدازاں جنرل مشرف نے انکے نقش قدم پر چل کر تھر کے ”ریلوکٹے“ رہنما ارباب رحیم کوآزمایا لیکن بینظیر کی شہادت کے بعد یہ ساری تدبیریں الٹی ہوگئیں حتیٰ کہ آصف علی زرداری نے صوبوں کو مکمل خودمختاری دیدی2018ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کوعبرتناک شکست کے باوجود سندھ کواس سے چھینا نہ جاسکا لیکن وفاقی حکومت نے کبھی سندھ حکومت کوتسلیم نہیں کیا اگرچہ زرداری سے یہ توقع باندھنا درست نہیں کہ وہ بھٹو کی طرح کوئی سیاسی لڑائی لڑیں گے لیکن یہ بات طے ہے کہ سندھ اور مرکزی سرکار کی لڑائی ایک تباہ کن جنگ کی بنیاد بن سکتی ہے کیونکہ مرکز کی سوچ یہ ہے کہ سندھ کو تقسیم کرکے اسکی ساحلی پٹی کو الگ یونٹ بنادیا جائے بلکہ مرکز کا بس چلے تو وہ سرے سے پارلیمانی نظام کو ختم کرکے اسکی جگہ صدارتی نظام قائم کردے لیکن ایسا کرنا اس ملک کیلئے تباہ کن ہوگا۔
میں شیخ مجیب الرحمن کی ایک تقریر سوشل میڈیا پر سن رہا تھا جو انہوں نے متحدہ پاکستان کے لیڈر کے طور پر 7مارچ1971ء کوڈھاکہ کے پلٹن میدان میں کی اسی تقریر میں انہوں نے سول نافرمانی کی تحریک کااعلان کیا۔
انہوں نے ہزاروں افراد کے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب جبکہ صدریحییٰ خان نے قومی اسمبلی کااجلاس ملتوی کردیاہے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ اقتدار اکثریت کومنتقل نہیں کیاجائیگا انہوں نے کہا کہ آپ نے ملک بننے کے بعد ہم پر جو مظالم ڈھائے پھر بھی ہم نے کہا کہ آپ ہمارے بھائی ہیں آپ نے1952ء،1954ء اور1958ء میں ہم پرگولی چلائی ہم نے اف نہیں کی آپ نے کہا کہ مغربی پاکستانی کی46فیصد آبادی،مشرقی پاکستان کی54فیصد آبادی کے برابر ہے ہم نے یہ بھی تسلیم کیا آپ نے ون یونٹ توڑ کر انتخابات کروائے ہم نے ان میں حصہ لیا ہمیں امید تھی کہ آپ پاکستان کے وسیع ترمفاد کی خاطر نتائج قبول کریں گے لیکن آپ نے یہ نتائج مسترد کردیئے ہیں تو سنو ہم آپ کی غلامی مزید برداشت نہیں کریں گے اب بنگال کے عوام آزادی لیکر رہیں گے اسکے ساتھ ہی ہمارا دیش تمہارا دیش بنگلہ دیش کے نعرے گونجنے لگے۔شیخ مجیب کو گرفتار کرکے پہلے راولپنڈی لایا گیا اور پھر عمران خان کے آبائی شہرمیانوالی جیل میں منتقل کردیا گیا پورے بنگال میں فوجی آپریشن شروع ہوگیا جو16دسمبر1971ء کوڈھاکہ کے پلٹن میدان میں اختتام پذیر ہوگیا وہ بھی ایک نیازی کے ہاتھوں جنرل امیرعبداللہ خان نیازی

اپنا تبصرہ بھیجیں