کووڈ19، نئی ٹرمپ یا ڈبلیو ایچ او؟؟؟

راحت ملک
کورونا جسے اصطلاحی اعتبار سے کووڈ19کہا جاتا ہے جب چین کے صوبے ووہان میں نمودار ہوا تو واشنگٹن میں اسے دلچسپی سے دیکھا گیا جبکہ امریکہ و مغربی دنیا سے فاصلہ رکھنے والے خطوں کے عوامی حلقوں میں کووڈ19 کو چین کی تیز رفتار معاشی ترقی اور اس کے عالمی اثرورسوخ میں غیر فوجی ذرائع مثلا ذرائع یعنی ًمالی، تجارتی، تعاون اور باہمی دو طرفہ معاشی سرگرمیوں سے ہونے والے بے پناہ گہرائی کو لگام ڈالنے کے مترادف قرار دیا گیا تھا پھر صدر ٹرمپ جس کی حیاتیاتی نقول ایشیاء میں مودی اور جناب عمران خان کی صورت موجود ہیں نے بعض دیگر مغربی قائدین کی سنگت میں کووڈ19کو غیر سنجیدہ وباء قرار دیا جو چینی عوام کے مخصوص کھانوں کی وجہ سے پیدا ہوا تھا چنانچہ استدلال کیا گیا کہ امریکہ و مغرب میں کووڈ19 کے زیادہ تباہ کن نتائج پیدا ہونے کا کوئی خدشہ نہیں مگر واقعات کے پلٹنے سے منظر نامہ ہی بدل گیا۔ گو اس بحران سے چین کی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا مگر ایک منصوبہ بند ذمہ دار ریاستی بندوبست رکھنے کے دعوے و عمل نے ثابت کردیا کہ چین نے کووڈ19کو شکست نہیں دی یا مکمل طور پر خاتمہ نہیں کیا تو بھی اس نے وباء کے پھیلاؤ پر بہت حد تک قابو پا لیا ہے۔
اسی عرصہ میں کووڈ19 برطانیہ و اٹلی میں خوفناک منظر پیش کر چکا تھا تب بھی دنیا کے سب سے طاقتور. مگر سنجیدہ و مزاحیہ سیاسی کردار صدر ٹرمپ نے امریکہ میں کووڈ 19کی وباء پھیلنے کے خدشات پر مسخرے پن کے ساتھ اپنے تبصروں اور رویوں کا اظہار جاری رکھا تاھم کرونا کی وجہ سے امریکہ میں حالات دنوں میں دگرگوں ہونے لگے تو امریکی صدر نے عالمی ادارہ صحت کو اپنی تنقید کا ہدف بنایا کہ اس نے بروقت طور پر کووڈ19 کے متعلق بنیادی معلومات/ خدشات پر مبنی درست جائزے پیش نہیں کیے جو فرائض سے غفلت کے مماثل ہے چنانچہ ٹرمپ نے امریکی قومی شاوئزم کے اپنے ذھنی اسیر پن رویے کے علی الرغم سفید فام امریکیوں کے ذہنی خبط کی تشفی کیلئے ڈبلیو ایچ او کو واشنگٹن سے ملنے والی مالی امداد روک دینے کی دھمکی دی یہ امریکہ سفید فام قدامت پسند سیاسی حلقے کی دیرینہ عالمی حکمرانی کے تصور کی عملی تعبیر و صورتگری تھی جس سے افسردہ ذہنوں کو تسکین تو ملی مگر خود امریکہ میں کووڈ19کی تباہ کاریوں پر قابو پانے میں مدد نہ ملی۔
سرد جنگ کے خاتمے کیفوری بعد امریکی پالیسیوں میں تبدیلی کیاشارے ملنے لگے تھے امریکہ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد اپنے عالمی بالادستی کے کردار کو ماضی کے مقابل محدود کرنا چاہ رہا تھا نیز وہ مغربی آزاد دنیا کے تصور کو برقرار رکھنے کیلئے اپنے مالی تعاون کو کم تر سطح پر لانے کا متمنی تھا نیز نیٹو سمیت دیگر عالمی اداروں کی مالی ضروریات پوری کرنے کیلئے مغربی و غیر مغربی اتحادیوں سے توقع کر رہا تھا کہ اب وہ ان عزائم کیلئے ماضی کے مقابلے میں اب اخراجات میں اپنا حصہ بڑھائیں۔
1995ء میں ہی امریکی کانگریس میں ایک مہم شروع ہوئی تھی جس کا بنیادی مقصد ہ تھا امریکہ کی طرف سے ابتک اقوام متحدہ کو مجموعی طور پر دی گئی 30ارب ڈالر کی امداد یکمشت طور پر واپس وصول کی جایے۔ اسی مہم میں یہ نقطہ بھی شامل تھا کہ اقوام متحدہ کو 2000ء تک اپنے دفاتر امریکہ سے باہر منتقل کر لینے پر مجبور کیا جائے۔
یہ اقدام عالمی سیاست میں امریکی کردار کی کم ہوتی دلچسپی کے مظاہر تھے بعد ازاں رونما ہویے واقعات نے اس طرح کی مہم جوئی اور سوچ کو موخر کرنے پر مائل کیا تاہم گزشتہ صدارتی انتخاب میں ٹرمپ نے امریکی فسطائیت اورامریکہ میں موجود غیر ملکی افراد پر سفید فام امریکیوں کو ملازمتوں میں ترجیح دینے کے عزم کا اظہار کیا اور سفید فام نوجوان امریکیوں کو جن کے ہاتھوں سے روزگار کے مواقع نکلے جا رہے تھے متوجہ کیا تاکہ انتخابی کامیابی ممکن ہو سکے مگر پھر بھی ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار کو انتخابات میں اپنے حریف کے مقابلے میں بائیس لاکھ سے بھی زیادہ تعداد میں کم عوامی ووٹ ملے البتہ ٹرمپ الیکٹرول کالجز میں برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
رواں سال نومبر میں امریکہ میں اگلی مدت کیلئے صدارتی انتخاب ہو گا جس میں کامیابی کیلئے ٹرمپ امریکی معیشت کی شرح نمو کے لیے ایک گھناؤنا خواب بن جانے والے چین کے مقابل خود کو امریکی مفادات کے تحفظ کا زیادہ موثر و مضبوط فرد بنا کر پیش کرنے میں مصروف ہے اس نے امریکہ میں کووڈ19کی تباہ کاری و ہلاکتوں کی ذمہ داری کا سارا ملبہ چین پر ڈال دیا ہے الزام لگایاگیا ہے کہ کووڈ19 چین کی تجربہ گاہوں میں تیار ہوا اور اسے دنیا میں پھیلایا گیا ہے اس سازشی تھیوری میں ٹرمپ ڈبلیو ایچ او کو بروقت نشاندہی نہ کرنے پر مورد الزام ٹہرا رھا ھے۔ بروقت وباء کے مضمرات کی نشاندھی نہ کرنے پر اسکی صلاحیت پر نااھلی جیسے مجرمانہ غفلت نما معاون کا کردار کے طور پر پیش کر رہا ہے ٹرمپ واشگاف الفاظ میں کہہ چکا ہے کہ چین امریکہ میں کووڈ 19 کو تیزی سے پھیلا کر ٹرمپ انتظامیہ کو ناکام ثابت کرنے میں مصروف ہے تاکہ اسے انتخابی شکست سے دوچار کیا جائے اور جوبائیڈن کو امریکی صدر بننے میں مدد دی جائے بقول ٹرمپ جوبائیڈن چین کے جارحانہ معاشی عزائم پر چین کو موثر جواب دینے کی صلاحیت و ارادے سے عاری صدارتی امیدوار ہے۔ جبکہ وہ بزعم خود چین کو اس کے ” جرائم ” کی سزا دینے کی مکمل صلاحیت و ارادے کا مالک ہے
ٹرمپ کے الزامات امریکی انتخابی نظام میں عوامی رائے دہندگان کے موثر کردار سے لاعلمی کی عکاسی کرتے ہیں اگر امریکہ میں حقیقی عوامی جمہوری طرز حکمرانی رائج ہوتا تو پھر گزشتہ انتخاب میں بھی ٹرمپ کو شکست ہونی چاہیے تھی جسے مخالف امیدوار کے مقابلے میں بائیس لاکھ عوامی ووٹ کم ملے تھے
ٹرمپ کے الزامات سے اب اگر عوامی رائے عامہ متاثر ہو بھی جایے تو اس کی انتخابی عمل میں فیصلہ کن حیثیت ہی نہیں۔دوسری طرف طاقت کے مالک مالدار امریکی کمپنیوں و کارپوریشنوں کے مالک اور کارپوریٹ سیکٹر کے مینیجرز جو الیکٹرول کالج کے ووٹوں کو کنٹرول کرتے ہیں ٹرمپ کے الزامات سے متاثر نہیں ہونگے اگر وہ پہلے سے ہی ذھنی طور پر ٹرمپ کو دوبارہ صدر بنانے کا فیصلہ نہیں کر چکے تو دلیل یہ ہے کہ اگر چین نے کووڈ 19وائرس (وباء)پیدا کی ہے تو اس نے لازمی طور پر اس وباء سے بچاؤ کی موثر تدابیر یعنی ویکسین بھی تیار رکھی ہوگی کیونکہ وباء پھیلا کر کسی خطے میں انسانی المیے ا جنم دینے اور تجارتی معاشی سرگرمی کو متاثر کرنے سے چین کو فوائد تو ملنے سے رہے تاوقتیکہ وہ اس کی ویکسین بھی ایجاد نہ کرے۔جسے وباء کے عروج کے عرصہ میں من مانی قیمت پر دنیا بھر میں فروخت کیا جاسکے!!!
نہیں کیا جا سکتا کہ چین نے ایسی ویکسین ابھی تک تیار ن کی ہو۔ یہ ممکن ہے مارکیٹ میں لانے میں تاخیر کے ذریعے چین اس الزام سے بچنے کی کوشش کر رہا ہو کہ چین نے پہلے کووڈ 19بنایا تباہی پھیلائی اور اب ویکسین کے ذریعے اربوں ڈالر کما رہا ہے۔ کرونا وباء کی وجوھات اور علاج کا مخمصہ نومبر2020ء تک سامنے آئے گا۔ علاوہ ازیں چین امریکہ معاشی محاذ آرائی کے انداز و اطوار بھی نومبر سے قبل رونما ہو جائینگے خدشہ ہے کہ امریکی حکام چین کی افریقہ و مشرقی وسطی کی منڈی تک رسائی اور خلیج ملاکا. کے تزویراتی خطرے سے نکلنے کے لیے بہت اھم منصوبہ سی پیک کو سبوٹاڑ کرنے کو اولیت نہ دیں جہاں ان دنوں۔ مجہول الخیال حکومت ہے اور سی پیک پر کام کی رفتار سست و شکوک و شبہات کی زد میں ہے ایسا ہونا نہ بعید از قیاس نہیں۔ لیکن پاکستان کی جغرافیائی اہمیت اقتصادی ترقی. تزویراتی مفادات کے انتہائی تشویش کی بات ہو سکتی ہے
واشنگٹن کے لب و لہجے سے یہ طے ہوتا دکھائی دے رہا ہے کہ امریکہ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں بشمول ڈبلیو ایچ او کی مالی معاونت سے پیچھے ہٹ رہا ہے اس کی وجوہات کا تذکرہ آئندہ کسی تحریر تک التواء میں رکھتے ہیں۔
حالیہ بحران نے دنیا میں از سر نو سیاسی معاشی تبدیلیوں کی ضرورت کو مضبوط بنیاد بہر حال مہیا کی ہے کیونکہ جن ممالک نے اپنے صحت کے نظام کو قومی بجٹ کی ترجیحات سے خارج کر دیا تھا یا اسے انتہائی نچلی سطح پر لے گیے تھے وہاں وہاں صحت کا شعبہ نجی تجارتی سرگرمی بنتا چلا گیا اور ایک موذی وباء کے بحرانی عرصہ میں درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے سے بلکل عاجز رہا اس کے برعکس چین اور دیگر ممالک میں جہاں منصوبہ بند معیشت کے خدوخال کی باقیات اب بھی موجود ہیں وہاں کووڈ19کا موثر مقابلہ کیاگیا ہے یا پھر خط استوا کے وہ ممالک جہاں صحت عامہ کا نظام بھی بدترین تھا اور حفظان صحت کے معیار سے بہت کم کی سماجی صورتحال تھی وہاں کے لوگوں میں موجود مدافعتی داخلی جسمانی نظام نے کووڈ19 کو سنگین شکل اختیارکرنے میں کامیاب مزاحمت کی ہے۔ بعد از کرونا. دنیا ایک مختلف طرز عمل اپناننے کے لیے تیار ہوگی۔ کیا ایک نئی دنیا کے امکان کی چنگاری پھر سے روشن ہو سکتی ہے؟؟؟

اپنا تبصرہ بھیجیں