ڈاکٹر رشید حسن خان

صباء الدین صباء

60ء اور 70کی دہائی میں کرشماتی طالب علم رہنماء جو تین نسلوں تک نوجوانوں کے دلوں پر حکمرانی کرتے رہے آج سے چار سال پہلے( 30اپریل 2016 ء ) کو کراچی میں گوشہ گمنامی میں انتقال کر گئے لیکن امریکہ ، یورپ اور ایشیاء میں ان کے چاہنے والوں نے جس بڑی تعداد میں انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا اس سے ثابت ہو گیا کہ ان کے لئے گوشہ گمنامی کی اصطلاح درست نہیں ۔

اپنی تنہائی میں اس عظیم الشان محفل کو سجائے رکھنے پر ڈاکٹر صاحب کو سرخ سلام ۔

ڈاکٹر صاحب سے میری پہلی ملاقات1971ء کے اواخر میں ہوئی تھی میں مئی میں ڈھاکہ سے کراچی پہنچا اور یونیورسٹی میں داخل ہو گیا ۔ مجھے ڈھاکہ میں ہی ڈاکٹر طحہٰ اور دیگر ساتھیوں نے یہ بتا دیا تھا کہ کراچی میں این ایس ایف ( رشید ) والے ہمارے ساتھی ہیں ۔ لہٰذا مجھے اس تنظیم کے ساتھ جانا تھا ۔ ڈاکٹر صاحب جیل سے رہا ہو کر آئے تو ان سے ملاقات ہوئی اور تفصیلی گفتگو کے بعد باقاعدہ این ایس ایف پاکستان میں شمولیت اختیار کی ۔ ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کے بعد اندازہ ہوا کہ مشرقی پاکستان میں راشد خان مینن اور محبوب اللہ جیسی قیادت کے مساوی یہاں مغربی پاکستان میں صرف رشید حسن خان ہی تھے ۔ ڈاکٹر صاحب کی علمی سطح ،نظریہ پر گرفت اور ان کی کمٹمنٹ متاثر کن تھی ۔

ڈاکٹر رشید حسن خان کے انتقال پر مزدور کسان پارٹی نے جنرل سیکریٹری تیمور رحمٰن کے دستخط سے باقاعدہ تعزیت جاری کی ۔ اپنے تعزیتی پیغام میں انھوں نے کہا ہے کہ کوئی شخص ماضی کے کسی سیاسی مسئلے پر ڈاکٹر رشید حسن خان کے موقف کے مختلف پہلوءوں پر بحث کر سکتا ہے ایک چیز جس پر کوئی بحث نہیں ہو سکتی وہ ڈاکٹر رشید حسن خان کی اپنے نظریات کے ساتھ بے غرضانہ وابستگی اور بنی نوع انسان کے نئے مستقبل پر ان کا پختہ یقین ہے ۔

نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنوں اور مزدورساتھیوں میں ڈاکٹر رشید حسن خان کو جو قدر و منزلت حاصل تھی وہ بائیں بازو کی کسی تنظیم میں کسی شخص کو حاصل نہیں ہوئی ۔ این ایس ایف کے کارکن ڈاکٹر صاحب سے خاص جذباتی لگاءو رکھتے اور ہر وقت ان پر جان نثار کرنے کو تیار رہتے تھے ۔ اس میں 1960ء کی دہائی میں عالمی سطح پر ابھرنے والی نوجوانوں کی تحریکوں سے پیدا ہونے والے رومانوی ماحول کو بھی دخل تھا ۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کی کرشماتی شخصیت بھی نوجوان انقلابیوں کا خون گرمائے رکھنے کا ذریعہ تھی ۔ انھوں نے 1962 میں این ایس ایف میں شمولیت اختیار کی اور اس کے بعد سے وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی کی مبینہ بے قاعدگیوں کا معاملہ ہو ، ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کی للکار ہو ، یا 1965 ء میں بھارتی جارحیت ہو ۔ ڈاکٹر صاحب نے ان سب تحریکوں میں سرگرم حصہ لیا ۔ 1965 ء کی جنگ کے بعد ایوب حکومت نے تاشقند میں بھارتی حکمراں کے ساتھ غیر مساوی معاہدہ کیا تو ڈاکٹر رشید حسن خان کی قیادت میں این ایس ایف نے قومی خود مختاری کی حمایت کرتے ہوئے معاہدے کو یکسر مسترد کر دیا ۔

1971ء قومی تاریخ کا نہایت اہم سال ہے جب ملک دولخت ہو گیا ۔ اس سے قبل سابق مشرقی پاکستان میں فوجی کاروائی ہوئی تو ایک بار پھر ڈاکٹر صاحب اور ان کے ساتھیوں نے انقلابی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریاستی جبر اور عوام کے خلاف کاروائی کی کھل کر مخالفت کی ۔ اس موقف کا اعتراف اس وقت کے معروف مارکسی دانشور پورفیسر عزیز الحق نے اس طرح کیا ۔

قومیت کے مسئلے پر صرف دو جماعتیں مزدور کسان پارٹی اور این ایس ایف ( رشید ) کا موقف ، طبقاتی کشمکش اور قومتیوں کے تضاد دونوں کو مربوط انداز میں دیکھتے ہیں ۔ ان کے نزدیک طبقاتی جدوجہد کو کامیاب کیئے بغیر مظلوم قومتیوں کا مسئلہ حل نہیں کیا جا سکتا اور مظلوم قومتیوں کے عوام کی حمایت کے بغیر تمام تر عوام کا اتحاد نا ممکن ہے ۔ ہماری رائے میں یہی موقف درست ہے ۔

این ایس ایف پاکستان انقلابی طلبا کی تنظیم تھی اور اس تنظیم کا تعلق کسی نہ کسی ڈسپلن سے رہا ہوگا ۔ این ایس ایف کی تنظیم میں تین شخصیات نہایت اہم تھیں ۔ جن کی اجتماعی قیادت ہی این ایس ایف کے ارتقا کی ضمانت تھی ۔ قومی تاریخ میں حکمرانوں کو سب سے بڑا حقیقی چیلنج در پیش ہوا وہ این ایس ایف پاکستان سے ہی تھا ۔ مذکورہ اجتماعی قیادت تنظیم کی فعالیت اور ترقی کے لئے جتنی اہم تھی اتنی ہی حکمران طبقے کے لئے خطرناک تھی ۔ لہذا اس قیادت کو توڑنا انتظا میہ کا اولین ٹا سک تھا جب تک رشید حسن خان ،لطیف چوہدری اور زاہد حسین یکجا تھے ۔ این ایس ایف پاکستان ایک ناقا بل تسخیر قوت نظر آتی تھی ۔ پھر ان تینوں کے درمیاں غلط فہمیا ں پیدا کی گئیں ، سخت گیر رویے کا سب سے زیادہ نقصان خود این ایس ایف کی تباہی اور رشید حسن خان کی تنہا ئی کی صورت میں بر آمد ہوا ۔ رویے کی اس سخت گیری کوصرف ان کی ذاتی کمزوری قرار دینا ان کی ذات تک محدود کر کے دیکھنا مناسب نہ ہوگا ۔ پرجوش اور با صلاحیت نوجوان قیادت کو اجتماعیت کا حصہ بنائے رکھنے میں منطقی طور پر ناکامی نے (فردیت)کو فروغ دیا ویسے بھی اکثر ماوَ نواز گروپوں میں رومانیت پسندی،انتہاپسندی اور شخصیت پرستی کے رجحانات عام تھے ۔ بہر حال این ایس ایف کی سطح پر منفی رجحانات نے سخت تنقیدوں اور مبا حث کو جنم دیا ۔ اجتماعی قیادت جب تک موجود رہی مل جل کر مسا ئل نمٹا تی رہی ۔ لطیف چو ہدری اور زاہد حسین کی علیحدگی کے بعد این ایس ایف سیاسی قیادت کی طرح انتشار اور زوال کا شکار ہو گئی یقینا ڈاکٹر رشید حسن خان کے ساتھ ساتھ اختلاف رائے کا مظاہرہ کرنے والے بھی یکجہتی اور اجتماعیت کو بر قرار رکھنے میں نا کام رہے ۔

2010یا 2011 میں کسی وقت کراچی جاناہوا ہائی کورٹ میں سینئر ساتھی اشرف رضوی سے ملاقات ہوئی ۔ ان سے ڈاکٹر صا حب کی خیر یت معلوم ہوئی اور پتا چلا کہ وہ ڈاکٹر صا حب کے ساتھ رابطے میں ہیں انھیں سے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صا حب اپنا بلاگ چلا رہے ہیں ۔ بلاگ کا نا م اور ڈاکٹر صا حب کا فون نمبر لے کرگھر پہنچا تو فورا کمپیو ٹر پر بیٹھ گیا ۔ (اپنا کل) بلاگ دیکھنا شروع کیا تو اندازہ ہوا کہ ڈاکٹر صا حب نئے جوش و جذبے کے ساتھ پاکستا ن میں با ئیں بازو کی تشکیل نو میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں ۔ وقت ضائع کئے بغیر میں نے ڈاکٹر صا حب سے فون پر رابطہ کیا اور ان کے نئے گھر کا پتہ معلوم کر کے فوری طور پر حسن اسکو ائر روانہ ہوا ۔ تقر یبا تین گھنٹے مختلف نظری ملکی اور بین الاقوامی امور پر ڈاکٹر صا حب کی شاندار بامعنی ِسا ئنٹفک گفتگو سننے کا مو قع ملا (اپنا کل)بلاگ میں ڈاکٹر صا حب کے تحر یر کردہ اداریے پڑھ کر پاکستان کے با ئیں بازو کی تشکیل کے بنیادی عوامل سے جو اگاہی ملتی ہے وہ کسی اور جگہ نظر نہیں آتی ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ڈاکٹر صا حب اپنی عملی و تحقیقی کاوشوں پر توجہ مرکوز نہ کرتے تو شائد ہم با ئیں باوز کی فکری تشکیل نو میں ڈاکٹر صا حب کے اہم کردار سے مستفید نہ ہو پاتے ۔ اس لحاظ سے لوگ جسے کنارہ کشی اور تنہائی تصور کر رہے ہیں وہ عرصہ ڈاکٹر صا حب کی بھر پور تخلیقی سر گر میوں اور نظری رہنمائی کا عرصہ ہے ۔

یہ بات میرے لئے مسرت اور حوصلہ افزائی کا باعث تھی کہ ڈاکٹر صاحب آر تھو ڈ کس اکیڈ مک ما ر کسیوں کے بر خلاف ٹیکنا لو جی کے انقلاب سے پیدا ہو نے والی نظر ی تبدیلیوں اور حیرت کا ر یوں کا فر ا خدلا نہ خیر مقدم کر رہے تھے ، اب دیکھنا یہ ہے کہ بائیں بازو کی دیگر جماعتوں اور گروپوں اور با لعموم پاکستان کے روایتی بائیں بازو سے ڈاکٹرصاحب کی علیحدہ حیثیت کی نظری تعبیر کیا ہے ۔

وہ اپنے نظر یا ت کا سب سے پہلے اپنی ذات پر اطلاق کر نا لازمی تصور کر تے تھے ۔ اپنی کئی دہا ئیوں پر مشتمل جدوجہد کے نتا ءج اور مشاہدات سے نئی نسل کو آگاہ کر نے کے لئے انھوں نے اپنے بلا گ ;34;اپنا کل ;34; میں بہترین نگار شات پیش کی ہیں ۔ جو پاکستان میں بائیں بازو کی تنظیم نو میں انتہائی مدد گار ثابت ہو سکتی ہیں ۔

وہ تنظیم کی ساخت اور انداز کا ر کے حوالے سے ’’لینن‘‘ کے وضع کر دہ اصولوں پر پختہ یقین رکھتے تھے ۔ ان کا موقف تھا کہ ڈراینگ رو موں کی سیاست یا محض انقلابی لفاظی کے ذریعے پاکستان میں انقلاب کی کوئی خدمت نہیں کی جا سکتی ۔ انقلابی تنظیم کاری کے مشکل اور پیچیدہ عمل کا اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ اس سے مفر ممکن نہیں ۔ وہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ ہم محض اپنی خواہشات کے مطابق تنظیم کاری کے قوانین پر عمل کیئے بغیر نتا ءج حاصل نہیں کر سکتے ۔ انھوں نےاپنے ایک مضمون میں ;34; تنظیم کاری کے ;34;حوالے سے تحریر کیا ہے کہ ’’جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بائیں بازو کی تنظیموں کو انقلابی نظریے سے مسلح ہونا ہے تو آج اس بات کو سمجھنا اشد ضروری ہے کہ اس کے معنی محض مارکس ‘ لینن اور ماءو کی تعلیمات سے مسلح ہونا نہیں بلکہ اپنے ملک کے ٹھوس حقائق سے مکمل آشنائی رکھتے ہوئے اعلیٰ نظری تعلیمات کا ان ٹھوس حقائق پر تخلیقی اطلاق کرنا اور اسی کی بنیاد پر اپنے اہداف اور طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے پاکستانی انقلاب کے نظریے سے مسلح ہونا ضروری ہے ۔ پاکستانی انقلاب اور اس کے خدو خال کے بارے میں سو چا جائے تو ڈاکٹر رشید خان مختلف مو ضوعات پر روایتی بائیں بازو سے مختلف انداز میں سوچتے بلکہ میں یہ کہوں تو نا منا سب نہ ہو گا کہ پاکستان کا روایتی بایا ں بازو ڈاکٹرر رشید حسن خان کے انقلابی نظر یات کو ہضم کرنے سے قاصر تھا ۔ انداز فکر کا یہ فرق اتنا واضح اور گہرا ہے کہ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے مختلف ادوار میں وابستہ رہنے والے کار کن بائیں بازو کی کسی روایتی سیاسی جماعت میں مکمل طور پر ایڈ جسٹ نہیں ہو پا تے ۔

جمہوریت

اس میں شبہ نہیں کہ سیاسی طور پر ہم آج بھی جمہوریت کے تاریخی مرحلے میں ہیں اور پاکستانی عوام کی جمہوری جدوجہد آج عوامی حاکمیت کی جدوجہد کا تاریخی مرحلہ قرار دی جاسکتی ہے لیکن پاکستان میں راءج ’’ ڈھانچہ جاتی جمہوریت ‘‘ سے ہمدردی رکھنے والے بائیں بازو کے عناصر کے لئے ڈاکٹر رشید حسن خان کی اس رائے سے واقفیت ضروری ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بائیں بازو کے کارکنوں کو ڈھانچہ جاتی جمہوریت کی اصلیت سے عوام کو آگاہ کرنا اور حقیقی یا عوامی جمہوریت کے لئے جدوجہد کر نا لازم ہے ۔

سامراج کا مسئلہ

ماضی میں سامراج اور اس کی پالیسیوں کے خلاف بائیں بازو کا متحرک اور شاندار کر دار رہا ہے لیکن محض ماضی کے حوالے دے کر ہم خود کو سامراج دشمن تسلیم نہیں کرواسکتے ۔ گزشتہ کئی سالوں خاص طور میں سو ویت یونین کے انہدام کے بعد بائیں بازو کا کردار ماند پڑ گیا اور ان کی خالی کر وہ جگہ کو غیر طبقات کے رجحانات کی حامل جماعتوں نے پر کیا ۔ نائن الیو ن کے بعد امریکی سامراج نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر دنیا پر اپنی بالا دستی بر قرار رکھنے کے لئے ایک نئی زیادہ جار حانہ حکمت عملی اختیار کی اور ترقی پذیر ممالک کے وسائل پر قبضے کی نئی جنگ ان پر مسلط کر دی ۔ امریکی اور نیٹو فورسز نے افغانستان اور عراق میں لاکھوں مزدور وں کو موت کے منہ میں جھونک دیا امریکی فوجیوں نے بیرون ملک عورتوں اور بچوں کے خلاف بھیانک جرائم کا ار تکاب کیا ۔ اس کے بعد سے مغربی سامراجی قوتوں خاص طور سے امریکی سامراج نے دنیا بھر میں غریب عوام کے خلاف انسانیت سوز مظالم کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ۔ دنیا کے مختلف ممالک بشمول پاکستان میں دہشتگردی بھی اسی سکے کا دوسرا رخ ہے ۔ لیکن افسوس کہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے بعض عناصر آج سامراج مخالف جدوجہد کو ضروری نہیں سمجھتے بلکہ بعض تو دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سامراج سے تعاون حاصل کر نے کے بھی خواہش مند ہیں ۔ ظاہر ہے ایسے عناصر کے ساتھ ڈاکٹر رشید حسن خان کا سمجھوتہ نہیں ہو سکتا تھا جو سامراج کے خلاف غیر مصالحانہ جدو جہد پر پختہ یقین رکھتے تھے ۔

پاکستان کی خود مختاری

یہ ایسے موضو عات ہیں جس پر گفتگو کر نا بھی با ئیں بازو کے بعض لبرل عناصر شایان شان نہیں سمجھتے لیکن ڈاکٹر رشید حسن خان کا شمار ان لوگوں میں تھا جو زمینی حقائق کو خو شنما تصورات پر ترجیح دیتے تھے ۔ جب امریکی اور نیٹو فورسز نے اسامہ بن لادن کو پکڑ نے کے لئے پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں جار حیت کی تو ملک میں بائیں بازو کے اکثر عناصر کو سانپ سونگھ گیا ۔ ممتاز امریکی دانشور نوم چو مسکی اور کمیو نسٹ پارٹی آف انڈیا (ماءوسٹ ) کی جانب سے اس واقعے پر امریکا کی سخت مذمت کی گئی لیکن پاکستان میں ڈاکٹر رشید حسن خان کے سوا کسی نے پاکستان کی سر زمین پر سامراجی یلغار کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھا ئی‘‘ ۔ امر یکہ نے سلا لہ چیک پوسٹ حملہ کر کے 24پاکستانی فوجیوں کو شہید کر ڈالا تو ر شید حسن خان ہی تھے جنہوں نے اس واقعے کی سختی سے مذمت کر تے ہوئے ترقی پسند اور محب وطن قوتوں کے اتحاد کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا ۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کے عوام کو آج جن شدید مسائل کا سامنا ہے ان میں انتہا پسندی اور دہشتگردی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انتہا پسندی اور دہشتگردی جا گیر

دار ا نہ نظام اور سامراج کی پیدا وار ہیں اور ان لعنتوں سے نجا ت حاصل کیے بغیر انتہا پسندی اور دہشت گردی سے مستقل چھٹکارا حاصل کر نا ممکن نہیں ہے ۔

پاکستانی انقلاب کے مقامی اجزا ئے تر کیبی کو رشید حسن خان بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے ۔ عالمی اور مقامی تجزیوں اور مشاہدات نے اس موقف کی سچائی کو ثابت کیا ہے ۔ یہ او ر بات ہے کہ پاکستانی عوام سے کٹے ہوئے ’’ ڈراینگ رو موں تک محدود لبرل دانشور وں ‘‘کو یہ بات اب بھی سمجھ میں نہیں آتی ۔ تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ اب پاکستانی عوام اور خاص طور سے بائیں بازو کے نئے متحرک اور باشعور کا ر کنوں میں بائیں بازو کے نظر یات کی نئی اور درست تفہیم مقبول ہو رہی ہے ۔ ڈاکٹر رشید حسن خان کے خیال میں سما جی انصاف کے حصول اور سو شلز م کی تعمیر میں مقا می خصوصیات کی کلیدی اہمیت نا قابل تردید ہے ۔ ڈاکٹر رشید حسن خان کی مسلسل جدوجہد ان کے گہرے مطالعہ و وسیع مشاہدے سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ہ میں امریکی سامراج کے خلاف مزاحمت میں شریک ہو کر بین الاقوامی مزدور تحریک میں فعال کر دار ادا کرنا چاہیے ۔ بھارتی تو سیع پسندی کی مخالفت کر کے خطے کے دیگر ملکوں کے عوام اور خود بھارت میں استحصال کا شکار عوام کے ساتھ اپنے اتحاد کو مستحکم کر نا چاہیے ۔ جا گیر دارانہ نظام اور افسر شاہی سر ما یہ داری کے خلاف ملک میں عوام جمہوری انقلاب بر پاکر نا چاہیے ۔

اس مقصد کے لئے ڈا کٹر صاحب جدوجہد کی ہر شکل کو جائز سمجھتے ہیں ۔ تاہم اس بات کی وضا حت ضروری ہے کہ ’’بورژوا جمہوریت ‘‘ کبھی ان کی منزل نہیں رہی ۔ ڈاکٹر صاحب یقین رکھتے تھے کہ پاکستانی معاشرے میں اصلاح کی نہیں انقلاب کی ضرورت ہے ۔ لہذا تمام جمہوری ذراءع اور طریقوں سے استفادہ کر تے ہوئے انقلابی عمل کو اولیت دی جانی چاہیے اور ایک انقلابی تنظیم کے ذریعے ملک میں عوامی جمہوری انقلاب کو آگے بڑھا یا جانا چاہیے ۔ ’’ کا مر یڈ ڈاکٹر رشید حسن خان کو دل کی گہرائیوں سے سرخ سلام پیش کر تے ہوئے ہم اس عزم کا اعادہ کر نا ضروری سمجھتے ہیں کہ مقامی خصوصیات کے حامل پاکستانی انقلاب کی تکمیل کے لئے ہم سے جو کچھ ممکن ہو سکا کرتے رہیں گے‘‘ ۔

(ڈاکٹر رشیدحسن خان کو سرخ سلام)

اپنا تبصرہ بھیجیں