کمزور وزیراعظم اور علماء

تحریر:جیئند ساجدی
”خالی مٹکا بہت شورمچا تا ہے“ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں ”بھونکنے والے کتے بہت کم اوقات میں کاٹتے ہیں“ یہ کہاوتیں ان لوگوں کیلئے ہیں جو بڑی بڑی باتیں اور بلند و بالا دعوے کرتے ہیں لیکن عملاً وہ کچھ کرنے کے بھی قابل نہیں ہوتے۔ 1947ء سے لے کراب تک پاکستان میں پارلیمانی سیاست کرنے والے بیشتر سیاستدان ان کہاوتوں پر پورا اترتے ہیں۔ الیکشن سے قبل کافی اونچے دعوے کرتے ہیں لیکن الیکشن کے بعد کوئی موثر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتے۔ موجودہ وزیراعظم عمران اور ماضی کے وزراء اعظم میں یہ فرق ہے کہ ان کی نسبت عمران خان نے الیکشن سے قبل کچھ زیادہ ہی بلندو بالا دعوے کئے تھے،جیسے کہ وہ 90 دن میں پاکستان کی انتظامیہ کا گلہ سڑا نظام بہتر کرنے چلے تھے۔ تین کروڑ نوکریوں کا وعدہ بھی کیا تھا اور ترقی یافتہ ممالک سے لوگوں کی پاکستان میں نوکری کیلئے آنے کی پیشنگوئی بھی کی تھی،لیکن ان کی کارکردگی ماضی کے حکمرانوں کی نسبت ناقص رہی ان کے آنے کے بعد غربت اور بے روزگاری میں کافی اضافہ ہوا اور برآمدات بھی کم ہوگئیں روپیہ کے مقابلے میں ڈالر اپنی تاریخ کی اونچی سطح پر چلا گیا لہذا پرانا پاکستان عمران خان کے نئے پاکستان سے کچھ درجہ بہتر تھا۔
اپنے بلند و بالا دعوؤں کے برعکس عمران خان نے خودکو معمولی نوعیت کا ہی لیڈر ثابت کیا۔ ایک اچھے اور صلاحیت یافتہ لیڈر کا امتحان کسی بحران کے وقت ہوتا ہے اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ کرونا وائرس اس صدی کا سب سے بڑا بحران ہے جو دنیا بھر کے ممالک کے سربراہوں کی لیڈر شپ کی صلاحیتوں کا امتحان لے رہا ہے اس وقت کرونا دنیا کے کچھ ممالک میں زیادہ اورکچھ میں کم ہے۔ماہرین اس بات کی وجہ سے متعلقہ ممالک کی لیڈر شپ اور ان کی بہتر حکمت عملیوں کو قرار دے رہے ہیں۔صلاحیت یافتہ لیڈروں میں نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم جیکنڈا اردین، فن لینڈ کی خاتون وزیراعظم ثناء مانن جو عمر کے لحاظ سے دنیا کی سب سے کم عمر وزیراعظم ہیں،جرمنی کی چانسلر انجیلا مارکیل اور ڈنماک کی خاتون وزیراعظم میٹے فیڈرکسن شامل ہیں۔ ان چار خواتین وزراء اعظم اور ٹرمپ،عمران خان او ربورس جانسن میں یہ فرق ہے کہ ان خواتین وزیراعظم نے بروقت لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا اور ٹیسٹنگ کٹس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں کا ٹیسٹ کیا جبکہ ٹرمپ، عمران خان اور بورس جانسن یہ توقع لگائے بیٹھے تھے یہ وباء ان کے ملک میں نہیں آئے گی اور شتر مرگ والی حکمت عملی کو اپنایا،شتر مرگ جب طوفان یا کوئی اور موسمی خرابی دیکھتا ہے تو وہ کچھ اقدام کرنے کی بجائے اپنا سر زمین کے اندر ڈال دیتا ہے اور خطرے کو دیکھتے ہوئے بھی نظر انداز کر دیتا ہے۔عمران خان، ٹرمپ اور بورس جانسن کی غلطیوں کا خمیازہ اب ان کے ممالک کے عوام اٹھا رہی ہیں
یہ بات بھی کسی حد تک درست ہے کہ دیگر رہنماؤں کی نسبت عمران خان کیلئے مسئلہ بڑا ہے کیونکہ وہ ایک غریب ملک کے وزیراعظم ہیں اور یہاں صحت کا نظام پہلے سے ہی تباہ ہے لیکن کچھ مسائل ان کے اپنے پیدا کردہ ہے جیسے کہ انہوں نے بروقت لاک ڈاؤن سے انکار کیا اور ایران کا بارڈر بھی کھلوا دیا خیر جو ہوا سو ہوا اپنی غلطیاں درست کرنے کی بجائے وہ اب بھی غلطیوں پر غلطیاں کئے جا رہے ہیں۔نیوزی لینڈ، فن لینڈ، ڈنمارک اور جرمنی نے سماجی فاصلہ رکھنے اور سخت لاک ڈاؤن پر عمل کر کے اس وباء کو اپنے ملک میں پھیلنے سے روکا۔لیکن شائد عمران خان کواب تک اس وباء کی نتوعیت کا علم نہیں یا پھر وہ پھر شترمرگ کی پالیسی کو اپنا رہے ہیں اور خطرے کو مزید نظر اندازکر رہے ہیں حال ہی میں ان کی سرکار نے مذہبی اجتماعات پر پابندی عائدکی تھی جو اس وباء کے روک تھام کیلئے بے حد ضروری ہے۔ لیکن چند مذہبی علماء کے دباؤ کے بعدان کی سرکار مذہبی علماء سے مذاکرات کر رہی ہے جس کی کوئی گنجائش نہیں پاکستان کے علاوہ تمام اسلامی ممالک نے مذہبی اجتماعات پر عارضی وقت کیلئے پابندی عائد کر دی ہے۔سعودی عرب نے تو مقدس خانہ کعبہ کو بھی عارضی وقت کیلئے بند کر دیاہے اور قدیم مصر کی جامعہ الااظہر نے مذہبی اجتماعات پر پابندی سے متعلق یہ فتویٰ جاری کیا ہے کہ سماجی فاصلہ رکھنادرست عمل ہے اور حکومت کے احکامات کو ماننا ہر شہری کا فرض ہے لیکن خان صاحب کی حکومت اور علماء کے مذاکرات جاری و ساری ہیں۔ ان کاچند علماء کے دباؤ میں آنا سمجھ سے بالاتر نہیں۔ اس خطے میں (برصغیر) میں مذہبی علماء کا کافی عرصے سے ریاست کے سیاسی امور میں اہم کردار ادا رکرتے چلے آرہے ہیں۔یہاں طاقتور بادشاہوں کو مذہبی رہنماؤں کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کی وجہ غالباً یہ ہو سکتی ہے برصغیر کی آبادی چاہے وہ مسلمان ہو یا ہندو سب ہی مذہبی حوالے سے بہت حساس رہے ہیں۔ اب بھی مذہبی حوالے سے نہ مشرق وسطیٰ نہ وسطی ایشیاء اور نہ ہی فارایسٹ کے مسلمان اتنے حساس ہیں جتنے برصغیرکے۔
اس خطے کی تاریخ میں دو ہی بادشاہ گزرے ہیں جنہوں نے علماء کو ریاست کی سیاسی امور سے دور رکھاان میں سے ایک اللہ الدین خلجی تھے جنہوں نے 1296ADسے لے کر 1315تک حکومت کی اور ان کا شمار ہندوستان کے کامیاب ترین بادشاہوں میں ہوتا ہے اور دوسرے مغل بادشاہ اکبر تھے۔چند تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اکبر اللہ الدین خلجی کے سیاسی سماجی معاشی اور فوجی پالیسیوں سے بہت متاثر تھے اور انہوں نے اس کی تمام سیاسی، معاشی اور کسی حد تک فوجی پالیسیوں کو اپنایا۔اکبر نے اپنے دور کے چند عرصے بعد مذہبی علماء کو ریاستی امور سے دور رکھا جس کی وجہ یہ تھی بادشاہ اکبر خود انپڑھ تھے اور پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے لیکن ان میں علم حاصل کرنے کی بہت خواہش تھی اس لئے وہ مذہبی علماء کو اپنے دیوان میں مدعو کرتے تھے تاکہ ان کے علم سے استفادہ کر سکیں،لیکن ان مذہبی علماء کی علمی دیوانوں کا وہ حال ہواکرتا تھاجو آج کل کے ٹی وی ٹاک شوزکا ہوتا ہے جس میں سیاسی اور مثبت گفتگو کی بجائے سیاست دان ایک دوسرے کے متعلق نازیبا الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ اکبر کے دیوان میں دین کے بہت سی پہلوؤں کے متعلق علماء مختلف مختلف رائے پیش کرتے تھے اور دوسرے علماء کی رائے کا احترام نہیں کرتے تھے اور اکثر اوقات لڑھ پڑتے تھے بہت جلد ہی اکبر کو اندازہ ہو گیا کہ علماء کی علمی دیوانوں کو کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ کم ہی ایک ہی مسئلے سے متعلق ایک رائے رکھتے ہیں اس کے بعد اکبر بادشاہ نے نہ صرف ان دیوانوں کو منعقدکرانا ختم کردیا بلکہ مذہبی علماء کو ریاست کے سیاسی امور سے بھی دور رکھا اللہ الدین خلجی اور اکبر کو یہ علم ضرورتھا کہ علماء کے ساتھ اختلاف اور ان کو سیاست اور انتظامیہ سے دور رکھنے کے خطرناک نتائج مرتب ہو سکتے تھے کیونکہ برصغیر کے عوام اس وقت بھی مذہبی حوالے سے بے حد حساس تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے وہ فیصلہ کیا جو انہیں لگاکہ ریاست کے حق میں ہوگا۔ تاریخ ان دونوں بادشاہوں کو عظیم اور کامیاب بادشاہوں کے نام سے یاد کرتی ہے۔ ان دونوں کے برعکس عمران خان میں وہ صلاحیت اور جرات نہیں کہ وہ مذہبی علماء کا بہادری سے سامنا کرپاسکے کیونکہ انہیں علم ہے کہ مذہبی اعتبار سے یہاں کے لوگ جنونی اور حساس ہیں۔ علماء سے اختلافات ان کی سیاست اور ووٹ بینک کیلئے نقصان دہ ہو سکتا ہے کیونکہ مذہبی علماء اور سیاست کا اس ملک میں پرانا اور مضبوط تعلق ہے۔
1947ء میں جب یہ ملک وجود میں آیا اس وقت سے لے کر اب تک یہاں کے حکمرانوں نے مذہبی کارڈکو اپنے سیاسی عزائم کیلئے استعمال کیا ہے۔زیادہ تر لوگ مذہبی انتہاء پسندی کا ذمہ دار ضیاء الحق کو ٹھہراتے ہیں لیکن مذہبی انتہاء پسندی کے بیج ان سے قبل ہر حکومت نے بوئے ہیں۔ اپنے قیام کے نو سال تک پاکستان کے پاس کوئی آئین نہیں تھا آئین کی جگہ لیاقت علی خان ملک چلانے کیلئے عارضی وقت کیلئے قرار داد ومقاصد کو منظور کروایا جس میں کچھ ایسے نکات شامل کئے گئے تھے جس سے ملک میں آباد غیر مسلم کی حیثیت دوسرے درجے کے شہری جیسے ہوگی اور قرار داد مقاصد کی بہت سے نکات پر مذہبی پہلو واضح تھا۔ قرارداد مقاصد کی مخالفت ایک اقلیتی رہنماء بی۔کے۔ دت نے یہ کہہ کریاتھا ”قرارداد مقاصد سے ہماری حیثیت ہمیشہ کیلئے ایک دوسرے درجے کی شہری کی جیسی ہو گئی ہے“ اس وقت پاکستان میں اقلیتوں کی آبادی 23فیصد تھی جو اب کم ہو کر 3.7فیصد تک ہو گئی ہے۔ اس وقت کے وزیر خارجہ ظفر اللہ خان نے بی۔کے۔ دت سمیت دیگر اقلیتی رہنماؤں کو باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ ملک میں ان کی حیثیت ایک برابر شہری کے جیسی ہوگی اور ریاست ان کے حقوق کا ہر طرح سے تحفظ کریگی۔ ظفر اللہ خان بھی قرارداد مقاصد کے بہت بڑے حامی اور فرقے کے اعتبار سے خود احمدی تھے شاہد ان کو اس وقت علم نہیں تھا کہ آگے جا کر احمدیوں کوبھی اقلیت قرار دے دیا جائیگا اس وقت کے رہنماؤں کو شاہد یہ علم نہیں تھا کہ اسلام میں مختلف فرقے ہیں جیسے کہ سنی اور شیعہ ان کے اندر بھی مزید کئی اور فرقے ہیں اور ہر فرقہ اپنے فرقے کو دوسرے کے فرقے سے اعلیٰ سمجھتا ہے اور دوسرے فرقے کو کافر یا نیم مسلم قرار دیتا ہے۔اس وقت کی لیڈرشپ اس بات سے لاعلم تھی کہ اگرمذہب کے اعتبار سے ملک کے مستقبل کا آئین بناناہے تو لہٰذاکس فرقے کے اسلام کے تحت وہ آئین بنائیں گے ان لاعلمیوں نے آگے جا کر مذہبی انتہاء پسندی کے علاوہ فرقہ واریت کو بھی جنم دیا۔
ایوب خان جیسے مضبوط آمر بھی علماء اور مذہبی حساسیت کے آگے بے بس ہوئے۔ 1956ء کا آئین تو انہوں نے معطل کردیا لیکن 1962 ء میں جب انہوں نے خود آئین بنایا تو اس میں واضع طور پر لکھا گیا تھا کہ ملک کا وزیراعظم اور صدر صرف مسلمان ہی ہو سکتاہے حالانکہ بعض دانشور ایوب خان کو سیکولر رہنماء سمجھتے تھے 1973ء کا آئین جو ملک کی تاریخ کے سب سے مضبوط اور پہلی مرتبہ حقیقی ووٹوں سے منتخب ہونے والے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بنایا تھاانہوں نے بھی مذہبی رہنماؤں کوخوش کرنے کیلئے آئیں میں کئی مذہبی نکات ڈالے تھے اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ وزارت مذہبی امور کاعہدہ بھی بنایاتھا1977ء میں بھٹو کی حکومت کیخلاف پاکستان نیشنل الائنس(PNA) نامی اپوزیشن جماعت نے معاذچلایا اور ان کی اکثریت مذہبی رہنماؤں پر مشتمل تھی۔بھٹو پر دباؤ ڈالنے کیلئے PNAنے مطالبہ کیا تھاکہ ملک میں نظام مصطفی رائج کیا جائے بھٹو نے دباؤ میں آ کر مزید اقدمات کئے جیسے کہ شراب اور جوئے خانوں پر پابندی لگانا اور اتوار کی جگہ جمعہ کو سرکاری چھٹی قرار دینا۔ضیاء نے اپنی حکومت کو جائز قرار دینے کیلئے مذہبی رہنماؤں کو استعمال کیااور قرارداد مقاصد کو باقاعدہ آئین کا حصہ بنایا۔ انہوں نے 1973ء کے آئین کو تومکمل طورپرمعطل نہیں کیا لیکن اس میں کئی اصلاحات کیں انہوں نے حدود آرڈیننس کا بل منظور کروایابینکنگ کے بغیرسود والے قوانین بنائے اور اہل تشیع سے زکواۃ نہیں لیا کیونکہ سنی رہنماء ان کو مسلمان نہیں سمجھتے تھے اس دوران ملک میں فرقہ واریت کی جڑیں مضبوط ہوئیں نواز شریف اور بے نظیر کی حکومتوں نے بھی مذہبی رہنماؤں کو خوش کرنے کیلئے کئی اقدامات کئے نواز شریف جوجنرل ضیاء کی سیاسی شاگرد تھے انہوں نے اپنے دورحکومت میں ضیاء کی مذہبی انتہاء پسندی کی پالیسیوں کوجاری رکھاانہوں نے 15ویں ترامیم کر اکے نظام مصطفی کی بجائے شریعت محمدی رائج کرنے کی کوشش کی تھی جو لوئر ہاؤس سے پاس ہوگئی تھی لیکن سینٹ میں ان کی اکثریت نہیں تھی اور اپوزیشن نے اسے پاس نہیں ہونے دیا تو نواز شریف نے ان کے خلاف بھی علماء کو بھڑکانے کی کوشش کی۔ ان تمام حکمرانوں جن کا ذکر ہوا ہے جیسے کہ لیاقت علی خان، ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف اور بے نظیر بھٹو موجودہ وزیراعظم عمران خان ان تمام سابق وزراء اعظم سے کافی کمزورہے۔ شاہد وہ اس اپوزیشن میں نہیں کہ مذہبی رہنماؤں سے الجھ سکیں اور نہ ہی یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ انہیں قائل کر سکیں اس لئے ان کا چند مذہبی علماء کے دباؤ میں آنا کسی تعجب کی بات نہیں۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میں صرف ایک ہی بات ثابت کی ہے کہ بڑی بڑی بھرکیاں مارنے اور بڑے بڑے دعوے کرنے والے اکثر کھوکھلے اور معمولی نوعیت کے انسان ہوتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں