نتیجہ تو وہی نکلے گا

انور ساجدی

وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان جو لڑائی ہے سپریم کورٹ نے اس کا نوٹس لیا ہے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر ایک ہفتے تک وفاق اور صوبوں میں کرونا کے بارے میں یکساں پالیسی نہ بنائی گئی تو اس بارے میں عدالت خود معاملات طے کرے گی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے استدعا کی یہ سیاسی معاملہ ہے اسے سیاستدانوں کوحل کرنے دیا جائے ایک مشکل یہ ہے کہ کسی بھی تقررسے پہلے وزیراعظم پس منظر جاننے کی کوشش نہیں کرتے اگر انہیں خالد جاوید کا پس منظر معلوم ہوتا وہ کبھی کیپٹن ریٹائرڈ انورمنصور کی جگہ انہیں اٹارنی جنرل نہیں بناتے اس ملک میں جو چند اصول پسند لوگ ہیں جنہیں عرف عام میں کھسکے ہوئے یا پاگل کہاجاتا ہے خالد جاوید کا تعلق بھی ان لوگوں سے ہے انہوں نے آج تک اپنے باپ کا کہا نہیں مانا تو وہ اس حکومت کے ساتھ کیسے چل سکتے ہیں تقرر کے فوراً بعد انہوں نے واضح کیا کہ وہ قاضی فائز عیسیٰ کے کیس میں پیش نہیں ہونگے جب وزیراعظم نے آپاں فردوس عاشق اعوان کو حکومت کا ”ہولی سولی“ ترجمان مقرر کیا تو انکے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں تھیں یہی وجہ ہے کہ جب انہیں برطرف کردیا گیا تو وہ مدمقابل آگئیں ہوسکتا ہے کہ وہ آئندہ ”ماسی مصیبت“ کا کردار اداکریں۔وزیراعظم نے حال ہی میں بابر اعوان کا تقرر کیا ہے یہ دیکھے بغیر کہ انہوں نے ہر دفعہ وزارت کا مزہ لوٹا لیکن کسی سے وفا نہیں کی اسی طرح کے لوگ انہوں نے مشرف،زرداری اور ن لیگ سے جمع کئے ہیں جو انکے اپنے متوالے کارکن ہیں انکی اکثریت کوسوشل میڈیا کے میدان جنگ میں مخالفین کیخلاف جھونک دیا گیا ہے یہ عجیب و غریب فوج ہے یہ سوچے سمجھے بغیر حملے شروع کردیتی ہے جواز منطق دلیل انکے ہاں کوئی معنیٰ نہیں رکھتے حال ہی میں مولانا طارق جمیل کی ”سیاسی دعا“ سے جو مسئلہ شروع ہوا اس نے اہل یوتھ کو بدمست سانڈ بنادیا ہے جو اپنی سینگوں پر پوری زمین الٹانے کی کوشش کررہا ہے اگرچہ مخالفین بھی گالم وگلوچ میں کچھ کم نہیں ہیں کیونکہ انکی بھی بہت بڑی تعداد ہے لیکن جس حد تک تحریکی متوالے جاسکتے ہیں اور کوئی نہیں پہنچ سکتا ٹائیگروں کے اس فورس نے جب سے بلاول نے قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں عمران خان کو سلیکٹڈ وزیراعظم کاخطاب دیا اپنی توپوں کارخ بلاول کی طرف کردیا تھا۔بلاول کے بارے میں ایسی ایسی پوسٹیں عام کی گئیں کہ عام حالات میں اسکی توقع نہیں کی جاسکتی اسی طرح شریف خاندان کے بارے میں بھی انکی قابل اعتراض پوسٹیں ہزاروں لوگوں نے دیکھی ہونگی آج کل نشانہ صحافی اور ٹی وی اینکرز ہیں۔جن اینکروں نے مولاناطارق جمیل کی سیاسی مناجات پراعتراض اٹھایا انکی عزت سادات کوسرعام اچھالاگیا بدقسمتی سے اپنے ناظرین بڑھانے کیلئے ایک متنازعہ اینکر مبشر لقمان بھی مولانا کی حمایت میں کود پڑے انہوں نے تازہ تازہ یوٹیوب پر اپنا چینل کھولا ہے انکو اور کچھ سجھائی نہ دیا تو وہ اپنی ہی برادری کیخلاف میدان میں کود پڑے حالانکہ وہ واحدصحافی ہیں جنہیں کئی مرتبہ تپھڑ رسید ہوئے اسکے باوجود انکی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا گزشتہ روز سے حامد میر کیخلاف مہم زوروں پر ہے جعلی تصاویر کاسہارا لیاجارہا ہے جو لوگ ایسا کررہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہ غیرشائستگی اور بدتہذیبی انکے گھروں تک بھی پہنچ سکتی ہے اگرچہ مولانا طارق جمیل ایک دینی شخصیت ہیں اور توقع یہی ہے کہ انکے چاہنے والے اتنی پستی میں نہیں گرسکتے لیکن دیگرمخالفین سے ایسی کوئی امید نہیں ہے۔
جب سے سندھ اور وفاقی حکومت کی لڑائی شروع ہوئی ہے بلاول دوبارہ بدترین نشانہ ہیں اور یہ لوگ یہ دیکھے بغیر کہ آئین کیا کہتا ہے سندھ حکومت کی برطرفی بلاول اور مرادعلی شاہ کوپابہ جولاں کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں جہاں تک آئین کی تشریح کا تعلق ہے تو سپریم کورٹ سے زیادہ کوئی اس کا مجاز نہیں ہے لیکن وہاں پر بھی یہ سوال اٹھایا گیا کہ ایسے بزنس جو وفاق کو ٹیکس دیتے ہیں انکو صوبائی حکومت نے کس اختیار کے تحت بند کیا ہے یہ بہت ہی تفصیل طلب معاملہ ہے کیونکہ اسکے لئے عدالت عظمیٰ کو18ویں ترمیم کی تشریح کرنا پڑے گی وفاق اورصوبوں کی حدود وقیود کا تعین کرنا پڑے گا اگرلڑائی اسی طرح جاری رہی تو ”عدالتی گو“ہوسکتا ہے چاہے جس کے بھی خلاف ہو ریاست کی تاریخ میں یہ کوئی نئی بات نہیں اس کا آغاز جسٹس منیر نے کیا تھا وہ نظریہ ضرورت وقتاً فوقتاً سراٹھاتا رہتا ہے اگرچہ ایوب خان کے وقت کوئی طے شدہ آئین نہیں تھا لیکن اس وقت کے جج صاحبان نے ان سے حلف لیکر مارشل لاء کو جائز قراردیدیا یحییٰ خان نے لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت حلف اٹھایا۔ذوالفقار علی بھٹو نے بھی مارشل لاء کاحلف اٹھایا اور جب1977ء کو ضیاء الحق نے 1973ء کے آئین کو ملیا میٹ کرکے مارشل لاء لگایا ا ور سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے خوش دلی کے ساتھ ان سے حلف لیا بعدازاں نظریہ ضرورت کے تحت مارشل لاء کو بھی جائز قرار دیا گیا اس سے ملتا جلتا واقعہ جنرل مشرف کے ”کو“ کاتھا۔آئے دن ”سوموٹو“ لینے والے غازی افتخار چوہدری سمیت تمام جج صاحبان نے نہ صرف انکے ناجائز اقدام کو جائز قراردیا بلکہ یہ بھی اختیار دیا کہ فوجی حکمران جب چاہیں اپنی ضرورت کے مطابق آئین میں ترمیم واضافہ کرسکتے ہیں یہ جوبعد میں جنرل مشرف نے افتخار چوہدری اور انکے ساتھی جج صاحبان کو برطرف کیا یہ ”رولنگ ایلیٹ“ کے درمیان اندرونی لڑائی کا شاخسانہ تھا،کیونکہ کیانی نے مشرف کو کمزور کرنے کا پلان بنالیا تھا اگر ایسا نہ ہوتاتو یوسف رضا گیلانی کے دور میں چوہدری اور ساتھیوں کی بحالی کی خبر جنرل کیانی جلوس کے دوران چوہدری اعتزاز احسن کو نہ دیتے بحال ہونے کے بعد چوہدری صاحب دوبارہ شیر بن گئے اور انہوں نے اس وزیراعظم کو نکال باہر کیا جس نے انکی بحالی کے احکامات جاری کئے تھے افتخار محمد چوہدری جو کہ رانا ثناء اللہ کے کزن تھے اور وہ ن لیگ جوڈیشل ونگ کے سربراہ کا کردار ادا کررہے تھے۔
ایک وقفہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا آیا تھا لیکن انہوں نے بھی نظریہ ضرورت کو زندہ رکھا اور ایک تاریخی فیصلہ دینے سے گریز کیا ان تمام واقعات سے سیاسی حکومت کو سبق سیکھنا چاہئے اور مرکز کو صوبوں کے ساتھ تصادم سے دور رہنا چاہئے اگرسیاسی لوگ اپنے فیصلے آپس میں کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوں تو غیرسیاسی عناصر آکر یہ فیصلے کریں گے کیونکہ ریاستی امور میں جب بھی کوئی خلا پیدا ہوگا وہ ضرور پر کردیاجائیگا اگر1977ء کوپی این اے بھٹو کے ساتھ مذاکرات کوطول نہ دیتی تو تیسرے فریق کی مداخلت کی نوبت نہیں آسکتی تھی اسی طرح2014ء میں نوازشریف نے تحریک انصاف کے ساتھ ٹیبل پربیٹھ کر معاملات حل کرنے سے انکار کیا جس کی وجہ سے بالآخر انہیں اقتدار سیاسی کیریئر اور نارمل زندگی گزارنے سے محروم ہوناپڑا۔
اس وقت تحریک انصاف کو یہ زعم ہے کہ اسکے مقابلے میں کوئی پہلوان کھڑا ہی نہیں ہے لیکن یہ حکومت جو غلطیاں کررہی ہے جس بیڈگورننس اور بدانتظامی سے کام لے رہی ہے یہ کب تک برداشت ہوگا اور سوال یہ ہے کہ اسکی رعونت کا جواز کیا ہے اسکی اکثریت محض 6نشستوں پرقائم ہے بلکہ6نشستیں کیا اس حکومت کا قائم رہنا غیر مرئی کندھوں کے سہارے قائم ہے جس دن یہ کمک باقی نہ رہے تو اس حکومت کا ایک دن بھی قائم رہنا مشکل ہوجائے گا سپریم کورٹ نے بالکل ٹھیک نوٹس لیا ہے کہ کرونا کے مسئلہ پر وفاق اور صوبوں کی یکساں پالیسی کیوں نہیں ہے؟وزیراعظم ٹوٹل لاک ڈاؤن کیخلاف ہیں لیکن انکے اپنے تین صوبے وزیراعظم کی مرضی کیخلاف مسلسل لاک ڈاؤن کررہے ہیں وزیراعظم کااوروں پر بس نہیں چلتا تو کم از کم اپنے صوبوں کو تو اپنے ساتھ ملائیں ابھی تو مسائل کا آغاز ہوا ہے کرونا کے ساتھ یاکرونا کے بعد جو گھمبیر سیاسی معاشرتی اور معاشی مسئلے جنم لیں گے انکو کون حل کرے گا کیونکہ حالات نے ثابت کیا ہے کہ وزیراعظم میں قوت فیصلہ کی کمی ہے وہ بحرانوں کوبروقت اور صحیح معنوں میں ہینڈل کرنے کی کماحقہ صلاحیت نہیں رکھتے دوسال ہونے کو آئے ہیں انکی انا پسندی ضد اپنے سوا کسی کو تسلیم نہ کرنے اور خاطر میں نہ لانے کی پالیسی برقرار ہے جس دن انہوں نے فنڈز اکٹھا کرنے کیلئے ٹیلی تھون کیا ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا کہ اگرزرداری اور شریف کو ملاؤں تو جو چندہ ملنا ہے وہ بھی نہ ملے لیکن انکی اپیل پر کسی نے چندہ نہیں دیا اس سے انکو اندازہ ہونا چاہئے کہ انکی اپنی مقبولیت بھی زرداری اورشہبازشریف کی سطح پر آگئی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ مزید نیچے گرجائے گی ملکی معاملات چلانے کیلئے دوراندیش تحمل اور بردباری سب سے بڑے ہتھیار ہوتے ہیں اسکے بغیر اتنے بڑے ملک کو آگے لے جانا اور ایک خوشگوار ماحول پیدا کرنا ناممکن ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں