یوم مئی‘نئی دنیا کا نقطہ آغاز

تحریر:صباح الدین صباء
آج مئی کا پہلا دن ہے گزشتہ سال تک پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ دن انتہائی جوش وخروش سے منایاجاتارہا اور مختلف تقریبات میں شکاگو کے مزدور شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ محنت کش عوام کی زندگی میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ استحصال سے پاک معاشرے کے قیام کی جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے لیکن آج دنیا ایک بالکل بھی نئے ماحول میں یہ دن منارہی ہے کرونا وائرس کی وجہ سے تقریباً ساری دنیا لاکھ ڈاؤن میں ہے کرونا انسان کیلئے ایک چیلنج ہے اور انسانی تاریخ کے سفر کو دیکھتے ہوئے کہاجاسکتاہے کہ انسان اس چیلنج سے نمٹنے میں کامیاب ہوجائے گا لیکن اس چیلنج نے نئی حقیقتوں کو واکیا ہے اوریقینا نسل انسا نی کی تاریخ کو نئے اور بہتر انداز میں آگے بڑھ جانے کیئے نئے مواقع بھی پیدا ہوئے ہیں شکاگو کے شہداء کی یادمناتے ہوئے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام صورتحال کا تجزیہ کیا جائے اور زیادہ توانا اور روشن مستقبل کے حصول کیلئے توانا اور صحت مند فکر کے ساتھ نئے سفر کاآغاز کیاجائے۔آج ہم ایک ایسے ملک میں یوم مئی منارہے ہیں جب دنیا تباہ کن کرونا وائرس کا سامنا کررہی ہے کرونا وائرس کے اصل شکار کمزورطبقات کے لوگ ہی ہیں کیوں پہلے ہی خوراک کی کمی غیر صحت مند ماحول اور غربت کا شکار ہونے کے باعث وہ اس وائرس کے نوالہ تر ثابت ہوتے ہیں جو اس وائرس کے براہ راست حملے سے بچے ہوئے بھی ہوں وہ اس نتیجہ میں ہونے والے لاک ڈاؤن معاشی سرگرمیوں کے خاتمے کے باعث غربت بھوک اور ننگ کے ایک نئے سلسلے کاشکار ہوجاتے ہیں انسان کا تجربہ بتاتا ہے کہ ماضی کی وباؤں کی طرح یہ وباء بھی دنیا میں تقریباً تمام شعبوں میں تبدیلی کا باعث بنے گی اور اکیسویں صدی کے آغاز سے بدلتی ہوئی دنیا میں تبدیلی کا عمل صرف تیز ہوجائے گا بلکہ عین ممکن ہے کہ یہ وقت فیصلہ کن ثابت ہو انسانی معاشرے کی تبدیلی سے پیدواری قوتوں کا گہرا تعلق ہے اور محنت کش طبقے اور اس کی سیاست کرنے والوں کو کرونا وائرس سے ہونے والے نقصانات کے ساتھ ساتھ وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں سے نہ صرف مکمل آگاہی حاصل کرنی ہوگی بلکہ اس عمل پر خود کو جولانے کی تدابیر کرنی ہونگی۔ آج دنیا کو کروناوائرس کی ہلاکت خیز وباء کا سامنا ہے تقریباً دو لاکھ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ 30لاکھ کے قریب افراد اس سے متاثر ہوچکے ہیں اس وباء کے نتیجہ میں عالمی معیشت کا پہیہ رک گیا ہے اور اس کے اثرات پڑ رہے ہیں دنیا بھر کے سماجی واقتصادی ماہرین کااس بات پر اتفاق نظرآتا ہے کہ مابعد کرونا کی دنیا قطعی مختلف ہوگی۔درحقیقت سوویت یونین کے انہدام کے بعد ظہورمیں آنے والے یک قطبی دنیا استحکام حاصل ہی نہیں کرسکی اور عالمی سطح پر نظام اور اس سرخیل امریکہ کے تمام دعوے بہت جلد پیدا ہوئے 2008ء میں جرمنی سے شروع ہونے والا بحران بڑھ تاچلاگیا اور اس نے پورے سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادیں ہلادی خود ترقی یافتہ ملکوں کے ماہرین اس نظام کے مستقبل کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوگئے امریکی ماہر اقتصادیات نے عالم نظام سے متعلق اپنے تحقیقی مقالے میں اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ عالمی سرمایادارانہ نظام ڈھانچہ جاتی (بحران حل بحران)کاشکار ہے اور اسے بچانا اب ممکن نہیں رہا۔یہ پہلے سے موجود عدم مساوات کی صورتحال کو بڑھادیتا ہے یہ طبی، معاشی سماجی اور نصابی اعتبار سے کمزور طبقات کو زیادہ متاثر کرتا ہے حقیقت یہ ہے کہ کرونا سے نمٹنے کیلئے لاک ڈاؤن کے نتیجے میں صرف امریکہ اور برطانیہ میں کروڑ افراد بے روزگار ہوچکے ہیں جبکہ یہ بے روزگاری روز بروزبڑھتی جارہی ہے عالمی ریڈکراس نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ اوریورپی شہروں میں کسی بھی وقت فسادا ت ابھرسکتے ہیں اسپین فرانس برطانیہ اور امریکہ کے شہروں میں محنت کشوں اوراکثریتی عوام کی جانب سے سڑکوں پرمظاہرے اور انہیں جگہوں پر فساد کی کیفیت نظر آنا شروع ہوگئی ہے فرانس کے دارالحکومت پیرس کے مضافاتی علاقوں میں کئی روز تک پولیس اور مقامی غریب آبادیوں کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔
پاکستان میں کرونا سے پہلے بھی عوام کی معاشی حالت ناگفتہ بہ تھی کرونا کے بہانے لاک ڈاؤن کے نتیجے میں صنعت کاروں کے حکومت سے نئی مراعات ٹیکسوں میں چھوٹ حاصل کرنے کے باوجود مزدوروں کوبرطرف کرنا شروع کردیا ہے ہرصنعتی یونٹ میں روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں محنت کشوں کوفارغ کیاجارہاہے اشیاء صرف کی قیمتوں میں کئی گنااضافہ کرکے منافع کوزیادہ سے زیادہ بڑھا یاجارہاہے یہ رجحان عالمگیر ہے اور صرف امریکہ میں بقول برنئی سینڈرز امریکی ارب پتیوں نے دوماہ کی کم مدت میں 2کھرب 82ارب ڈالر اپنی دولت میں اضافہ کیا ہے جبکہ اس مدت میں 22ملین سے زیادہ افراد بے روزگار ہوگئے ہیں۔
امریکی محکمہ داخلہ پینٹاگون کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ کی سربراہی میں قائم عالمی نظام ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہے اور بطور سپر طاقت امریکہ کو حاصل برتری ختم ہورہی ہے یوکرائن اور شام میں ہونے والے واقعات نے واضح کردیا کہ طاقت کا توازن تبدیل ہورہاہے اور یمن کی جنگ تک پہنچتے پہنچتے عالمی سطح پر نئی صف بندی واضح ہونا شروع ہوگئی اسی تناظر میں چین کے شہروں سے کرونا کاآغاز ہوا۔ جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کواپنی لپیٹ میں لے لیا چین اور روس کی طرف سے شروع سے ہی امریکہ کی بائیولوجیکل جنگ کا حصہ قرار دیاگیا ہے اب امریکی صدر نے چینی وائرس قرار دے کر جوالزام لگانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن خود مغرب میں کوئی موثر آواز ان کے حق میں سنائی نہیں دیتی کرونا جانی نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت پر بری طرح اثرانداز ہورہاہے حکمران اشرافیہ کے زیر اثرذرائع ابلاغ سے اکثر یہ مفروضہ پھیلانے کی کوشش کی ہے کہ کرونا طبقاتی فرق نہیں دیکھتا یہ سب کو یکساں متاثرکررہاہے یہ انتہائی غلط اور گمراہ کن پروپیگنڈا ہے حقیقت یہ ہے کہ کرونا سب سے زیادہ متاثر کمزور طبقات کو ہی کرتا ہے ایک غریب عام آدمی خاص طور سے محنت کش طبقے کے افراد معاشی بدحالی اور غیر صحت مندانہ ماحول میں زندگی گزارنے کے باعث وائرس کیلئے نوالہ تر ثابت ہوتے ہیں دوسری جانب جو افراد براہ راست کرونا کاشکار ہونے سے بچ جاتے ہیں وہ بے روزگاری غرب اور بھوک کے زیادہ مہلک وائرس کاشکار ہوجاتے ہیں۔
اٹلی کے ایک اخبار نے لکھا کہ حکومت کی سفاکی اور نااہلی کروڑوں لوگوں کے سامنے بے نقاب ہوچکی ہے اور سرمایہ دارانہ نظام عوام کی صحت کا تحفظ کرنے میں ناکام ہوگیا ہے امریکہ جیسے ملک میں ہیلتھ ورکرز کو سیفٹی کٹس مہیانہیں کی جارہی ہے خود صدر ٹرمپ کہتے ہیں کہ ماسک کی کمی ہے لہٰذا لوگ اسکارف باندھیں امریکی اخبارات لکھ رہے ہیں کہ امریکی عوام اور سرمایہ داراوں کو ایک جیسی سہولتیں حاصل نہیں ہیں امیر لوگ وباء سے بچنے کیلئے صحت افزامقامات پر زندگی گزار ہے ہیں غریب آدمی لاک ڈاؤن کے باعث غربت اور فاقے کاشکار ہورہاہے امریکہ میں ملازمتیں کرنے والوں میں کم از کم نصف کے بے روزگار ہوجانے کا خطرہ ہے۔پاکستان میں لاک ڈاؤن کے نتیجے میں بے روزگاری،غربت اور بھوک کا غیر معمولی سیلاب آرہا ہے اور طبقہ اشرفیہ سے تعلق رکھنے والے خاندانوں نے ریت میں منہ چھپا رکھا ہے اس صورتحال کے پیش نظر محنت کش طبقے اور اس کے حقیقی نمائندوں کو مستقبل کی تعمیر اور خاص طور سے محنت کش طبقے کے تاریخی کردار پر سنجیدگی سے غورکرنا ہوگا اس بار لاک ڈاؤن کی وجہ سے یوم مئی کی تقریبات کا انعقاد ممکن نہیں لہٰذا محنت کش تحریک کے حقیقی آغاز کیلئے سرجوڑ کر بیٹھنے اور آج کے بین الاقوامی علاقائی امور مقامی زمینی حقائق کے مطابق حکمت عملی مرتب کر کے ہی ہم یوم مئی کے تقاضے پورے کرسکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں