کیا صحافت آزاد ہے؟

زبیر بلوچ
فریڈم نیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق اس سال بھی گزشتہ ادوار کی طرح پاکستان میں صحافیوں پر تشدد اور حملوں کے 91کیسز کی تصدیق ہو گئی ہے جبکہ 7صحافی اس سال قتل ہوئے ہیں، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں آزاد صحافت محدود ہے جبکہ صحافیوں کو ہراساں کرنا معمول بن چکا ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کو صحافیوں کیلئے سب سے خطرناک علاقہ بتایا گیا ہے، رپورٹ میں ریاستی اداروں اور سیاسی پارٹیوں کو صحافیوں کو دھمکانے میں ملوث قرار دیا گیا ہے جس سے پاکستان میں آزاد صحافت کی صورتحال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جہاں صحافیوں کو تحفظ دینے والے ہی ان کی جان کے پیچھے پڑے ہیں۔ صحافت کی آزادی کیلئے کام کرنیوالی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال دنیا بھر میں 49صحافی قتل ہوئے جن میں زیادہ صحافیوں کا تعلق مڈل ایسٹ سے تھا جنہیں مڈل ایسٹ میں جاری پراکسی جنگ کو کوریج دینے کے جرم میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ گزشتہ سال میکسیکو جیسے ملک میں بھی 10صحافی اپنی پیشہ ورانہ زمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے لقمہ اجل بن گئے۔صرف قتل ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں آزاد صحافت پر یقین رکھنے والے صحافیوں کو مختلف طریقوں سے زیر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس میں جیل بھیجنا، تشدد کا نشانہ بنانا، قتل و اغواہ کی دھمکی دینا، گھر والوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دینا اور مختلف طریقے سے ہراساں کرنا شامل ہے۔گزشتہ سال 389صحافیوں کو مختلف ممالک میں اپنی زمہ داریوں کو پورا کرنے کی پاداش میں جیلوں میں قید کیا گیا، جبکہ اب بھییہ سلسلہ بھی بدستور جاری و ساری ہے۔
میڈیا کسی بھی ریاست کا اہم ستون بلکہ کان و آنکھ کی طرحہوتا ہے جو دنیا بھر میں مستندمعلومات فراہم کرنے کا اہم ذریعہ ہے لیکن بدقسمتی سے ہم نے دیکھا ہے کہ ہر ریاست میں میڈیا اور صحافت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو سب سے زیادہ اداروں سے خطرہ ہے، چاہے وہ چین ایران سعودی یا مصر ہو یا پاکستان، گزشتہ سال سعودی نے صحافی جما ل خشوگی کو ترکی میں اپنے قونصلیٹ کے اندر قتل کر دیا تھا جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ریاستیں کس طرح میڈیاکی آزادی کو سلب کرنا چاہتی ہیں۔ دنیا میں ہر ریاست میڈیا کی آزادی کی بات کرتا ہے لیکن حقیقی بنیادوں میں صحافت کی آزادی کو سب سے زیادہ خطرہ ریاست ہی ہے۔اس کے علاوہ دنیا بھر میں بندوق کے نوک پر صحافیوں کی بلند و بالا آواز کو دبانے کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکا جیسے ملک میں بھی میڈیا آئے روز آمرانہ رویوں کا سامنا کر رہا ہے جس کی سب سے بڑی مثال صدر ٹرمپ خود ہیں جو آئے روز صحافت کو جھوٹا قرار دیتاہے۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ میڈیا کسی بھی سماج میں کلیدی کردار ادا کرتاہے لیکن آزاد صحافت پر حملوں دھونس و دھمکیوں کی وجہ سے میڈیا کا کردار انتہائی محدو دہو چکاہے، آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں لوگ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے زیادہ سوشل میڈیا کو ترجیح دیتے ہیں اس کے باوجودکے دنیا میں سب سے زیادہ جھوٹ کا پھیلاؤ سوشل میڈیاکے ذریعے ہوتاہے لیکن آزاد صحافت پرپابندی کے بعد میڈیا حکمرانوں کے جھوٹ کو پھیلانے کا ذریعہ بن چکاہے جس کی وجہ سے اب لوگ میڈیا کو گھاس بھی نہیں ڈالتے۔
پاکستان اورخاص طور پربلوچستان میں آزاد صحافت ایک تصور بن چکی ہے بلوچستان میں کچھ سال پہلے صحافیوں پر حملے اور ان کا قتل روز کا معمول بن چکا تھا جس کے بعد اکثر و بیشتر صحافیوں نے اپنی زندگیوں کو بچانے کیلئے لکھنا اور بولنا چھوڑ دیا، جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ لوگوں کا بھروسہ اخبار اور الیکٹرانک میڈیا سے مکمل طور پر ہٹ چکا ہے۔ کسی بھی صحافی کا قتل حق و سچ کا قتل ہے لیکن یہاں پر حق و سچائی کا قتل ہی واجب القتل بن چکا ہے۔ آزاد میڈیا پر لگائے گئے پابندی کی وجہ سے سماج میں صحافت کا اہم کردار محدود بلکہ نہ ہونے کے برار رہ گیا ہے۔ صحافیوں کا بنیادی فرض یہ ہوتا ہیکہ وہ عوام تک سچائی و حق کی بات پہنچائے لیکن یہ تب ممکن ہوتا ہے جب کسی ملک میں صحافت آزاد ہو۔
آزادی اظہار کسی بھی مہذب معاشرے کابنیادی حق ہے لیکن اس حقیقت سے انکار کرنا ممکن نہیں کہ آج دنیا بھر میں آزادی اظہار پر مکمل پابندی عائد کی جا چکی ہے، پاکستان کی ہر نئی حکومت آزادی اظہار رائے پر پابندیوں کی خلاف ورزی کرتی ہے لیکن ابھی تک کسی بھی حکومت نے آزادی اظہار رائے اور صحافت کو دبانے والی سازشوں کی روک تھام کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے بلکہ ہر آنے والی حکومت نے میڈیا کو اپنے کنٹرول میں کرنے کی کوشش کی ہے، نواز شریف کے دور حکومت سے لیکرعمران خان کے دور حکومت تک صحافی ہر وقت مشکل و مصائب کا سامنا کرتے آئے ہیں۔اظہار رائے آزادی بنیادی انسانی حقوق و آئینی و قانونی حق ہے لیکن پاکستان جیسے ملک میں آئین و قانون محض حکمرانوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے ہے۔ جبکہ زمہ دار پریس جس کا کام حقیقت کا آشکار کرنا اورلوگوں کو حقیقی معلومات سے آگاہی دینا ہے۔
آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں صحافت سخت پابندیوں کا سامنا کر رہی ہے، دنیا بھر میں صحافی قتل کئے جا رہے ہیں انہیں جیل و قید کیا جا رہا ہے انہیں خاموش کرنے کیلئے مختلف طریقے استعمال میں لائے جا رہے ہیں، جبکہ انہیں ہراساں کرنا روز کا معمول بن چکا ہے، عالمی ادارو ں سمیت ریاستوں کو اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ جہاں میڈیا پر پابندی ہو، جس معاشرے میں سچ کو قتل کرنے کی کوشش کی جاتی ہو، جہاں ملک میں حق کو دبانے کی ساز ش کی جاتی ہو وہ معاشرہ اور سماج کبھی بھی مثالی نہیں ہو سکتا ہے۔ آج آزاد میڈیا کو جس طرح دنیا میں خطر ہ ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں بیشتر ممالک اپنے لوگوں کو جھوٹ و فریب میں رکھتے ہیں جبکہ حکمران حق و سچ کو چپھانے کی ہر ممکن کوشش میں لگے ہوتے ہیں جو ان کی اپنے عوام سے غیر سنجیدگی کا واضح ثبوت ہے۔ ایک آزاد میڈیا ہی علمی و معلوماتی معاشرے کا بنیاد رکھ سکتا ہے۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں