نیب ترمیمی آرڈیننس۔ کباب میں ہڈی

تحریر: راحت ملک
پی ٹی آئی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی احتساب سے متعلق اپنے بلند و بانگ دعوؤں کو عملی جامعہ پہنانے کا آغاز کیا تھا ان کا موقف تھا کہ عوام نے پی ٹی آئی کو ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے اور بدعنوان عناصر کا قلع قمع کرنے کا مینڈیٹ دیا یہ بات البتہ الگ موضوع ہے کہ پی ٹی آئی کو عوامی مینڈیٹ ملا تھا یا دیا گیا تھا بہر حال عمران خان نے عنان حکومت سنبھالتے ہی احتسابی عمل تیز کرنے کا فیصلہ کیا جو پہلے سے ہی جاری و ساری تھا عمران حکومت نے اس کا رخ بھی اسی جانب رکھا جس کا تعین پانامہ اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد متعین کیا گیا تھا سیاسی مخالفین کو میدان سیاست سے باہر پھینک دینے اور پھر بلا خوف حکمران کی خواہش عمران خان کو نیب کے سیاسی استعمال کی طرف زیادہ کشش محسوس ہوئی جو ایک طرف اس کے احتجاجی سیاست اور انتخابی نعروں کے تقاضوں سے ہم آہنگ تھا تو دوسری جانب عمران خان کے سرپرست حلقے کی خواہش کا تقاضہ بھی تھا۔
سیاسی مخالفین کے خلاف مختلف الزامات پر نیب کی انکوائریاں شروع ہوئیں نیب نے اپنے ڈریکو لائی قانونی اختیارات کے بے تحاشہ استعمال سے حکومت مخالفین کو پابند سلاسل کر دیا کرپشن اقرباء پروری قومی خزانے کو نقصان پہنچانے اور آمدن سے زائد اثاثے بنانے جیسے بھیانک الزامات کا سلسلہ چل پڑا تو بعض مخالف سیاسی رہنماء ہیروئن اسمگلنگ کے جرم میں بھی اے این ایف نے دھر لئے پندرہ کلو ہیروئن برآمد ہونے کی ویڈیو اور دیگر شواہد کا قومی ا سمبلی فلور پر ببانگ دھل ڈھنڈورا پیٹاگیا اللہ کو جان دینے کے جذباتی مذہبی نعرے بلند ہوئے مگر ہوا کیا؟ کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مصداق۔ عدالت میں ٹھوس شواہد پیش نہ کئے جا سکے چنانچہ رانا ثناء اللہ کی ضمانت ہو گئی تاہم یہ ریکارڈ پر رہے گا کہ وہ عمران کے عہد انصاف میں کچھ ماہ سے زیادہ عرصہ اے این ایف کی تحویل میں رہے۔
سیاسی مخالفین کو جاری عمل میں جان ڈالنے کیلئے بیورو کریسی کے کئی اہم ارکان کو جو سابقہ ادوار مین اہم عہدوں پر کام کر رہے تھے بدعنوانی آمدن سے زیادہ اثاثہ جات کے الزامات میں دھر لیا گیا خیال یہ ہے کہ افسران جیل کی صعوبتوں سے گھبرا کر سابق حکمران جماعتوں کے خلاف شواہد و مواد مہیا کر دیں گے مگر سارے کئے دھرے کے بعد بیورو کریسی کے گرفتار افسران میں سے ایک”مسعود محمود“ بھی دستیاب نہ ہو سکا۔
افسران کے خلاف نیب تحقیقات کا منطقی نتیجہ بیورو کریسی کے اہم حکومتی کل پرزے میں بددلی پھیلنے کی صورت نکلا ہر افسر فائل پر دستخط کریں یا احکامات جاری کرنے سے ڈرتا رہا فائل روک کر وقت بدلنے کا انتظار یا ٹال مٹول کے مختلف افسر شاہانہ بیانے تراشنے میں مصروف ہو گیا اس صورتحال سے حکومتی عملداری اور سرکار کا پہیہ جام ہو گیا بداعمالی کی فضاء میں تکبر غصے اور انائیت پسندی سرکاری افسران کی اکھاڑ پچھاڑ کرنے میں مگن ہو کر صورتحال کے علاج میں مصروف ہوتی تو افسران میں داخلی خوف اور بے یقینی مستحکم ہونے لگی مختصر سے عرصہ میں اعلیٰ سطح پر بے شمار تعیناتیاں ہونے لگیں بڑے بڑے دعوؤں اور قابل محنتی دیانتدار افسران کی تعیناتی کے ان دعوؤں کا جنازہ چند دنوں بعد انہی افسران کو ہٹا دینے کے بے شمار فیصلوں کی شکل میں نکلنے لگا افسران حیران تھے کہ وہ اپنی ملازمت کے بلا مداخلت خوف سے آزاد ہو کر فرائض منصبی جاری رکھنے کیلئے کس حکومتی وزیر یا رہنماء سے مدد لین او رکس کی ناراضگی سے بچیں یہ سب کچھ نیب قوانین میں مارشل لائی دور کے قوانین کا کیا دھرا تھا افسران کی بے تحاشہ گرفتاریوں کے بعد بھی آج تک کسی سابق وزیر کے خلاف کوئی ایسا ریفرنس عدلیہ میں نہیں لایا جا سکا جو االزامات ثابت کرنے کیلئے اطمینان بخش ہو افسران میں پیدا ہونے والے خوف اک ایک اہم عنصر نیب کے بے تحاشہ اختیارات اور نظام عدل میں موجود ………… رویہ بھی انتہائی منفی نتائج پیدا کر رہا تھا۔
حکومتی سطح پر اگر کہیں کرپشن یا لوٹ مار ہو تو اس کے تین فریق ہوتے ہیں (1وزیر (2افسران بالا اور کاروباری طبقہ۔
حکومت نیب کے اقدامات سے ذہنی تسکین تو پا سکتی تھی مگر اپنے کارکنوں‘ہم نواؤں کو مطمئن کرنا مشکل تر ہو چکا تھا دریں حالات ذرائع ابلاغ پر برروز بروز حکومتی ناقص پالیسیوں اور نیب کے کردار پر ہونے والی تنقید حکومت کیلئے ناقابل برداشت تھی سو ذرائع ابلاغ کا گلا دبانے کیلئے بھی کوششیں شروع ہو گئیں۔
حکومتی اقدامت کی بے سمتی نااہلی اور ناتجربہ کاری سے معاشی شرح نمو میں گراوٹ نمودار ہونے لگی سٹاک ایکسچینج میں زبردست تنزلی آئی سرمایہ کاری مفلوج ہو گئی تو بے روزگاری اور مہنگائی نے حکومت کے احتسابی نعرے کی ساکھ بری طرح معونیت کھونے لگی تاجر طبقہ کو نیب کے شکنجے میں لانے کی ضرورت یوں آن پڑی کہ جس توقع پر سرکاری اہلکاروں کو پایہ زنجیر کیا گیا تھا وہ الٹا نقصان دہ ثابت ہوا شواہد کیا خاک ملتے احتساب اور احتسابی ادارے پر سوالات اٹھنے لگے تاجر طبقے کی گرفتاریوں نے سرمائے اور مہارت کی بیرون ملک مہاجرت کو سمیٹ گیا جب حالات انتہائی سنگین ہو گئے تب جناب عمران خان نے کراچی جا کر کاروباری حضرات سے ملاقات کی اور ان سے خطاب کے دوران نیب قوانین میں ترامیم لانے کا اعلان کیا اور کہا کہ یقینا اس سے ہمارے کچھ تاجر دوستوں کو فائدہ ہوگا یاد رہے کہ ملک بھر کے تاجروں کا ایک وفد اس سے قبل جناب آرمی چیف سے ملاقات کر کے اپنی شکایات تحفظات اور ممکنہ اقدامات سے آگاہ کر چکا تھا۔
دسمبر 2019ء میں جب وزیراعظم نے تاجروں سے خطاب میں نیب قوانین میں ترامیم کا عندیہ دیا تو اگلے روز ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نیب کے اختیارات محدود کر دیئے گئے اب نیب تاجروں اور افسروں سے تحقیقات کرنے کا مجاز نہیں رہا تھا۔
پارلیمانی طرز حکومت میں صدارتی آرڈیننس کا اجراء معیوب تصور ہوتا ہے گو کہ آئین میں اس کی گنجائش موجود ہے جو بہت سی سنگین ہنگامی صورتحال میں کسی قانونی سقم کو فی الفور دور کرنے کی مشروط اجازت دیتی ہے اس طرح جاری کئے گئے آردیننس کو پارلیمان کے پہلے اجلاس میں (جو اجراء کے بعد ہو) توثیق کرانا لازم ہے بصورت دیگر صدارتی حکم تین ماہ گزرنے کے بعد از خود غیر موثر ہو جاتا ہے صدر پاکستان کو کو ایسے آرڈیننس کی مزید تین ماہ کیلئے تجدید کرنے اور نافذ العمل رکھنے کا آئینی حق ہے۔
دسمبر 2019ء کے نیب ترمیمی آرڈیننس کو حزب اختلاف نے اصولی اور تکنیکی اعتبار سے مسترد کرتے ہوئے اسے دوستوں کو نوازنے کیلئے پی ٹی آئی کا این آر او قرار دیا اور تحریری طور پر پارلیمنٹ کااجلاس طلب کر کے صدارتی آرڈیننس پر بحث‘ توثیق یا تنسیخ کا موقع مہیا کرنے کا آئینی حق استعمال کیا حکمت نے گزشتہ تین ماہ میں پارلیمان کے اجلاس تو طلب کئے مگر اس آرڈیننس کو بوجوہ ایجنڈے سے خارج رکھا یہ اقدام اگر صدارتی آرڈیننس کو بچانے کی سرکاری سعی تھی تو دوسری جانب یہ سے غیر مبہم پیغام بھی تھا نافذ کردہ آرڈیننس عبوری / عارضی بندوبست ہے چنانچہ اس نے اعتماد کی وہ فضاء پیدا نہ کی جس کا تقاضا بیورو کریسی کے تحفظات کے خاتمے اور فعالیت کی صورت نکلتا تاجر طبقہ بھی اسے عارضی قدم سمجھتے ہوئے دستیاب وقت میں معاملات نمٹانے پر مائل دکھائی دیا شکوک و شبہات اور عدم اعتماد کی معاشی تجارتی صورتحال ناگزیر طور پر معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے میں رکاوٹ رہی بلکہ اس دوران بہت سے کاروباری صنعتی ادارے بند ہونے ………… بیرون ملک منتقل ہو گئے تو معاشی گراوٹ کے ساتھ صفر سے نیچے یعینی منفی شرح کی سمت دھکیل دیا ہے اسی عرصہ میں نیب کے اختیارات محدود کرنے والا صدارتی حکم تین ماہ کی مدت مکمل کر کے غیر موثر ہو گیا یعنی دسمبر2019ء سے پہلے والی بے یقینی اور خوف کی فضاء ………… آئی ہے۔
اب حکومت کیلئے اس کیفیت سے نکلنے کے دو راستے ہیں پارلیمانی کا اجلاس بلا کر اس ترمیم کو مستقل قانون کا حصہ بنا دے یا پھر صدارتی اختیارات بروئے کار لائے اور اگلے تین ماہ کیلئے پھر سے آرڈیننس کے ذریعے نفاذ ممکن بنا لے دوسرا راستہ سہل ہے لیکن ناپائیدار تاجر اور بیورو کریسی اس کی عارضی نوعیت کو دھیان میں رکھیں گے اور مکمل اعتماد و بھروسے کے ساتھ آگے بڑھنے سے ہچکچائیں گے یہ بے عملی کی سی کیفیت ضرور………… رہے گی۔
پارلیمان سے منظوری کے امکانات کم ہیں اول تو پارلیمان سے توثیق کیلئے حکومت کو اپوزیشن سے بھرپور تعاون درکار ہوگا کیونکہ سینٹ میں اپوزیشن کی اکثریت ترمیم کو ایکٹ آف پارلیمنٹ بننے کی راہ میں رکاوت ہے اور اپوزیشن اگر ترمیم قبول کر یگی تو اس میں اپنے جماعتی سیاسی موقف اور ان واقعات سے اخذ شدہ نتائج کو قانون میں سمونے کیلئے مناسب اور ضروری ترامیم لائے گی ممکن ہے بلکہ شاہد یقینا حکومت ایسی ترامیم قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوگی چنانچہ پارلیمنٹ کے ذریعے ترمیم کی توثیق فوری طور پر بعید از قیاس ہے۔
اپوزیشن کارونا وباء سے پیدا شدہ صورتحال اس کے تدارک اور دیگر امدادی امور پر بھی بحث اور اتفاق رائے کیلئے اجلاس کی درخواست کر چکی ہے حکومت نے بلوچستان حکومت کی طرح یہاں اجلاس طلب کئے جانے کیلئے کورونا وباء کے دوران سماجی فاصلے برقرار رکھنے کی دلیل کا سہارا لیا ہے حالانکہ وزیراعظم دو رز قبل ہی یہ فرما چکے کہ وہ پہلے دن سے لاک ڈاؤن کے حق میں نہیں تھے اس دلیل کی بناء پر اصولی طور پر وزیراعظم کو پارلیمانی اجلاس طلب کرنے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئے جبکہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ اسپیکر قومی اسمبلی اجلاس منعقدکرنے کیلئے فاصلاتی حکمت عملی اپنانے کے حق میں نہیں وہ چاہتے ہیں کہ ارکان اسمبلی اپنے اپنے گھروں سے بذریعہ کمپیوٹر نیٹ ورک ویڈیو لنک سے اجلاس میں شریک ہوں اپوزیشن اس تجویز کو رد کر چکی ہے کیا یہ ممکن ہے کہ حکومت ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس طلب کرے جسے اپوزیشن نے مسترد کر دیا ہے یوں صرف حکومتی ارکان ویڈیو لنک پر اجلاس میں شریک ہو کر قومی اسمبلی سے ترمیمی بل منظور کرائیں کسی بھی دوسری نوعیت کی بحث و تمحیض کے بغیر؟ اور پھر یہی حکمت عملی سینیٹ کیلئے استعمال کی جائے یہ سوچ کر چونکہ اپوزیشن قومی اسمبلی کے ویڈیو لنک اجلاس میں شامل نہیں ہوئی تو ممکن ہے وہ سینیٹ کیلئے ویڈیو اجلاس میں بھی شرکت اصولاً اختلاف و گریز کریں تو حکومتی ارکان اپنی اقلیت کے باوجود یہاں بھی ترمیم منظو رکر لیں؟ یہ سب ممکنہ قیاس آرائیاں
سیاست عملیات کا نام ہے کون کہہ سکتا ہے کہ حالات وواقعات کب کس کے موقف و عمل میں تبدیلی پیدا نہیں کرینگے۔اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر با اختیار علاقہ اس ترمیم کی منظوری کا آرزو بند ہوا تو پھر کیا ہوگا؟وہی جو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی قانون سازی میں نہیں دیکھا جاچکا ہے۔
حکومت اگر پارلیمان کے اجلاس سے یونہی گریز کرتی رہی تو پھر قومی بجٹ کی منظوری کے مراحل کیسے طے ہونگے؟
یہی حال بلوچستان حکومت کے لئے بھی ہے جو صوبائی اسمبلی کا اجلاس بلانے میں۔حیلے بہانوں سے انکار کررہی ہے۔
صورتحال کے مجموعی جائزے سے یہ نتیجہ بھی برآمد ہوسکتا ہے کہ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت گزشتہ چند سالوں سے پارلیمانی نظام کی ناکامی کے تاثر کو تقویت دینے کیلئے اس کی بے توقیری کو عدم فعالیت کے ذریعے فیصلہ کن مرحلے کے اگلے پڑاؤ میں دھکیلا تو نہیں جارہا؟
گزشتہ کالم میں میں نے قیاس کیا تھا کہ قومی اتفاق رائے کے ساتھ پارلیمان کے اندر سے وسیع النہیاد حکومت کی تشکیل کے لئے حکومت پہل قدمی کرتے ہیں یہ نقطہ نظر انداز کر گیا تھا کہ ایسا عمل تو اس کے سرپرستوں کی رضامندی کے بنا ممکن العمل ہو ہی نہیں سکتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں