انپڑھ سندھی اور گورنر سندھ

جیئند ساجدی
بعض لوگ ناخواندگی کو جاہلیت کا مترادف لفظ سمجھتے ہیں حالانکہ جاہل اور انپڑھ میں بہت فرق ہوتا ہے ضروری نہیں کہ ہر انپڑھ انسان جاہل ہو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر پڑھا لکھا انسان جاہل نہ ہو انپڑھ ہونا کوئی بری بات نہیں ہوتی ہاں جاہل ہونا ضرور بری بات ہے۔تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دنیا کو سب سے زیادہ نقصان انپڑھوں نے نہیں بلکہ جاہلوں نے پہنچایا ہے۔ تمام فاشسٹ، آمر اور نسل پرست رہنماء جیسے کہ ہٹلر، منرولینی، ونسٹن چرچل وغیرہ جن کی وجہ سے دوسری عالمی جنگ ہوئی یہ سب کے سب رہنماء پڑھے لکھے جاہل تھے۔ ہندوستان کی تاریخ میں سب سے کامیاب بادشاہ اکبر ہیں جنہوں نے موجودہ چار ریاستوں افغانستان، پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش پر حکومت کی تھی وہ بھی انپڑھ تھے لیکن ان کی سوچ و فکر نے ان کو وہ دور اندیشی دی کہ اگر وہ اپنی کثیر المذہبی سلطنت میں اپنی رعایا پر مذہب کی بناء پر تفریق کریں گے تو یہ ان کی سلطنت کی فلاح و بہبود اور امن و امان کیلئے خطرناک ثابت ہوگا۔ اسی لئے انہوں نے اپنے دور حکومت میں ہندوستان میں مذہبی ہم آہنگی کوفروغ دیا اور بالکل اسی دور میں متعدد یورپی حاکم مذہب اور فرقے کے نام پر اپنی رعایا اور دوسری سلطنت کے شہریوں کا قتل عام کر رہے تھے حال ہی میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سندھ کے گورنر نے یہ بیان دیا تھا کہ انہیں کورونا وائرس انپڑھ سندھیوں کی وجہ سے لگا ہے اس بات کی پیپلز پارٹی کے دو سندھی رہنماؤں مولا بخش چانڈیو اور نثار کھوڑو نے مذمت کی۔مو لا بخش چانڈیو کے مطابق گورنر سندھ نے اپنے متعصبانہ بیان سے اپنی جاہلیت کو ظاہر کیا ہے اور ایسے جاہل شخص کو گورنر جیسے اہم منصب پر رہنا نہیں چاہئے بعض لوگ عمران اسماعیل کے معتصبانہ بیان کوایک لسانی جماعت ایم کیو ایم کے مائنڈ سیٹ کے ساتھ منسلک کر رہے ہیں جس نے متعدد بار کھلے الفاظ میں سندھ کو لسانی بنیادوں (سندھ اور اردو) پر تقسیم کرنے کی بات کی ہے۔عمران اسماعیل خود بھی اردو بولنے والی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور کچھ عرصہ قبل گورنر کے عہدے پر رہتے ہوئے بھی سندھ کو تقسیم کرنے کا بیان دے چکے ہیں۔جو لوگ سندھ کی پارٹیشن کے بعد کی تاریخ سے واقف ہیں ان کے لئے عمران اسماعیل کا سندھیوں کے متعلق تعصبانہ اور حقارت والے بیان میں کوئی تعجب کی بات نہیں۔ سندھ میں سندھی مہاجر تعصب کی جڑیں بہت گہری اور پرانی ہیں۔
پارٹیشن(1947) کے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں اترپردیش، مدھا پردیش، بہار، حیدر آباد دکن وغیرہ سے بڑی تعداد میں اردو بولنے والے سندھ کے شہری علاقوں کراچی، حیدر آباد، میرپور خاص اور سکھر میں آباد ہوئے۔ عام طور پر آبادکار یا مہاجرین دو قسم کے ہوتے ہیں ایک آباد کار جس سرزمین پر آباد ہوتے ہیں وہ اس سر زمین کی ثقافت میں خود کو ڈھال لیتے ہیں اور خود کو اس سرزمین پر آباد قوم کا حصہ سمجھتے ہیں اس کی مثال سندھ میں آباد ہوئے بلوچوں کی ہے جو اب سندھی اور سرائیکی بولتے ہیں اور خود کو سندھی تصور کرتے ہیں۔ دوسرے آبادکار نو آبادیاتی کا مائنڈ سیٹ رکھتے ہیں وہ جس سرزمین پر آباد ہوتے ہیں وہاں کی مقامی آبادی کی ثقافت اور زبان سے حقارت کرتے ہیں اور اپنی زبان اور ثقافت کو مقامی آبادی کی زبان و ثقافت سے اعلیٰ سمجھتے ہیں۔ یہ خود کو مقامی ثفافت میں ڈھالنے کی بجائے مقامی ثقافت اور زبان کی نسل کشی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی ثقافت اور زبان مقامی لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس کی مثال یورپی سلطنتوں کی ہے وہ جہاں بھی گئے ہیں اس سرزمین کی مقامی ثقافت کی نسل کشی کرکے اپنی ثقافت رائج کرنے کی کوشش کی ہے سندھ میں آباد ہوئے اردو بولنے والوں کا مائنڈ سیٹ یورپی طرز کے آبادکاروں سے زیادہ ملتا ہے۔ ان میں بیشتر لوگوں نے بالخصوص کراچی اور حیدر آباد میں آباد ہونے والوں نے ہمیشہ خود کو ثقافتی حوالے سے سندھیوں سے اعلیٰ سمجھا ہے اور 73 سال گزر جانے کے باوجود وہ سندھی ثقافت اور قوم کا حصہ نہیں بنے بلکہ خود کو مہاجر کہلوانا پسند کیا ہے۔ ان کی آبادکاری کے وقت سندھ کا ڈیمو گرافک کافی حد تک تبدیل ہوا اس وقت ہندو سندھی جو نسلاً سندھی تھے اور سندھ کے حقیقی سپوت بھی تھے انہوں نے مذہبی تعصب کی وجہ سے سندھ کو ہمیشہ کیلئے خیرباد کہہ دیا اور ہندوستان ہجرت کر گئے۔ لہذا اردو بولنے والوں کی آمد سے اور سندھی ہندوؤں کی ہجرت سے سندھ میں آبادی کا تناسب بڑی حد تک متاثر ہوا ہندو سندھیوں کی خالی کی ہوئی جائیدادوں کو مرکزی حکومت نے مقامی اور غریب سندھیوں کی بجائے مہاجرین کو عطا ء کر دیا شاہد کردار اپنی کتاب ” Polarization in the Region”
میں لکھتے ہیں کہ ”نئی پاکستانی مرکزی سرکارنے سندھ کی 20لاکھ ایکڑ زمین مہاجروں کو الاٹ کیا تھا جس پر سندھی اسمبلی نے سخت اعتراض کیا تھا اور یہ مطالبہ کیا تھا کہ اس زمین میں سندھیوں کو بھی حصہ دیا جائے لیکن ان کا مطالبہ پورا نہیں ہوا“ لہذا اس ناانصافی نے سندھی مہاجر نفرت کی بنیاد قائم کی۔ اس کے علاوہ سندھیوں کو مزید ناانصافیوں کا سامنا کرنا پڑا پارٹیشن سے قبل سندھ کے سرکاری سکولوں کی زبان سندھی تھی لیکن مہاجرین کی آمد کے بعد اردو کو سندھ کی سرکاری سکولوں کی زبان قرار دیا گیا۔سرکاری نوکریوں میں بھی زیادہ تعلیم کی وجہ سے مرکزی حکومت نے سندھیوں کی بجائے مہاجروں کو ترجیح دی۔ سابق صدر مشرف جن کا خاندان ہندوستان کے شہر بوپال سے آیا تھا ان کی والدہ کو پاکستان آتے ساتھ ہی ترکی میں پاکستان کے سفارتخانہ میں اہم عہدہ ملا اور مشرف نے اپنے لڑکپن کا اچھا خاصہ حصہ استنبول میں گزارا تھا۔ سندھیوں کے ساتھ ایک اور بڑی ناانصافی یہ ہوئی کہ پارٹیشن کے بعد ان کی پہلی منتخب حکومت کو بھی مرکزی سرکار نے برطرف کر دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان جو خود بھی مہاجر تھے انہوں نے پارٹیشن کے ایک سال بعد سندھ کے دارالحکومت کراچی میں پھر سے نو لاکھ ہندوستانی مہاجر آباد کرنے کا فیصلہ کیا تھاجس پر سندھ کے وزیراعلیٰ ایوب کھوڑو نے اعتراض کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایوب کھوڑو کی حکومت کو ختم کر دیا گیااورپیر الٰہی بخش کو بنا کسی الیکشن کے سندھ کا وزیراعلیٰ نامزد کر دیا گیاتھااور ان کی حیثیت ایک کٹھ پتلی وزیراعلیٰ کی تھی۔ اسی وقت کراچی کو بھی سندھ سے علیحدہ کیا گیا اور وفاقی زمین قرار دے دیا گیا اس سے قبل کراچی پاکستان اور صوبہ سندھ کا مشترکہ دارالحکومت تھا معروف سندھی قوم پرست رہنماء جی ایم سید اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ ”جب ایک مہاجر لیاقت علی خان ملک کے وزیراعظم بنے تو انہوں نے ہندو سندھیوں کیلئے زمین تنگ کر دی تھی اور ایسے حالات پیدا کئے جس کی وجہ سے قوم پرست ہندو سندھی جو اپنی سرزمین چھوڑ کر جانا نہیں چاہتے تھے ان کو ہندوستان جانا پڑا اور لیاقت علی خان نے اپنا ووٹ بینک بڑھانے کیلئے مزید مہاجروں کو ہندوستان سے لا کر کراچی میں آباد کیا اور ہندو سندھیوں کی جائیدادیں بھی ان میں بانٹ دیں“
اپنا بدترین استحصال دیکھ کر سندھی قوم پرستوں کو احساس ہو گیا تھا کہ متحدہ ہندوستان میں ان کا ہندو استحصال کرتے یا نہیں لیکن پاکستان میں پنجابی مہاجر لابی ان کا استحصال کر رہی ہے۔اس پر سندھی رہنماؤں نے آواز بلند کی تو ان کو گرفتار کر کے جیل میں ڈالا گیا۔ 1947ء سے لے کر 1971ء تک مہاجروں کی سیاسی، سماجی اور معاشی پوزیشن سندھیوں کی نسبت کافی مضبوط تھی۔ بیورو کریسی میں ان کی بڑی تعداد تھی مقامی زبانوں کو نظر کر کے جب ان کی زبان اردو کو قومی زبان کا درجہ ملا توان کی سماجی پوزیشن اور بہتر ہوئی۔انہوں نے خود کو سیاسی طور پر مضبوط کرنے کیلئے مقتدرہ کے لاڈلے جماعتوں یعنی دو مذہبی جماعتوں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام میں شمولیت اختیار کی۔ ان جماعتوں کا شمار اس وقت ملک کی طاقتور ترین جماعتوں میں ہوتا تھا۔ اس وقت انہوں نے ایم کیو ایم کے طرز کی کوئی لسانی جماعت نہیں بنائی ان کے اکثریتی شہر کراچی کو بھی درالحکومت کا درجہ مل چکا تھا جس نے ان کی سیاسی و معاشی طاقت میں مزید اضافہ کیا۔ 1972ء میں جب ایک سندھی ذوالفقار بھٹو ملک کے وزیراعظم بنے تو انہوں نے سندھی کو سندھ کی سرکاری زبان قرار دے دیا اس عمل کے فوراً بعد سندھ میں لسانی فسادات شروع ہو گئے تھے جامعہ کراچی میں مہاجر طلباء نے سندھی میں تحریر کی گئی کتابوں کو جلا دیا تھا اور جلسے جلوس بھی نکالے گئے تھے ان جلوسوں کا نعرہ یہ تھا کہ ”اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے“ ذوالفقار بھٹو کے پتلے بھی جلائے گئے ذوالفقار بھٹو نے مہاجروں سے مفاہمت کیلئے بہت سے اقدامات کئے انہوں نے سندھی اور اردو کو سندھ کی سرکاری زبان قرار دے دیاتھا حالانکہ اردو کو پہلے ہی ملک کا قومی زبان کا درجہ مل چکا تھا انہوں نے سندھی گورنر میر رسول بخش خان کو منصب سے ہٹا کر ایک مہاجر بیگم لیاقت علی خان کو سندھ کا گورنر بنادیا۔ بھٹو نے بنگال میں پھنسے لاکھوں اردو بولنے والے بہاریوں کو سندھ لا کر آباد کر دیا جس سے سندھ کی ڈیمو گرافک میں پھر سے فرق آیا۔
جنرل ضیاء نے جب PNA جس میں اکثریت مذہبی جماعتوں کی تھی اس کا استعمال کر کے بھٹو کی حکومت کو برطرف کیا اس وقت بھی مہاجر رہنماء بڑی تعداد میں مذہبی جماعتوں سے منسلک تھے۔ جب جنرل ضیاء اقتدار میں آئے تو انہوں نے مذہبی جماعتوں اور مذہبی رہنماؤں کو تو بڑے بڑے عہدے دیئے لیکن مذہبی جماعتوں میں شامل مہاجر رہنماؤں کو اس وقت نظر انداز کیا گیا۔ اس وقت مہاجر رہنماؤں کو احساس ہوا کہ مذہبی جماعتوں نے ان کا استحصال کیا ہے تو انہوں نے اس کے رد عمل میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن (1978) میں قائم کیا جس نے بعد میں مہاجروں کی پہلی لسانی جماعت ایم کیو ایم کو جنم دیا۔یہ جماعت متعصب اور نسل پرست جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ 1990ء میں بڑی تعداد سے خیبرپختونخوا سے روزگار کے غرض سے پشتون کراچی میں آباد ہوئے تو ایم کیو ایم کو کراچی میں آباد پشتونوں سے سیاسی اور معاشی خطرہ محسوس ہونے لگا اور 1990ء میں ان کی ٹارگٹ کلنگ شروع ہوئی کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک پشتون رہنماء نے اس حوالہ سے کہا تھا کہ”پشتون کراچی میں موچی، ہوٹلوں کے بہرے اور ڈرائیونگ کا کام کرتے ہیں اگر ہمارے مہاجر بھائیوں کو ان نوکریوں میں کوٹہ چاہئے تو ہم انہیں دینے کیلئے تیار ہیں“ پارٹی (ایم کیو ایم) کا عروج پرویز مشرف کے دور میں آیا تھا جن کے اوپر صدر اور آرمی چیف بنے سے پہلے یہ الزامات تھے کہ ان کے ایم کیو ایم کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں جو ان کے دور اقتدار(1999-2008)کے وقت درست ثابت ہوئے۔ عمران اسماعیل کے حالیہ بیان سے یہی لگتا ہے کہ شائد مشرف کی طرح ان کے بھی ایم کیو ایم سے نظریاتی تعلقات ہیں اوریہ نظریاتی تعلقات اتنے گہرے ہیں کہ سندھ میں 73 سال گزرنے کے بعد اور سندھ کا گورنر بننے کے باوجود بھی وہ خود کو سندھی نہیں سمجھتے بلکہ اپنے بیان سے یہ ثابت کر دیا کہ ان کا تعلق اس آبادکار طبقے سے ہے جو ہمیشہ اس سرزمین جہاں وہ آباد ہوئے ہیں وہاں کے مقامی افراد اور ان کی ثقافت سے حقارت کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں