حکمران اشرافیہ کا مفہوم؟

راحت ملک
قیام ٍ پاکستان کے ابتدائی عرصہ میں ہی حکمران اشرافیہ برسراقتدار آگئی تھی مسلم لیگ مقبول سیاسی جماعت تھی لیکن اسکی مضبوط سیاسی تنظیم ڈھانچہ اور وسیع البنیاد عوامی شعوری حمایت ملک کے مرکزی مقتدر حصے میں نسبتا کمزور تھی۔ مشرقی بنگال جو بعدازاں مشرقی پاکستان کہلایا مسلم لیگ کا مضبوط عوامی گڑھ تھا مغربی پاکستان سمیت شمالی ہندوستان یوپی سی پی کے علاقے میں مسلم لیگ کو سرکاری ملازمین پر مشتمل پڑھے لکھے طبقے کے ساتھ ان علاقوں کے سابقہ جاگیردار خاندانوں یا ان کی باقیات کے بااثر سماجی دھڑے کی حمایت حاصل تھی مغربی پاکستان میں مسلم لیگ عوامی حلقوں میں اتنی پذیرائی میسر نہیں تھی بلکہ سیاسی معاشی سماجی اشراف کے وابستگان 1945 کے بعد لیگ کی طرف مائل ہونے تھے۔
1970 تک پاکستانی سیاسی صحافتی حلقوں میں اسٹیبلشمنٹ کی اصطلاح بہت محدود معنوں کا اظہار کرتی تھی جس کے عقب میں خطے میں راسخ سماجی درجہ بندی کا نظام اور اسکے تصورات چھلکتے تھے۔ بعد ازاں مسلسل فوجی آمریت نے اس اصطلاح کو جدید مفہوم عطا کر دیا۔
اردو انسائیکلو پیڈیا۔ مطبوعہ نئی دہلی کے مطابق
” ارسطو استقراطیہ یا اشرافیہ (Aristocracy) کو مکمل حکومت کے معنوں میں استعمال کرتا ہے۔جبکہ انگریز مفکر ایڈمبڈبرک قیادت کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے اسے ایک سماجی طبقہ (موروثی اشرافیہ) Herelitary Aristocracy کے دائرے میں منضبط کرتا ہے۔ آجکل اشرافی حکومت کا تجزیہ مخصوص قیادت۔ (Specialised leadership) کے تحت کیا جاتا ہے یعنی جاگیردار طبقہ یا چند مخصوص خان موروثی حق ٍ دولت یا ایک خاص طرز ٍ زندگی رکھنے کی بنا پر سماج کیاہم فرائض کی انجام دہی کے اجارہ دار ہوجاتے ہیں۔اور سیاسی اقتدار میں بھی ان کا معتدبی حصہ ہوتا ہے ” ص 352
موجودہ ملکی سلامتی منظرنامہ کا المیہ ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ کی اصطلاح کے معنی و مفہوم آرمی کی ساسی طاقت تک محدود ہو کر رہ گیے ہیں۔
صنعتکار جاگیردار تجار و سرمایہ کار۔ سماجت معاشی طاقت رکھتے ہیں لیکن بلاواسطہ وہ تاحال سیاسی طاقت نہیں بن پائے ریاستی طاقت کے حاشیے میں ذیلی کردار مراعات کے تحفظ و حصول کا ذریعہ بن کر رہ گئے ہیں چنانچہ ملکی اقتصادیات متوسط طبقے کو پروان چڑھانے اسے مستحکم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ جو جمہوریت کے لیے بالخصوص آئینی جمہوریت کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔
اشرافیہ کے کردار طاقت اور بالادستی کی رائج بحث کا مافیا جناب عمران جان وزیراعظم پاکستان کے گزشتہ روز بیان سے یکسر بدل گیا ہے۔ کرونا وباء کے سدباب کے لیے وہ روز اول سے ہی رجعتی انداز فکر کے ساتھ جڑے رہے ہیں دنیا ے اس وباء سے بچنے کے لیے سماجی فاصلے کی حکمت عملی اپنائی ہے جہاں جہاں اس میں کوتاہی ہوئی وہاں کرونا کے نقصانات و اموات زیادہ ہوئی ہیں مالی معاشی تباہی و گراوٹ اس پر مستزاد ہے۔
جناب وزیراعظم نے اپنے موقف کی مدبرانہ وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ
حکمران اشرافیہ نے جلد بازی میں لاک ڈاؤن نافذ کرایا ہے "
اس مخولیہ بیان سے نئی بحث شروع ہوگئی ہے
کیا حکمران اشرافیہ جس کی تجسیم اب بھی مبہم ہے اتنی ماورائی طاقت کی مالک ہے کہ وہ وزیراعظم کے نقطہ نظر کے برخلاف فیصلہ کرتی اور نافذ کر دیتی ہے جس پر وزیراعظم بے بسی پر عمل پیرا ہوجاتا ہے۔
کیا وزیراعظم اور کابینہ حکمران اشرافیہ کا حصہ نہیں ہوتی۔یا یہ کہ اب وہ اس کا لازمی موثر حصہ نہیں رہی۔؟؟؟
اگر یہ مان لیا جائے کہ وزیراعظم کی بات کا واضح خیال یہ تھا کہ وہ اور ان کی کابینہ فیصلہ سازی کے عمل سے خارج ہو چکی ہے تو انہیں یہ بھی بتانا چاہیے کہ اس وقت ملک پر کس نوعیت کی اشرافیہ حکمران ہے۔ سماجی معاشی اشراف یا ریاست کا کوئی طاقت ور ادارہ؟؟؟

اپنا تبصرہ بھیجیں