سرکاری جامعات کے اساتذہ کا آج سے ملک گیر احتجاج کا اعلان
کراچی: پاکستان کی 97 پبلک سیکٹر یونیورسٹیز کے40 ہزار سے زائد بی پی ایس اساتذہ نے مطالبات کی عدم منظوری پر آج بروز بدھ سے ملک گیر احتجاج کے ساتھ10مارچ کو اسلام آباد میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے باہر احتجاجی دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ کسی بھی نقصان کی تمام تر ذمہ داری ایچ ای سی اور حکومت پرعائد ہوگی، اپوبٹا کے قائدین کا کہنا ہے کہ گذشتہ 17 مہینوں میں ایچ ای سی سے 17 میٹنگز ہوئیں ہیں لیکن سب بے سود نکلیں۔ حکومت اساتذہ کو اب تعلیمی اداروں سے نکال کر سڑکوں پر آنے پر مجبور کر رہی ہے۔ کراچی سمیت ملک بھر کی جامعات میں مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رہے گا۔ان خیالات کا اظہار آل پاکستان یونیورسٹیز بی پی ایس ٹیچرز ایسوسی ایشن (اپوبٹا) کی صوبائی قیادت نے کراچی پریس کلب میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پریس کانفرنس میں جامعات کے اساتذہ نے شرکت کی جبکہ اپوبٹا سندھ کے صدر شیخ کاشف رفعت (وفاقی اردو یونیورسٹی)، سیکٹری اپوبٹا سندھ و صدر اپوبٹا جامعہ کراچی، ڈاکٹر افشین عارف، ڈاکٹر بتول عطا (یونیورسٹی آف آزاد جموں کشمیر) نائب صدر اپوبٹا اور ڈاکٹر معروف بن رﺅف نائب صدر اپوبٹا جامعہ کراچی نے خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ آل پاکستان یونیورسٹیز بی پی ایس ٹیچرز ایسوسی ایشن (اپوبٹا) ملک بھر میں بی پی ایس ٹیچرز کا واحد نمائندہ فورم ہے جس کا مقصد یونیورسٹیوں میں تدریس اور تحقیق کے معیار کو بلند کرنا اور یونیورسٹیوں میں بی پی ایس اساتذہ کے جائز حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنا ہے۔ ہم کچھ حقائق ارباب اختیار کے سامنے رکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ پچھلے بیس سالوں میں پاکستان کے اندر یونیورسٹیوں کی تعداد میں اضافہ تو ہوا ہے لیکن معیار کے لحاظ سے صورتحال تشویش ناک ہیں، ملک میں اعلیٰ تعلیم کا معیار گر رہا ہے، فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی سالانہ رپورٹس گواہ ہیں کہ ملک میں اعلیٰ تعلیم کا معیار بہت گرچکا ہے۔ امیدواروں کے پاس ہونے کی شرح 12فیصد سے کم ہو کر محض 2 فیصد رہ گئی ہے، خیبر پختونخواہ میں تناسب صرف ایک فیصد رہ گیا ہے،جو ہمارے اداروں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔آل پاکستان یونیورسٹیز بی پی ایس ٹیچرز ایسوسی ایشن(اپوبٹا) کے راہنماو¿ں نے کہا کہ پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں بی پی ایس اساتذہ کے قانونی و بنیادی حقوق کا استحصال بھی معیار تعلیم گرنے کی بڑی وجہ ہے۔ ملک بھر کی جامعات میں سالانہ بڑی تعداد میں تحقیقی مقالے لکھے جاتے ہیں لیکن اس تحقیق کا ہمارے معاشرے پر کوئی اثردکھائی نہیں دیتا۔ ہائیرایجوکیشن کمیشن شاید جواب نہ دے پائے لیکن جامعات کے بی پی ایس اساتذہ یہ سمجھتے ہیں کہ تحقیق کا معیار اس لیے گر رہا ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے جامعات کے اساتذہ کو بی پی ایس اور ٹی ٹی ایس میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایچ ای سی، جامعات کے اساتذہ کی تقرری اور پروموشن کیلئے کم از کم معیار اور اہلیت فراہم کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ اس حوالے سے ایچ ای سی آرڈیننس 2002 کے سیکشن (کیو۔10) میں اس اختیار کی وضاحت موجود ہے لیکن بد قسمتی سے اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ اپوبٹا ایچ ای سی کے بنائے گئے آرڈیننس کی خلاف ورزی کو انتہائی تشویش ناک سمجھتا ہے۔ جامعات میں بی پی ایس فیکلٹی مکمل نظر انداز ہو رہی ہے۔ جامعات میں اس وقت تناسب کے اعتبار سے بی پی ایس فیکلٹی 88 فیصد جب کہ ٹی ٹی ایس محض 12 فیصد اساتذہ پر مشتمل ہے۔ ٹی ٹی ایس خالصتاً ریسرچ ٹریک ہے لیکن اب یہ لوگ زیادہ تر انتظامی ذمہ داریوں پر قابض ہو چکے ہیں، حالانکہ ابتداءمیں خود ایچ ای سی نے بی پی ایس اساتذہ کے انتظامی عہدوں پہ پابندی لگائی تھی۔ اس کے نتیجہ میں تحقیق پر مبنی تقرریوں اور ترقیوں کا منظرنامہ مزید خراب ہو گیا ہے۔ ٹی ٹی ایس فیکلٹی کی ترقیاں بغیر اشتہارات اور بغیر ملک گیر مقابلے کے ہو رہی ہیں جب کہ بی پی ایس پر تعینات سینئر، قابل اورتجربہ کار فیکلٹی ممبرز کے حقوق سلب کیے جا رہے ہیں نیز پیچیدہ قوانین بنا کر ہائیر ایجوکیشن کمیشن جہاں جگ ہنسائی کا باعث بن رہا ہے۔ جونیئر اور کم تجربہ ٹی ٹی ایس فیکلٹی ممبرز کو بی پی ایس پر فوقیت دی جا رہی ہے۔ بی پی ایس اساتذہ کیلئے کوئی پروموشن پالیسی نیہں ہے جس کی وجہ سے اساتذہ کی کارکردگی سمیت جامعات کا تدریسی معیار شدید متاثر ہورہا ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے جس طرح جعلی تحقیق کا پول خود کھول دیا ہے وہ سب کے علم میں ہے۔ اسی طرح بی پی ایس اساتذہ کے ساتھ امتیازی سلوک سمجھ سے بالاتر ہے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت جامعات میں 60 فیصد سے زائد فیکلٹی ممبران نان پی ایچ ڈی ہیں، یونیورسٹیوں میں ان کی اہلیت بہتر بنانے کیلئے کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ مزید برآں یہ امتیازی سلوک اور قانونی خلاف ورزی سنیارٹی کے سنگین مسائل پیدا کرنے کے ساتھ جامعات میں ایک ایسا نا سازگار ماحول پروان چڑھا رہا ہے جس کے باعث اساتذہ کرام جو کہ معماران قوم ہیں، میں شدید احساس محرومی پیدا ہو چکا ہے۔ اپوبٹا کے راہنماو¿ں نے مزید کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ جامعات میں بی پی ایس اساتذہ کے ساتھ امتیازی سلوک کو روکا جائے۔ سنیارٹی کے خود ساختہ مسائل کو حل کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس صورتحال میں بی پی ایس فیکلٹی نے پروموشن پالیسی تجویز کر کہ ایچ ای سی کو بھیجی ہے تاہم یہاں بھی تاخیری حربے اختیار کیے جا رہے ہیں۔ یکم دسمبر 2021ءسے ملک کی تمام جامعامات میں بی پی ایس فیکلٹی ممبران نے اپنے جمہوری و آئینی حق کو استعمال کر کہ احتجاج شروع کر رکھا ہے۔ اس پورے احتجاج میں کبھی کسی کلاس کا بائیکاٹ کیا گیا نا امتحانات کا اور نا ہی جامعات کی انتظامیہ کو اس حوالے سے کسی مشکل میں ڈالا گیا۔ مگر اب اگر 28 فروری تک جامعات کے بی پی ایس اساتذہ کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو یکم مارچ 2022 سے ملک بھر کی پبلک سیکٹر یونیورسٹیز کے اساتذہ ملک گیر احتجاج کرنے پر مجبور ہوں گے اور اس کی ساری ذمہ داری حکومت اور ایچ ای سی پہ ہوگی۔ اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ کل سے شروع ہونے والا احتجاج کئی مراحل پہ مشتمل ہوگا جس میں احتجاجی ریلیوں او مظاہروں کے ساتھ 10 مارچ کو اسلام ا?باد میں ایچ ای سی کے مرکزی دفتر کے باہر احتجاج کیا جائے گا۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس صورتحال کو سنجیدگی سے لے تاکہ معاشرے کا باشعور طبقہ علم و تحقیق کے کام کو یکسوئی سے سر انجام دے سکے۔


