گورنر کی رعونت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مزاحمتی شاعری

تحریر:۔انور ساجدی

وزیراعظم نے کامسیٹ یونیورسٹی میں طبی آلات کی نمائش دیکھی سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیرحضرت فواد چوہدری نے اس کا انتظام کیاتھا وزیراعظم اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے تقریباً نارمل لگ رہے تھے لیکن کچھ کھوئے کھوئے سے تھے اور کسی حد تک متفکر انہوں نے تقریب کے آغاز پرصرف فوادچوہدری کاشکریہ ادا کیا جبکہ دیگروزراء کونظرانداز کرتے رہے انہوں نے کوئی نئی بات نہیں کی اپنی گزشتہ باتوں کا تکرار کرتے رہے یہ جملہ بھی دوبارہ کہا کہ جو ملک ایٹم بم بناسکتا ہے اسکے لئے وینٹی لیٹربنانا کونسا مشکل ہے وزیراعظم کی یہ بات تودرست تھی لیکن ایٹم بم تو1998ء میں بناتھا اس وقت سے اب تک22برس کا عرصہ گزرچکاہے لیکن اس دوران کسی بھی حکومت نے وینٹی لیٹر نہیں بنائے بلکہ کسی کو اسکی پرواہ بھی نہیں تھی یہ تو کرونا کی وبا آئی توپتہ چلا کہ پورے ملک میں 3800وینٹی لیٹر ہیں ان میں سے بھی2ہزار پرائیویٹ اسپتالوں کے پاس ہیں پاکستان نے2عشروں کے دوران متعدد جدید ترین میزائل بھی بنائے اور ان کا کامیاب ٹیسٹ بھی کیا لیکن کسی اسپتال کی حالت کو درست نہ بنایا کوئی نیااسپتال نہیں بنایا گیا اس دوران مشاق طیارے بھی بنائے گئے لیکن یونیورسٹیوں کی حالت زار پرتوجہ نہیں دی گئی وزیراعظم کوکوئی بتائے کہ ایٹم بم بنانا یا میزائل تیار کرنا الگ کام ہے صحت اور تعلیم پرتوجہ دیناجداکام ہے۔مثال کے طور پر جاپان اورجرمنی دوسری جنگ عظیم کے دور میں مکمل تباہ ہوگئے لیکن انہوں نے اپنی تعمیر نوتعلیم خاص طور پر سائنس اورتحقیقی کاموں کا بجٹ بڑھا کر کیا جنگ میں شکست کے بعد دونوں ممالک نے تباہ کن ہتھیاروں کی تیاری پر کوئی توجہ نہیں دی بلکہ وہ صنعتی پیداوار بڑھاتے رہے نئی مشینیں ایجاد کرتے رہے حتیٰ کہ وہ جنگ وجدل کوچھوڑنے کے بعد دنیا کے ترقی یافتہ ترین ملک بن گئے ہمارا تو یہ حال ہے کہ را سکوہ پہاڑ میں ایٹمی دھماکہ تو کیا گیا لیکن پلٹ کر دیکھا نہیں کیا گیا اس علاقہ کے غریب لوگوں کا کیاحال ہے یا دھماکہ کے بعد ان کی زندگیوں میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں اس طرح کوہ سلیمان کے جس حصے سے یورنیم کھود کر نکالا گیا انہیں حفاظتی اقدامات کے بغیر اسی طرح چھوڑا گیا آج تک کسی نے نہیں پوچھا کہ یہ علاقے اپنے ملک کاحصہ تھے یا فرانسیسی نو آبادیات تھے جہاں کے لوگوں کو خدا کے رحم وکرم پر چھوڑاگیا۔
اس ملک کا جوحکمران اشرافیہ ہے اس کا عجیب وغریب رویہ ہے ایسا لگتا ہے کہ وہ 19ویں صدی میں رہ رہے ہیں وزیراعظم بادشاہوں کا طرزعمل اختیار کرتے ہیں جبکہ گورنرخود کو وائسرائے سمجھتے ہیں انکے نزدیک عوام رعایا ہیں انکی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ایسے ہی ایک افسوسناک رویہ کااظہار سندھ کے گورنر عمران اسماعیل نے کرونا میں مبتلا ہونے کے بعد کیا ایک ٹی وی انٹرویو کیاموصوف نے فرمایا کہ جب وہ اندرون سندھ کے دورے پر گئے تھے تو وہاں ان پڑھ لوگوں سے ملنا جلنا پڑا جس کی وجہ سے انہیں کرونا لگ گیا حالانکہ اگر گورنر صاحب جائزہ لیتے تو سندھ جیسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کراچی میں بھی آباد ہے ان غریب غرباء کی حیثیت بھی دوٹکے کی رعایا سے زیادہ نہیں ہے سوال یہ ہے کہ گورنر نے یہ تفریق کیوں کی کیا وہ صرف کراچی شہر کے گورنر ہیں یا صوبہ سندھ کے؟اگروہ خود کو شہری اشرافیہ کا حصہ سمجھتے ہیں تو بتادیں کہ وہ اشرف المخلوقات ہیں اور باقی لوگ حقیر ہیں حالانکہ میرٹ پردیکھاجائے تو عمران اسماعیل گورنر لگنے کے لائق نہیں ہیں انکی تعلیم محض میٹرک ہے اورانکی کوئی سیاسی جدوجہد بھی نہیں ہے بس وہ جس جماعت میں شامل تھے اسے اقتدار میں لایا گیا جس کی وجہ سے وہ گورنر لگ گئے اگروہ انڈیا میں ہوتے تو ان کا حشر بھی وہاں کے مسلمانوں جیسا ہوتا اوراگر وہ تحریک انصاف میں نہ ہوتے تو جوڑیا بازار میں کریانہ کاکاروبار کررہے ہوتے گورنر نے جس رویہ کااظہار کیا وہ اس بات کا غماز ہے کہ برسوں سے جو مائنڈسیٹ کام کررہا ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اس سوچ کے حامل لوگ برسوں سے کراچی اور دیگرشہری علاقوں کو سندھ سے علیحدہ کرنے کی بات کررہے ہیں یہ سوچ آج بھی بچی کچی ایم کیو ایم میں موجود ہے ایم کیو ایم کی تو وہ حالت ہے کہ رسی جل گئی لیکن بل نہ گیا۔
گورنر اسماعیل نے حلف اٹھانے کے بعد برملاکہاتھا کہ وہ امی جان کو جاکربتائیں گے کہ یونیورسٹی نہ جانے کے باوجود وہ کئی درجن یونیورسٹیوں کے چانسلر ہیں انہوں نے تحریک انصاف میں تبدیلی آئی ہے والدترانہ گاکر شہرت حاصل کی وہ اگرچہ صوبہ سندھ کے گورنر ہیں لیکن اپنے کوصرف کراچی کاحاکم سمجھتے ہیں سخت لاک ڈاؤن کے دنوں میں انہوں نے تاجروں اورصنعتکاروں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا اور انہیں اکساتے رہے کہ وہ لاک ڈاؤن کیخلاف مزاحمت کرے وہ بداحتیاطی پر زور دیتے رہے کہ خدا کاکرنا ایسا ہوا کہ وہ خود کرونا کا شکار ہوگئے ایک اوراہم بات یہ ہے کہ گورنر صاحب وزیراعظم اور سندھ حکومت کے درمیان خوشگوار تعلقات بنانے نہیں دیتے تاکہ تصادم کی صورت برقراررہے۔قانون سے نابلد ہونے کے باوجود انہیں خوش فہمی ہے کہ ایک دن ضرور گورنر راج لگے گا اور وہ بااختیار حاکم بن جائیں گے کہاجاتا ہے کہ وزیراعظم کا تازہ دورہ کراچی اور وزیراعلیٰ سے ملاقات بھی انہوں نے ملتوی کروایا کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ مرکز سندھ کی کرپٹ حکومت کوہٹادے لیکن گورنر کو معلوم نہیں کہ جب تک18ویں ترمیم موجود ہے مرکزصوبائی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتا اور نہ ہی کوئی گورنر عشرت العباد کی طرح کراچی کے سیٹھوں سے بھتہ وصول کرسکتا ہے اگرعمران اسماعیل کو بااختیار حکمران بننے کا شوق ہے تو وہ اپنی مرکزی حکومت پر زور دے کہ وہ18ویں ترمیم کو ختم کرنے کی کارروائی جلد شروع کردے ورنہ نہ گورنر صاحب کی مرادیں پوری ہونگی اور نہ مرکز کی مطلب برداری ہوگی ویسے بھی18ویں ترمیم کے خاتمہ کے حق میں حالات اتنے ناموافق نہیں ہیں کیونکہ ن لیگ کے سربراہ شہبازشریف نے حکومت کوتعاون کی مشروط پیشکش کردی ہے ادھر انکے بڑے بھائی نوازشریف سے بھی خفیہ مذاکرات چل رہے ہیں حکومت کے سرپرست اوراتحادی بھی قائم ودائم ہیں اس کا اندازہ چوہدری پرویز الٰہی کے حالیہ بیانسے لگایا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے 18ویں ترمیم کی بھرپور مخالفت کی ہے حالانکہ جب چوہدری صاحب ڈپٹی پرائم منسٹر تھے تو یہ ترمیم متفقہ طور پر منظور ہوئی تھی اس وقت انہوں نے آنکھیں بند کرکے انگوٹھا لگایا تھا بلکہ اس پر کوئی اعتراض نہیں کیاتھا آج تبدیل شدہ حالات میں انہیں لگتا ہے کہ18ویں ترمیم ملک کی سلامتی کیخلاف ہے اصل میں اس وقت چوہدری صاحب کوزرداری کی خوشنودی درکار تھی اور آج انہیں اپنے نئے ”باس“کو خوش کرنے ہیں یہی پاکستانی سیاست کا دستور ہے۔
شبلی فراز کوحلف اٹھاتے ہوئے دیکھ کر بڑاافسوس ہوا کہ احمد فراز کے صاحبزادے حلف کے اردو الفاظ صحیح طور پر پڑھ نہیں سکتے تھے اس سے ثابت ہوا کہ یہ ضروری نہیں کہ ہر عالم کا بیٹا بھی عالم ہو۔
ایک مرتبہ ہم لوگ ڈھاکہ کے ”سنارگاؤں“ ہوٹل میں بیٹھے تھے تو اچانک احمد فراز کے بھائی بیرسٹر مسعود کوثر نے کہا کہ ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ میں اسپیکر ہوں بیرسٹر ہوں لیکن میرے بھائی کو لوگ مجھ سے زیادہ کیوں جانتے ہیں؟اس پر امان اللہ گچکی نے کہا کہ یار یہ بتاؤ آپ نے آکسفورڈ میں پڑھا کیا تھا انہوں نے مشورہ دیا کہ آپ ایک بار احمدفراز کاکلام پڑھیں پھر آپ کو بات سمجھ میں آجائیگی۔عہد حاضر میں احمدفراز نے جو شہرت اورنیک نامی کمائی وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی ایک مرتبہ اردو کے شاعر جاوید اختر کہہ رہے تھے کہ احمدفراز کا تعلق جس علاقہ سے ہے وہ اردو سخن کامیدان نہیں ہے لیکن اسکے باوجود انہوں نے کمال کی شاعری کی ہے بھئی کیا اردو لکھا ہے ان کا ہرشعر پڑھ کر داددینے کوجی چاہتا ہے اسی فراز کاصاحبزادہ اردو کا حلف ڈھنگ سے پڑھ نہیں سکتا۔
اسی طرح اردو کے قادرالکلام شاعر فیض احمد فیض کاتعلق سیالکوٹ سے تھا انکے والد افغانستان میں سفیر تھے تو انہوں نے فارسی پر عبورحاصل کیا انگریزی لٹریچر میں انہوں نے ایم اے کیا انہیں انگریزی اورفارسی پرعبور حاصل تھا اس لئے وہ وسیع میڈیم اور ابلاغ کی وجہ سے اردو پر بھی عبور حاصل کرگئے۔
ایک مرتبہ عطا شاد مرحوم نے انہیں عظیم بلوچی شاعر جام درک کے ایک شعر کاترجمہ سنایا جس پر وہ عش عش کراٹھے اور فرمایا کہ یہ غالب محصفی اورحافظ کے درجے کا شاعر ہے ساری رات وہ حیران وپریشان رہے۔
دل پاگل ہے جو مجھ سے الجھتاہے
اور میں پاگل ہوں جو دل سے الجھتاہوں
فیض صاحب کا ایک بڑا وصف یہ تھا کہ وہ بولتے کم تھے سنتے زیادہ تھے انہوں نے اپنی پوری زندگی میں کسی نکتہ چینی تنقید اور مخالفت کا جواب نہیں دیا صاف گوئی سے کہتے تھے کہ جو غالب نے سوچا اور جو کہا ہم اسکے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے ایک مثال بھی دی کہ غالب نے کہا تھا کہ یہ جو آسمان ہے اسکو ہم نے ایک دشت امکان پایا پھر کہا کہ یہ خلا کتنا وسیع ہے ابھی تک کوئی جان نہیں سکا لیکن غالب اس کی حقیقت جانتا تھا۔
ایک مرتبہ منیرنیازی سے ٹی وی انٹرویو کے دوران پوچھا گیا کہ آپ کے خیال میں اردو کی تاریخ کا سب سے بڑا شاعر کون ہے؟ توانہوں نے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا میں آپ کودکھائی نہیں دیتا جب یہ بات فیض صاحب کوبتائی گئی تو وہ صرف مسکرادیئے۔
میرگل خان نصیر نے فیض صاحب کی نظم سروادی سینا کا ترجمہ کیا جواب میں انہوں نے بھی میرصاحب کے کلام کا اردو ترجمہ کیا میرگل خان نصیر ابتدائی زندگی میں صرف بلوچی زبان کے شاعر تھے انکے پہلے شعری مجموعے کانام گلبانک تھا شروع میں وہ سرداری نظام کے مخالف تھے
جس کااظہار اپنی ایک نظم
اورراج کرے سردار
میں کیا تھا لیکن سیاست میں آنے کے بعد انہوں نے ہمہ جہتی سیاست کاانتخاب کیا کیونکہ قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی میں مختلف النوع کے لوگ شامل تھے 1970ء میں وہ سردارعطاء اللہ خان مینگل کی کابینہ میں سینئروزیر بنے جس پر کہا گیا کہ انہوں نے اپنے دوست میرغوث بخش بزنجو کی طرح سرداروں سے سمجھوتہ کیاہے۔
ایام جوانی میں انہوں نے انقلابی اورمزاحمتی کلام کہا یہ مزاحمتی شاعری اس وقت عروج پر ہے جس پر ان نوجوانوں کی بالادستی ہے جنہیں ناموافق حالات کی وجہ سے لوگ زیادہ نہیں جانتے لیکن ان کا کلام ترانوں کی صورت میں بہت مقبول ہے آگے آنے والے وقت میں یہ مزاحمتی ادب اور شاعری تادیر زندہ رہے گی۔
ایک دن ایک گیت سنا جوغالباً نوشین قمبرانی نے گایا ہے
شاعری ایک گمنام شاعر سہراب بلوچ کی ہے زبان ہے براہوئی لیکن جس نے اسے سوشل میڈیا پر
پیش کیا اس نے کمال کیا گیت کے ساتھ ایک نوجوان کردپیش مرگہ لڑکی کافوٹو لگایامختصر گیت کیا ہےپوری بلوچ تاریخ ہے لڑکی کہہ رہی ہے کہ
جب البرزکی چوٹی سے ن
یچے خاک میں اترجاؤں تو
مجھے دفن کرتے وقت ہالوہلو
لاڈے لڈے گا کر
اس خاک کے سپردکرنا
اس طرح کی مزاحمتی شاعر ی نے روایتی شاعری ختم کردی ہے
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں