نفرت میں اضافہ

انور ساجدی

پاکستانی سیاست میں نفرت کاعنصر بڑھتا جارہا ہے کرونا کے دنوں میں مرکزی حکومت کے نمائندوں اور سندھ کے وزراء کا طرز تکلم دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ شائستگی سماجی اقدار اور تہذیب جس بلا کا نام ہے وہ رخصت ہوچکی ہے ایسا لگتا ہے کہ فریقین ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں اگرایک صوبائی حکومت کسی مرکزی حکومت کو تسلیم نہ کرے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اگروفاقی حکومت ایک صوبائی حکومت کو نہ مانے تو بہت فرق پڑتا ہے سندھ اور مرکز کے درمیان کرونا کو لیکر لاک ڈاؤن کے مسئلہ پر پہلا شدید اختلاف پیدا ہوا تھا کیونکہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے سب سے پہلے لاک ڈاؤن کردیا تھا اس وقت وزیراعظم اسکے خلاف تھے جب انہوں نے دیکھا کہ مرادعلی شاہ بازی لے گئے تو تحریک انصاف نے اپنے سوشل میڈیاٹائیگرز کو میدان میں اتارا اور باتوں کے علاوہ کرپشن کے الزامات بھی شروع کردیئے گئے کیونکہ سندھ حکومت کی بڑی کمزوری یہی ہے چنانچہ وہ دن اور آج کا دن ہے کہ دشنام طرازی،نفرت اور غیرشائستگی تھمنے کانام نہیں لے رہی ہے درمیان میں وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کو ڈرانے کیلئے18ویں ترمیم کے خاتمہ کاشوشہ بھی چھوڑدیا حالانکہ اس کام کیلئے یہ کونسا موقع تھا وفاقی حکومت نے صوبوں کیلئے جس پیکیج کا اعلان کردیا وہ ابھی تک صوبوں تک پہنچا نہیں ہے بلکہ دوروز ہوئے پنجاب حکومت نے وفاق سے مطالبہ کیا ہے کہ اسے فوری طور پر75ارب روپے جاری کئے جائیں ورنہ وہ تنخواہوں کی ادائیگی کے قابل بھی نہیں رہے گی۔جہاں تک پاکستانی سیاست کا تعلق ہے تو ابتداء سے ہی یہ نفرت پر استوار ہے ملک کی پہلی وفاقی حکومت نے مہاجرین کے مسئلہ پر سندھ حکومت برطرف کرکے کراچی پر قبضہ کرلیا اس سے سندھی آبادی میں غم وغصے کے ساتھ ایک نفرت نے بھی جنم لیا اسکے ساتھ ہی صوبہ سرحد میں ڈاکٹرخان کی حکومت بھی ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ختم کردی گئی چونکہ کوئی آئین نہیں تھا اس لئے یہ اقدامات غیر قانونی تھے خان لیاقت علی خان کو بھی غیرقانونی طور پر ملک کا وزیراعظم مقرر کیا گیا وہ1946ء کے عام انتخابات میں کامیاب تو یوپی سے ہوئے تھے لیکن وزیراعظم پاکستان کے بن گئے انہوں نے اپنا حلقہ بنانے کیلئے دوسال کے اندر10لاکھ لوگوں کو کراچی لاکر بسایا جب پنجاب نے دیکھا کہ اگر لیاقت علی خان کا بندوبست نہ کیا گیا تو اقتدار کبھی پنجاب منتقل نہیں ہوگا چنانچہ16اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی کے کمپنی باغ میں لیاقت علی خان کوقتل کردیا گیا انکے بعد اقتدار کی کشمکش ایک مذاق بن گئی جو حشر خواجہ ناظم الدین کا ہوا چوہدری محمدعلی کا ہوا اور جس طرح عظیم بنگالی لیڈرحسین شہید سہروردی کو ذلیل کرکے نکالا گیا وہ تاریخ کاحصہ ہے اسی عہد میں میرجعفر کے پڑپوتے سکندر مرزا نے جس طرح بلاوجہ مارشل لاء کے نفاذ کا احمقانہ فیصلہ کیا اس نے ایک بڑی تباہی کی بنیاد رکھ دی کہنے کو تو ایوب خان کا تعلق صوبہ سرحد کے علاقہ ہری پور ہزارہ سے تھا اور وہ اپنے آپ کو ترین بھی کہتے تھے لیکن یہ سارا جھوٹ تھا کیونکہ ضلع ہزارہ کے لوگ ہمیشہ پشتونوں سے دوررہے وہ لسانی اورثقافتی اعتبار سے پنجاب کے قریب تھے اور ایک طرح سے پنجابی ہی تھے جیسے کہ عمران خان ہیں وہ بھی اپنے آپ کو پختون کہتے ہیں لیکن وہ پشتو کی بجائے ہندکو بولتے ہیں میانوالی کے علاقہ میں اعوان بلوچ روکڑی اور دیگراقوام توسرائیکی بولتے ہیں لیکن نیازیوں کی ایک بڑی تعداد کی زبان ہندکوہے۔
ایوب خان نے اقتدار پر کیاقبضہ کیاکہ پہلی بار پاورپنجاب کو منتقل ہوا حالانکہ اکثریتی علاقہ بنگال تھا جس کا نام ون یونٹ کے نفاذ کے بعد مشرقی پاکستان رکھ دیا گیا تھا بالادست پنجابی طبقوں نے مضبوط مرکز کی خاطر صوبے ختم کرکے اپنے حصے کا نام مغربی پاکستان رکھ دیا تھاتاکہ صوبوں کا قصہ ختم ہوجائے یہاں پیریٹی کانظام بھی بنایا گیا جس کے تحت قراردیا گیا کہ54فیصد بنگالی46فیصد مغربی پاکستانیوں کے برابر ہیں اس کا مقصد اقتدار کا مرکز راولپنڈی میں رکھنا اور بنگالیوں کو انکے حقوق سے محروم کرنا تھا ایوب خان نے بڑے پیمانے پر غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنا بھی شروع کردیئے اور تو اور بانی پاکستان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو غیر ملکی ایجنٹ قراردیا گیا کیونکہ انہوں نے1965ء کے نام نہاد صدارتی انتخاب میں ایوب خان کو چیلنج کرنے کی جسارت کی تھی۔باچا خان،جی ایم سید،شہزادہ عبدالکریم بلوچ،خان عبدالصمد اچکزئی اور فیض احمد فیض تو شروع سے ہی ملک دشمن ٹھہرے تھے 1965ء کے صدارتی انتخاب میں جبری کامیابی کے بعد بقول ایئرمارشل اصغر خان،ایوب خان نے لائن آف کنٹرول کراس کرکے وہاں مجاہدین بھیجے اس مہم کا نام آپریشن جبرالٹر تھا جواب میں 6ستمبر1965ء کوجنگ چھڑگئی اس جنگ میں کوئی نہیں جیتا بلکہ پاکستان بری طرح کمزورپڑ گیا جنگ بندی کیلئے ایوب خان نے سوویت یونین کے پیرپکڑے کیونکہ سترہ روزہ جنگ نے ایوب خان کا بھانڈہ پھوڑدیاتھا۔
ایوب خان نے استعفیٰ دینے کے بعد صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والے جنرل آغا محمدیحییٰ خان قزلباش کواقتدار حوالے کردیا یہ موصوف بھی زبان لسان اور کلچر کے حوالے سے پنجابی ہی تھا وہ ہند کو اور پنجابی زبان بولتے تھے اور انکے رشتے ناطے پنجاب سے تھے لیکن انہوں نے ون یونٹ توڑ کر صوبے بحال کردیئے اور عام انتخابات بھی کروادیئے لیکن جب عوامی لیگ کو اکثریت ملی تو پنجابی اشرافیہ کے پاؤں تلے زمین نکل گئی کیونکہ اقتدار اپنے ہاتھوں سے جاتا ہوا دکھائی دیا اگرشیخ مجیب وزیراعظم ہوتے تو وہ پہلے اقدام کے طور پر دارالحکومت ڈھاکہ لے جاتے مسلح افواج کے ہیڈکوارٹر بھی منتقل کردیتے۔اسٹیٹ بینک سمیت تمام مالیاتی ادارے ڈھاکہ لے جاتے جس کے بعد صوبہ پنجاب بے دست وپا ہوجاتا چنانچہ مغربی پاکستان کی اشرافیہ نے اقتدار حوالے کرنے سے انکار کردیا انتخابات کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پنجابی اشرافیہ کے نمائندہ بن گئے تھے اس لئے انہوں نے اقتدار کی منتقلی کی مخالفت کرتے ہوئے نعرہ لگایا تھا کہ ایک نہیں دو وزیراعظم ہونگے بھلا ایک ملک میں دو وزیراعظم کیسے بن سکتے تھے بھٹو کی استدلال تھی کہ ڈھاکہ اورراولپنڈی میں ایک ہزار میل کا فاصلہ ہے جب تک دووزیراعظم نہیں ہونگے ملک نہیں چلے گا یحییٰ خان نے اس اشرافیہ کے دباؤ میں آکر جو کچھ کیا اسے دہرانے کی ضرورت نہیں آخر کار16دسمبر1971ء کوبنگال علیحدہ ہوگیا پیچھے اشرافیہ نے ملک بھٹو کے حوالے کردیا لیکن اس اشرافیہ نے بھٹو کو بھی قبول نہیں کیا اس لئے جنرل محمد ضیاء الحق جالندھری نے پانچ سال بعد ان کا تختہ الٹ دیا ضیاء الحق کے ڈائریکٹ ایکشن کا مقصد پنجاب کی بالادستی کویقینی بنانا تھا انہوں نے10سال کے عرصے میں ایک نوجوان نوازشریف کو تراش خراش کرکے انہیں لیڈر بنادیا بقول صحافی سہیل وڑائچ پہلے پہل نوازشریف مقتدرہ کا گگو گھوڑا تھا لیکن اس میں جان ڈال دی گئی اسی لئے بینظیر وزیراعظم بن گئیں تو نوازشریف نے انہیں قبول کرنے سے انکارکردیا نوازشریف نے ہی
سیاست میں علاقائی نفرت کارنگ
بھرکر جاگ پنجابی جاگ
تیرے پھگ نوں لگ گیا داغ
کانعرہ بلند کیاتھا
2007ء میں کمپنی باغ راولپنڈی میں بینظیر کے قتل کے بعد یہ سمجھا گیا کہ ایسا کوئی لیڈر باقی نہیں رہا جو مضبوط مرکز مقتدرہ اور اسکی طاقت کو چیلنج کرسکے لیکن زرداری نے18ویں ترمیم منظور کرکے وقتی رکاوٹ ڈالی لیکن مقتدرہ اور اسکی اشرافیہ جس دن اسکا فیصلہ کرلے18ویں ترمیم تو کیا آئین بھی نہیں رہے گا اسی حوالے سے ایک نقطہ نظر تو صوبوں اور خاص طور پر چھوٹے صوبوں کا ہے جبکہ دوسرا نقطہ نظر ایٹمی پاکستان کی مقتدرہ کا ہے انہیں دوبارہ مرکز میں تمام اختیارات اور وسائل کا ارتکاز چاہئے ورنہ انکے خیال میں انکے عظیم منصوبے ادھورے رہ جائیں گے اسی لئے تو ایک اور گگو گھوڑا تیار کیا گیا ہے کوئی بعید نہیں کہ کل کا گگو گھوڑا موجودہ گھوڑے سے مل جائے اور وہ ایک بار پھر مضبوط مرکز کاناقابل تسخیر قلعہ کھڑا کردیں اس مقصد کیلئے مقتدرہ کاایک بڑا اتحادی گروپ علماء کا بھی ہے جو حسب ضرورت اسلامی دشمنی کا فتویٰ بھی جاری کرنے سے نہیں ہچکچائے گا مضبوط مرکز کے پاس غداری کے سرٹیفکیٹ بھی بڑی تعدادمیں تیار ہیں ماضی میں جب بھی کسی نے روڑے اٹکائے انکے خلاف یہ حربے استعمال کئے گئے راولپنڈی سازش کیس،حیدرآباد سازش کیس اور نواب اکبر خان بگٹی کی غداری کا معاملہ سب کے سامنے ہے۔
راولپنڈی میں غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کیلئے3اہم فیکٹریاں شیخ رشید،زید حامد اور اوریا مقبول جان کی صورت میں موجود ہیں۔
اشرافیہ کے نزدیک ریاست کے خدوخال میں بگاڑ کودرست کرنا ضروری ہے۔پہلے مرحلے میں آئین کو ٹھیک کیا جائیگا اس کے بعد دیگرضروری اقدامات اٹھائے جائیں گے اس سلسلے میں طاقت کے اہم ستون ایک پیج پر ہیں اگر کوئی کچھ کہے وہی پرانا فارمولہ آزمایاجائیگا کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اس میں علاقائی لسانی اور صوبائی تعصبات کی گنجائش نہیں ہے آئین کے بعد یا اس سے پہلے میڈیا کو اس کے اصلی مقام پر لایا جائیگا حالانکہ اس وقت بھی پاکستان کا شمار ان ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں کامیڈیا بری طرح پابند اور اظہاررائے کی آزادی نہیں ہے انسانی حقوق کمیشن نے اپنی جورپورٹ چند دن پہلے جاری کی ہے اس میں ان باتوں کی نشاندہی کی گئی ہے یعنی حکومت کو ایسا میڈیا چاہئے جو اشرافیہ کے فیصلوں کو من وعن قبول کرے اور اسکی ہاں میں ہاں ملائے اس مقصد کیلئے آمرانہ قوانین کی تیاری تقریباً مکمل ہے حکومت کا فیصلہ ہے کہ مضبوط مرکز کاحامی میڈیا ہی باقی رہنے دیاجائیگا وہ وقت دور نہیں جب سیاست میں پلانٹ کئے گئے شاہ دولہ کے چوہے بہ یک وقت آوازیں نکالنا شروع کردیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں