کرونا اور عزم و استقلال کا بحران

راحت ملک
بلوچستان میں کرونا سے نمٹنے کے جاری لاک ڈاؤن ویسا ہی ہے جیسی تصویر جناب وزیراعظم کے ذہن کے نہال خانے میں ہے۔ آمدورفت کے ذرائع بند ہیں تو بھی ذاتی گاڑی کے ذریعے سفر کرنا ممکن ہے کوئٹہ سے کراچی یا لاہور آنا جانا مشکل ہو تب بھی ناممکن نہیں اندورن صوبہ تجارتی سرگرمیاں کم و بیش رواں ہیں سماجی فاصلے کا لازمی تقاضا لاپرواہی کی زد میں ہے یہ صورتحال حکومت اور انتظامیہ کی کمزوری ہی ظاہر نہیں کرتی دراصل روائتی قبائل معاشرتی ڈھانچے میں اس طرز حیات کا تصور ہی ناممکن ہے۔
قبائلی،سر قبائلی یا برادری کی تاریخی بندھن کی مضبوط روائت میں جکڑے معاشرے میں جو قرابت دارنہ سلوک مرگ و زیست غم وشادی میں ایثار و تعاون کی صدیوں سے چلی آرہی روایات کا امین ہو وہاں حکومت کی اپیل پر اپنی روائتی بودوباش سے انحراف سہل ہوتا ستم ظریفی یہ کہ حکومت کے عمل و عزم کے ارادے اور عمل پیرائی کا سارا سانچہ ہی ڈھلمل یقین پر اعتماد رکھتا ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں اسی فیصد تجارت مراکز تو بند ہیں لیکن ہر کسی کو بلا مقصد حفاظتی احتیاطی تدابیر اپنائے بغیر گھومنے پھرنے میں دقت درپیش نہیں۔ راشن کی دکانوں میں گہمی دیکھ کر کوئی بھی یہ یقین نہیں کر سکتا کہ یہاں کرونا کا مرض پھیلا ہوا ہے نیز ذہنی رویے میں توکل کے نام پر جس طرح کی اجتماعی سائیکی نے ساخت پائی ہے وہ بھی احتیاط کی راہ میں حائل ہو رہی ہے۔ سب سے ناقص پہلو مرکزی حکومت کا دھرا ذہنی مخمصہ ہے جو لوگوں کو صبر و تحمل کے ساتھ کرونا سے بچنے کی ترغیب دینے میں مزاحم ہے۔
حکومت اور سارا معاشرہ طبی عملہ اور دنیا مانتی ہے کہ اس وباء سے بچنے کے لیے سماجی فاصلے اور میل ملاپ سے گریز لازمی ہے۔ حکومت عوام کو وباء کی تباہی سے بچانے کا بھی ارادہ رکھتی ہے مگر عزمٍ صمیم سے خالی۔
غربت و معاشی پسماندگی اپنی جگہ ریاستی پالیسی کا حاصل نتیجہ ہے جسے دریں حالات روزگار کی بجائے ریاست کی طرف سے کفالت کی ضرورت ہے یہ رحمدلانہ سرگرمی سے زیادہ ریاست کے ادارہ جاتی وجود کی نظریاتی اساس کا اہم فریضہ ہے بصورت دیگر ریاست کا جواز ختم ہوجاتا ہے۔
رمضان کے پہلے دن کوئٹہ کے بازاروں میں دیکھا جانے والا رش کرونا وباء کے بھیانک پھیلاؤ کے اندیشوں کو تقویت دے رہا تھا حکومت کے فیصلہ سازی کے مرکزی حصے میں بھی اس خوف کی لہر دوڑتی نظر آئی جب ترجمان حکومت بلوچستان نے عوام کو لاک ڈاؤن کی پابندی اور احتیاطی اقدامات پر بھرپور عمل نہ کیا تو حکومت کرفیو نافذ کرنے پر غور کرے گی۔
بعد از خرابی ٍ بسیار اس طرز فغاں سے عامتہ الناس کو جنجھوڑنا مقصد تھا تو قابل توصیف ہے لیکن کیا اس بیان کے بین السطور یہ پوشیدہ حقیقت عیاں و تسلیم نہیں کی گئی کہ جو کام برائی (وباء) پھیلنے کے پہلے دن کر لینا چاہیے تھا صوبائی حکومت ابھی تک اس پر محض غور کر رہی ہے یہ بیاں حکومت کے ذہنی خلجان کا عکاس تھا چنانچہ بوکھلاہٹ کے بڑتے سائے نے کرونا وباء کے خلاف حکومتی اقدامات و ٹیم کو ہی متزلزل کر دیا
یہ جان کر خوف آتا ہے کہ صوبے میں کل 74 وینٹلیٹر موجود ہیں جو تمام کے تمام کوئٹہ میں نصب ہیں۔ اندرونی اضلاع میں وینٹی لیٹرکی سہولیات سرے سے مفقاد ہیں۔ یہاں تک کہ کرونا ٹیسٹ کی معقول سہولت بھی تاحال ہی میسر نہیں جبکہ 25 اپریل کے بعد کوئٹہ و بلوچستان میں مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھی ہے۔
آٓٓمدادی سامان ٹیسٹنگ کٹس اور طبی عملے کا حفاظتی لباس جو کثیر تعداد میں چین سے آ رہا ہے کن ذرائع کے توسط سے ہسپتالوں کو دیا گیا ہے؟
شائد ایک یہ سوال بھی حکومت کو صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب نہ کرنیکا موقف رکھتی ہے۔
کیا تماشہ ہے گورنر ا کرونا وباء سے متاثر ہوتے اور سیلف آئسولیشن اختیار کرتے ہیں مگر ذرا سی صحت سنبھلی تو وہی دھاک کے تین پاٹ کی راگنی الاپ دی فرمایا ہم کرونا سے کچھ زیادہ خوفزدہ ہوگئے ہیں اور زائد از ضرورت لاک ڈاؤن کے طرف چلے گے ہیں۔حضور اگر کرونا کا بجز آئسولیشن کو دوسرا علاج ممکن تھا تو آپ نے خود کو لاک ڈاؤن کیوں کیا؟ کیا آپ خوفزدہ ہونے تھے یا آپ کو بھی سب کی طرح اپنی جان و صحت عزیز تھی جسے محفوظ رکھنے کے لیے آپ نے ڈاکٹر ز کی ہدایت پر عمل کیا
تو انہی طبی ماہرین کی اس رائے پر عمل کرنے میں کیا قباحت محسوس کی جاتی ہے جب وہ لاک ڈاؤن میں نرمی کی بجائے سختی کرنے کا دردمندانہ مشورہ دیتے ہیں
محترم عمران اسماعیل صاحب ملک کا ہر شہری آپ کی طرح کا انسان اور وباء سے بچاو کے لیے تمام سہولیات کا آئینی انسانی استحقاق رکھتے ہیں۔
بلوچستان حکومت پرعزم طور پر اقدامات کرنے نیز کرونا ٹیسٹنگ کے عمل کو فعال کرے اس کا دائرہ پورے صوبے میں پھیلائے ایسے مستحکم بندوبست کی اشد ضرورت ہے جو ٹیسٹ کے نتائج میں تاخیر کا سبب نہ بنے۔ جمع شدہ نمونوں پر تیز رفتار عمل ہو۔ نمونہ جات میں کسی بد نظمی کے امکان سے بھی بچنا ضروری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں