مزدور ڈے اور معاشی جغرافیہ کی تبدیلی

تحریر:عبدالسلام بلوچ
یکم مئی 1886 ء کی اس جنگ شکاگو کے گلی کوچوں میں لڑی گئی۔ جنگوں کی تاریخ میں مختصر ترین جنگ تھی۔ کیونکہ یہ گناہگار منصفوں اور بے گناہ مجرموں کے درمیان لڑی گئی تھی۔ یہ جھوٹ اور صداقت کے درمیان جنگ تھی یہ جنگ کسی کھوکھلے اور اتفاقی جذبے کے تحت نہیں لڑی گئی۔ بلکہ پوری شعور اور پختگی کے ساتھ مٹھی بھر لٹیروں کے خلاف لڑی گئی تھی۔یہ جنگ نہ انفرادی تھی۔اور نہ گروہی بنیادوں پر تھی۔بلکہ یہ خالصتاً طبقاتی بنیادوں پر تھی۔ یکم مئی کو دنیا کے محنت کش اس انسانی المیے کو یاد کرنے کیلئے یوم مئی مناتے ہیں۔اور اس اقدام سے ساری دنیا کے محنت کشوں کی یکجہتی و جدوجہد کو تقویت پہنچائیں گے۔بلکہ سرمایہ دار سامراجی قوتوں کو یہ واضح پیغام ہے کہ محنت کش اپنی پوری قوت اور توانائی کے ساتھ استحصال کے خلاف آج بھی یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ تمام دنیا میں سرمایہ دار طبقہ اپنی تمام تر خواہشات کے باوجود یوم مئی کے اہمیت کو کم کرسکا اور نہ اس کو روک پایا ہے۔ سرمایہ داری کے نظریہ دانوں نے اس قابل تردید حقیقت کو ہمیشہ جھٹلانے کی کوشش کی کہ سرما دارنہ معاشرے میں بنیادی تضاد استحصال کنندگان اور استحصال زدگان کے درمیان ہے وہ تاریخ میں محنت کش طبقے کے مقام اور کردار ہی سے منکر نہیں ہے بلکہ وہ اس بات سے بھی انکاری ہے کہ انسان معاشرے کے ترقی و ترویج میں طبقاتی کشمکش فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں ان کا ہمیشہ مطمع نظر رہا ہے کہ محنت کش میں انتشار پیدا کیا جائے۔ تاکہ انقلاب کے راستے میں رکاوٹیں پیداء کیا جائے اورسرمایہ دارانہ استحصال کو جاری و ساری رہنے کا موقع مل سکے۔کیونکہ اصل مسئلہ تو پیداواری وسائل کا ہے جب تک یہ وسائل سرمایہ داروں کے قبضے میں رہے گے محنت کشوں کا استحصال ہوتا رہے گا۔ان کی محنت کی کمائی طفیلی صنعت کار سمیٹتے رہے گے۔ اس کی زندگی کا وجودبھی سرمایہ داری کے ہاتھوں اپنی قوت محنت فروخت کرنے پر منحصر ہوتاہے۔اس کی محنت کے تمام ثمرات اس کے لئے بیگانہ ہوتے ہیں اور جو اس کی مادی اور غلامی کا وسیلہ بنتے ہیں ا س کا مطلب یہ ہوا کہ مزدور طبقے کے تمام حاصلات عارضی ہوتی ہیں۔ سرمایہ داری میں روز افزوں شدت اور بیروزگاری جیسے لامتناہی مسائل مزدوروں کے سرپر منڈلاتے رہتے ہیں ان حالات میں مزدوروں اور سرمایہ داروں کے درمیان کسی سیاسی یا معاشی مساوات کا سوال ہی کہا پیداء ہوتاہے جب کہ ایک طبقے کے آمدنی کی شکل مکمل منافع اور دوسرے طبقے کے محض اجرت ہے۔ کیا اامیر اور غریب کے درمیان کسی قسم کے مساوات ہوسکتی ہیں۔مزدور طبقے کے دگرگوں حالت میں آج اگرچہ اچھی خاصی تبدیلیاں واقع ہوئی بھی ہیں تب بھی ان سے سرمایہ داری کے بنیادی قوانین مسترد نہیں ہوئیں اور نہ ہی انقلاب کی ضرورت ختم ہوئی ہے۔ کارل مارکس نے اپنی تحریر سرمائے میں یہ ثابت کیا ہے کہ ان تبدیلیوں نے جدوجہد کے حالات ضرور بدلے ہیں لیکن خود جدوجہد کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہی بات کمیونسٹ مینو فیسٹو میں اس طرح سے بیان کی گئی ہیں جدید سرمایہ دار سماج نے جوکہ جاگیردار سماج کی کھوک سے پیداء ہوا ہے۔ طبقاتی اختلافات کو ختم نہیں کیا۔اس نے تو محض پرانے کی جگہ نئے طبقے ظلم کی نئی صورتیں اور جدوجہد کے نئے شکلیں پیداء کردیں ہیں۔ سماج بحیثیت مجموعی دن بہ دن دو بڑے مخالف مورچوں میں دو بڑے طبقوں سرمایہ دار اور محنت کش میں تقسیم ہوتا جارہاہے۔جو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں۔دراصل سرمایہ داری نظام کی بنیاد کسی اخلاقیات کے بجائے منافع اور مقابلے پر ہے جس کی بناء پر دولت چند ہاتھوں میں محدود ہوکے رہ جاتی ہیں جب کہ دنیا کی آدھی آبادی کے غریب عوام کے پاس ان کے کے مقابلے میں صرف ایک فیصد دولت ہے۔اور وہ بھی متواتر کم ہورہے ہیں یہ سرمایہ داری نظام کا کرشمہ ہے کہ آج دنیا کے صرف چند ہزار افراد دنیا کے اربوں لوگوں کی زندگی کے مسائل اور مشکلات کے ذمہ دار ہے۔آج دنیا تیزی سے بدل رہا ہے سامراجی قوتوں نے موجودہ حالات میں عالمگیریت کا نعرہ لگاکر پوری دنیا میں اپنے مفادات کے لئے آسانیاں پیداء کررہے ہیں امر یکہ سمیت جاپان جرمنی فرانس برطانیہ اور ہالینڈمیں محنت کش تنظیمیں اپنے ساکھ کھوتی جارہی ہے۔ اور بڑے بڑے ادارے ان پر حاوی ہورہے ہیں۔یوم مئی منانے والوں کے سامنے اب ایک نئی دنیا کا منظر ہے۔ ترقی یافتہ سرمایہ دار ملکوں میں تو ان کی اجرتیں کم کی جارہی ہیں اور ان کی جگہ پسماندہ نیم ترقی پزید ایشیائی و افریقی ملکوں کے مزدوروں کو ترجیح دی جارہی ہیں۔ کیونکہ امریکی اور یورپی ملکوں کے مزدوروں سے کہیں کم اجرت پر ذیادہ کام کرتے ہیں۔ عالمی ادارہ محنت نے بے روزگاروں کی تعدادایک ارب سے بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ ادارے کا یہ کہنا ہے کہ عالمی سطح پر کفایت شعاری، مختلف کاروباری اداروں کی آپسی ادغام، ملٹی نیشنل کمپنیوں کی چیرہ دستیوں اور پسماندہ دنیا میں مالیاتی بحران کے شکار ملکوں سے ناانصافی اور اقتصادی پابندیوں کا شاخسانہ ہے کہ ایک طرف غربت کساد بازاری اور اقتصادی بحران سے عالمی معیشت کا شیرازہ بکھرنے کا خطرہ ہے تو دوسری طرف یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔ کہ دنیا میں اتنی ڈھیر ساری دولت اور سائل ہونے کی باوجود غربت کیوں بڑھ رہی ہے! اس سوال کا جواب بلاشبہ رہے گا عالمی معاشی ٹھیکیداروں کو دینا چاہیئے جنہوں نے عالمی اقتصادی نظام کو اپنے مفادات کے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے اس لئے دنیا کا معاشی جغرافیہ بدلنا ضروری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں