وزیراعظم کی میڈیا ٹیم میں تبدیلیاں ……رنداور وعظ

تحریر: انور ساجدی
وزیراعظم نے اپنی میڈیا میں تیسری بار جو تبدیلیاں کی ہیں اس پر طرح طرح کے تبصرے ہورہے ہیں کوئی کرپشن کا عنصر ڈھونڈ رہا ہے اور کوئی نااہلی کو اس کی وجہ قرار دے رہا ہے پتہ نہیں کہ عمران خان نے کیا سوچ کر یوسف رضا گیلانی کی برطرف وزیر اطلاعات آپاں فردوس عاشق اعوان کو معاون خصوصی برائے اطلاعات بنایا چونکہ محکمہ کا کوئی وزیر نہیں تھا اس لئے وہ پوری وزارت کے اختیارات استعمال کررہی تھیں اور ظاہر ہے کہ اتنا بڑا اور حساس نوعیت کا محکمہ ان سے سنبھالا نہیں جاسکا
وزیراعظم نے اپنی میڈیا میں تیسری بار جو تبدیلیاں کی ہیں اس پر طرح طرح کے تبصرے ہورہے ہیں کوئی کرپشن کا عنصر ڈھونڈ رہا ہے اور کوئی نااہلی کو اس کی وجہ قرار دے رہا ہے پتہ نہیں کہ عمران خان نے کیا سوچ کر یوسف رضا گیلانی کی برطرف وزیر اطلاعات آپاں فردوس عاشق اعوان کو معاون خصوصی برائے اطلاعات بنایا چونکہ محکمہ کا کوئی وزیر نہیں تھا اس لئے وہ پوری وزارت کے اختیارات استعمال کررہی تھیں اور ظاہر ہے کہ اتنا بڑا اور حساس نوعیت کا محکمہ ان سے سنبھالا نہیں جاسکا دراصل محکمہ اطلاعات کے تین بڑے شعبے ہیں ایک حکومت کی داخلی پبلسٹی اور اس کے امیج کو بہتر بنانا ایک ایکسٹرنل پبلسٹی جس کا کام بیرون ملک ریاست کے نقطہ نظر کی مؤثر انداز میں ترجمانی کرنا تیسرا شعبہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کو سرکاری اشتہارات کا اجراء۔قرائن بتارہے ہیں فردوس اعوان نے پہلے دو شعبوں پر کوئی توجہ نہیں دی ان کی ساری توجہ اشتہارات پر تھی اور کیوں تھی یہ بات سینکڑوں اخباری مالکان اور میڈیا سے وابستہ لوگ اچھی طرح جانتے تھے کہا جاتا ہے کہ ان کے آنے کے بعد پی آئی ڈی کی تقدیس مجروح ہوگئی تھی اور اشتہارات کا شعبہ نیلام گھر بن گیا تھا ویسے تو یہ اس ملک کا دستور ہے کہ جو بھی کرسی سے اتر جائے اس پر طرح طرح کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں ہوسکتا ہے کہ میڈم پر وہ لوگ تہمت لگا رہے ہوں جن کے مالی مفادات کو نقصان پہنچا تھا لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کی سرپرستی میں پی آئی ڈی کے محکمے میں ایک افراتفری دیکھنے میں آرہی تھی اور ایجنٹوں کا ایک طبقہ پیدا ہوگیا تھا جو بعض اخبارات اشتہاری ایجنٹوں اور وزیر کے مابین معاملات طے کرتا تھا نواز شریف کے دور میں تو سالانہ نصف کھرب کے اشتہارات جاری ہوتے تھے جو اجارہ دار کارپوریٹ اخبارات اور میڈیا چینل لے جاتے تھے اپنے دور میں بھٹو نے ریجنل پریس کیلئے جو 25 فیصد کوٹہ رکھا تھا اس پر بھی کارپوریٹ سیکٹر نے قبضہ کرلیا اگرچہ عمران خان نے آتے ہی اشتہاروں کا حجم کم کردیا لیکن اس کے باوجود یہ حجم اربوں میں تھا تحریک انصاف نے پہلا حملہ پرنٹ میڈیا پر کردیا فواد چوہدری سے لیکر عاشق اعوان تک سب نے کہا کہ اخبارات کو اپنا بزنس ماڈل تبدیل کردینا چاہئے کیونکہ حکومت اس بات کی ذمہ دار نہیں کہ وہ اخبارات کو اشتہارات جاری کرے اس واضح اعلان کے باوجود حکومت پرنٹ میڈیا پر دباؤ ڈالتی رہی کہ وہ حکومتی پبلسٹی بڑھا دے حالانکہ اشتہارات کی بندش کے بعد یہ حکومت کا حق نہیں تھا کہ وہ اخبارات پر دباؤ ڈالے اس حکومت کے دور میں حکومت سے باہر کے عناصر نے بھی بہت دباؤ ڈالا اور غیر اعلانیہ سنسر شپ نافذ کردی جس کی وجہ سے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا دونوں کی کمر توڑ دی گئی ایک طرف معاشی حملہ دوسری جانب سنسر شپ ان اقدامات کا مقصد ایک نیا نظام وضع کرنا تھا یعنی جیسے کہ چین، روس، ترکی، ایران اور سعودی میں میڈیا کا جو نظام ہے اس طرح کا نظام لانا تھا۔لیکن حکومتی ٹیم میں اتنی صلاحیت نہیں تھی کہ وہ ایسا کرسکے کیونکہ پاکستان جیسا بھی صحیح ایک نیم جمہوری ریاست ہے اس کے آئین میں اظہار رائے کی آزادی دی گئی ہے یہاں پر آمریت کے حامل ملکوں کی طرح میڈیا کو محض سرکاری شعبہ بنانا ممکن نہیں ہے حکومت نے پیمرا کے آمرانہ اختیارات بڑھا کر چینلوں پر مکمل کنٹرول کرلیا لیکن پرنٹ اور سوشل میڈیا پر اس کا بس نہ چلا یہی موقع تھا جب سابق حکومتوں کی طرح اس حکومت نے بھی اشتہارات کو بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کردیا اسی دوران اس نے تحریک انصاف کے سوشل میڈیا گروپوں کو مالی فوائد پہنچانا شروع کردیئے لیکن اس کا الٹااثر ہوا کیونکہ سینکڑوں لوگوں نے یوٹیوب چینل کھول لئے اور فیس بک پر بے شمار حکومت مخالف گروپ سرگرم ہوگئے اس کے نتیجے میں حکومت کو لینے کے دینے پڑ رہے ہیں اس لئے ان کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کیا کریں بس حکومت میڈیا پر اکثر و بیشتر غصے کا اظہار کرتی رہتی ہے جیسے کہ صدر ٹرمپ امریکی میڈیا کو برا بھلا کہتے ہیں حال ہی میں صدر ٹرمپ نے پریس کانفرنس کے دوران خاتون صحافی سے کہا کہ آپ کو آگے کس نے بٹھا رکھا ہے حالانکہ وائٹ ہاؤس میں تمام میڈیا نمائندوں کو نشستیں الاٹ ہوتی ہیں وہ جب بھی سی این این اور نیویارک ٹائم کا نام سنتے ہیں ان کا خون کھول اٹھتا ہے اور وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتے امریکی میڈیا نے ایک شاندار کارٹون شائع کرکے صدر ٹرمپ سے اپنا بدلہ لیا۔
کارٹون میں دکھایا گیا ہے کہ کرونا وائرس ماسک پہن کر صدرٹرمپ سے کنی کترا رہا ہے اور ٹرمپ بھی خوف کے مارے فاصلہ سے چل رہے ہیں کارٹون میں سوال موجود ہے کہ کرونا زیادہ خطرناک ہے یا ٹرمپ ہمارے وزیراعظم جذباتی اسی طرح ہیں لیکن ان کا رویہ ٹرمپ سے بہتر ہے گزشتہ دنوں جب ان سے اپوزیشن کے بارے میں سوال پوچھا گیا تو انہوں نے دھمکی دی کہ وہ یہ نشست ختم کردیں گے فردوس عاشق اعوان اگرچہ فاطمہ جناح میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس تھیں لیکن جدید وقت کے تقاضوں کے مطابق ان کی علمی اور تکنیکی قابلیت برائے نام تھی ان کی وجہ سے ایکسٹرنل پبلسٹی تقریباً ختم ہوگئی تھی وزیراعظم جس طرح مسئلہ کشمیر کے انسانی پہلواجاگر کرکے انڈیاکوزچ کرنا چاہتے تھے عاشق اعوان اس میں ناکام رہیں اس لئے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر عاصم سلیم باجوہ کو معاون خصوصی کے طور پر لایا گیا ہے اگرچہ ان کی تقرری کولوگ اور معاملات سے تعبیر کررہے ہیں لیکن ان کے لانے کا مقصد بیرون پبلسٹی کو ٹھیک کرنا ہے آگے جاکر کیا ہوگا تو یہ آگے ہی پتہ چلے گا البتہ ایک بات طے ہے کہ فردوس اعوان جس طرح بدکلامی اوردشنام طرازی کرتی تھیں نئی تبدیلیوں سے وہ ماحول ختم ہوجائے گا کیونکہ جنرل عاصم سلیم باجوہ سی پیک کے سربراہ بھی ہیں ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں لہٰذا وہ الزام تراشی والے معاملات سے دور رہیں گے۔
جہاں تک شبلی فراز کا تعلق ہے جنہیں وزارت اطلاعات کا قلمدان دیا گیا ہے گزشتہ دو سال میں انہوں نے ٹی وی ٹاک شوز میں کبھی سخت لہجے میں بات نہیں کی ان کاانداز تحریک انصاف کے آتشیں لیڈروں سے مختلف ہے وہ سینیٹ میں قائد ایوان ہیں اس لئے انہوں نے اپوزیشن سے بھی تعلقات ٹھیک رکھے لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ فواد چوہدری اور فردوس اعوان کے دور میں جس طرح کا نازیبا ماحول پیدا کیا گیا تھا وہ لازمی طور پر تبدیل ہوگا لیکن محکمہ اطلاعات ایک دیو ہے اور اسے قابو کرنا شبلی فراز جیسے شریف آدمی کا کام نہیں ہے اس میں کیا پوشیدہ صلاحیتیں ہیں یہ تو آگے جاکر پتہ چلے گا۔لیکن پی آئی ڈی میں جو مافیاز سرگرم عمل ہیں انہیں قابو میں لانا کوئی آسان کام نہیں ہے اشتہارات کے شعبہ میں اربوں روپے کا لین دین ہوتا ہے اس لین دین کو آج تک کوئی ختم نہیں کرسکا شبلی فراز کیسے اسے ختم کرسکتے ہیں اس محکمہ میں سازشیں بھی بہت ہوتی ہیں خود حکومت کے اندر بھی کئی لابیاں ہیں جو اپنی پبلسٹی اور ٹاک شوز میں اپنی شرکت چاہتی ہیں اس کی وجہ سے اکثر حکمران جماعت کے اراکین بھی وزیر اطلاعات سے ناراض رہتے ہیں شبلی فراز ابھی تک ایک شریف آدمی ہیں وہ پہلی دفعہ ایک منافع بخش وزارت پر فائز ہوئے ہیں وہ اپنے دامن کو آلودہ ہونے سے کیسے بچائیں گے یہ کوئی آسان کام نہیں ہے ابھی تک ان کی یہ شہرت ہے کہ وہ کرپشن سے دور بھاگتے ہیں کیونکہ ان کے پاس سیاست سے زیادہ ان کے والد احمد فراز کا ورثہ ہے فراز 20 ویں صدی کے عظیم اردو شاعر تھے انہوں نے فیض احمد فیض اور دیگر بڑے شعرا کی موجودگی میں اپنے آپ کو منوایا ان کا کلام پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے اس شخص کو زبان و بیان پر اسقدر قدرت کیسے حاصل تھی احمد فراز کو دنیا میں جہاں بھی اردو بولی جاتی ہے عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ضیاء الحق کے دور میں جب دہلی کے لال قلعہ کے میدان میں ایک عالمی مشاعرے میں شرکت کرنے گئے تو انہیں اساتذہ کی موجودگی میں پہلے بلایا گیا لیکن شرکاء نے نعرے لگائے کہ وہ صرف احمد فراز کا کلام سنیں گے ان کو جتنے اشعار یاد تھے وہ پڑھ دیئے پھر کہا کہ اب زبانی انہیں کوئی شعر یاد نہیں اس پر ایک خاتون نے ان کا دیوان نکال دیا اور کہا کہ آپ اسے پڑھیں۔
مارشل لاء کے دوران جب وہ لندن جلا وطن تھے تو البرٹ ہال میں فیض صاحب کی صدارت میں جومشاعرہ ہوا وہاں پر بھی لوگوں نے بہت دیر تک ان کو سنا۔
احمد فراز میں ذاتی کمزوریاں بہت تھیں لیکن انہوں نے آمریت سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا ہمیشہ ظلم کو للکار ضیائی مارشل لاء کے دور میں انہوں نے جو کلام کہا وہ اس کا گواہ ہے وہ ایک روشن خیال اور انسان دوست شخصیت تھے رجعتی عناصر ہمیشہ ان سے خائف رہے ایک مرتبہ وہ اور جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد اکٹھے بیٹھے تھے ان کو شرارت سوجھی اور انہوں نے گلاس میں پانی بھر کر قاضی صاحب کو پیش کیا اور کہا کہ قاضی صاحب یہ جام آپ کیلئے اس تصویر کے اوپر ڈان نے سرخی جمائی رنداور وعظ قاضی حسین احمد بھی ایک سنجیدہ اور پڑھے لکھے اسکالر تھے نظریاتی اختلاف کے باوجود وہ احمد فراز کی شاعری کے گرویدہ تھے اب تو دائیں بازو کے محاذ پر قاضی صاحب جیسا شخص بھی موجود نہیں۔
کئی لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ شبلی فراز تحریک انصاف جیسے قدامت پسند جماعت میں کیسے شامل ہوئے شاید باپ بیٹھے کے نظریات میں تفادت ہے ویسے امید کی جائے کہ وہ وزارت چلانے میں کامیاب ہونگے لیکن میرا خیال ہے کہ دیگر وزراء کی طرح وہ بھی ناکام ہی رہیں گے کیونکہ وزیراعظم میڈیا کے بارے میں جو کچھ تبدیلی لانا چاہتے ہیں وہ ابھی تک اسے ایکسپریس نہیں کرسکے حالانکہ انہیں واضح طور پر بتادینا چاہئے کہ وہ کیا چاہتے ہیں میڈیا کو کیا شکل دینا چاہتے ہیں انہوں نے ابھی تک یہ بات دل میں رکھی ہے جب تک وہ یہ بات زبان پر نہیں لائیں گے انہیں اپنے مقصد میں کامیابی نہیں ہوگی۔اگر شبلی فراز ناکام ہوئے تو کیا ہوا پھر تجربہ کار عاصم سلیم باجوہ یہ محکمہ مکمل طور پر چلائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں