شرف انسانی کی اساس اور احساس پروگرام

راحت ملک
خطرناک وباء کرونا کووڈ19۔ اپریل کے وسط مئی کے پہلے ہفتے کے دوران بہت تیزی سے پھیلا ہے۔ یہ وہ مدت ہے جس میں کرونا سے بچاو کے لیے عالمی سطح پر تسلیم شدہ واحد حکمت عملی سماجی فاصلے سے گریزپائی کا حکومتی رجحان زیادہ شدت کے ساتھ منظر عام پر آیا۔ باالعموم اس طرز حکمت عملی کو ابہام پر مبنی منقسم مزاجی قرار دیا جارہا ہے۔ ایک جانب خود حکومت نہیں سمجھ پارہی کہ صورتحال سے کس طرح نمٹنا ہے تو دوسری طرف وہ عوام کی مشکلات کو حل کرنے کی بجاے انہیں دلیل بناکر پیش کرتی ہے جس کا لازمی نتیجہ لوگوں میں کرونا وباء کے متعلق غیر سنجیدہ روئیے اختیار کرنے کا عمل تقویت پاتا جارہا ہے
مثال کے طور پر جب اس عمر جیسا شخص کووڈ19 کا تقابل ہر سال ٹریفک حادثات میں ہونے والی اموات سے کرے اور استدلال کرے کہ کرونا کے مقابلے میں عام حادثات میں زیادہ انسانی اموات واقع ہوجاتی ہیں تو لازماً عوامی رویہ کرونا وباء کو خطرناک نہیں سمجھے گا۔ تو حفاظتی احتیاطی اقدامات کو بھی غیر ضروری قرار دے گا اس غیر سنجیدگی کا منطقی نتیجہ بے احتیاطی کے ذریعے کووڈ 19 میں تیز رفتار اضافے کا موجب بن رہا ہے
کووڈ 19 کے ٹیسٹنگ سسٹم میں بھی شکوک پیدا ہورہے ہیں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ملک بھر ٹیسٹ کٹس وافر مقدار میں موجود ہیں مگر ٹیسٹنگ عمل کے اعداد وشمارمخدوش صورت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ بدگمانی ٹیسٹنگ کٹس کی تعداد کو شک وشبہ کا لبادہ پہنا تی ہے یا ان کی تقسیم کے طریقہ کار پر اعتراضات وارد کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
طبی ساز وسامان کی متحرک تقسیم کی متقاضی ہے تو حکومت سرخ سرکاری فیتے کی گرفت سے نکل نہیں سکی۔ آفت کے تقاضے عمومی حالات سے قطعی مختلف ہوتے ہیں
احساس پروگرام کے ذریعے کم آمدنی والے افراد کی چار ماہ کے لیے بارہ ہزار روپے کی امداد کو شائد انہی معنوں میں ” تاریخی ” کا لقب دیا گیا ہے!!!
گذشتہ روز محترمہ ثانیہ نشتر نے احساس پروگرام میں امداد کی تقسیم میں پیش آنے والی مشکل کا ذکر کیا کہ بعض افراد کے انگوٹھے کی تصدیق نہیں ہو پاتی۔یوں بہت سے لوگ امداد وصول نہیں کر پاتے
اس مسئلے کے حل کے لیے عجلت پسند ِحکومت نے۔ملک بھر میں نادرا کے دفاتر کھولنے کا حکم جاری کیا۔
بظاہر نادرا دفاتر کے باہر معمولی نوعیت کے ایسے اقدامات نظر آے جو سماجی فاصلے کے تقاضوں کی اہمیت جتاتے تھے مگر ان پر عمل کی صورت حال اتنی بھیانک رہی خدشہ ہے کہ نادرا دفاتر کے باہر آج بروز سوموار لگی پر ہجوم قطاریں سائلین کو بڑی تعداد میں کووڈ 19 میں مبتلا کرنے کا سبب بن سکتی ہیں
وزیراعظم نے آج ہی اپنی ٹائیگر فورس کو فعال کرنے کے لیے خطاب فرمایا جس میں ساری انتظامی مشینری کو ہدایت دی گئی کہ وہ ٹائیگرز فورس کو ساتھ لے کر چلیں۔بادی النظر میں یہ ھدایت سرکاری ضلعی انتظامیہ پر ٹائیگر فورس کی برتری کے مترادف ہے۔
وزیراعظم نے فرمایا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کرونا کی تباہ کاریاں کم کرنے میں کامیاب رہے ہیں جبکہ اس عمل سے لاکھوں افراد کے لیے دال روٹی کا حصول مشکل ہوا ہے غربت اور بے روزگاری پر قابو پانے اور تجارتی سرگرمیوں کی بحالی کے لیے اب رفتہ رفتہ لاک ڈاؤن میں کمی لارہے ہیں۔ عوام احتیاطی ایس او پیز پر لاک ڈاؤن کی نرمی میں مکمل عمل کریں ورنہ لاک ڈاؤن سخت کردیں گے۔
سوال یہ ابھرتا ہے کہ کرونا سے تحفظ کی احتیاطی تدابیر کیا ہیں؟
اولین ترجیح سماجی فاصلہ ہے گھروں میں مقیم رہا جائے۔
دوم۔ بار بار صابن سے ہاتھ منہ دھوئے جائیں
فیس ماسک ا سینیٹاٰئزر کا استعمال کیا جائے۔ انتہائی ضروری کام کے لیے اگر گھر سے نکلنا پڑہے تو ہر فرد ایک دوسرے سے چھ فٹ کا فاصلہ رکھے وغیرہ وغیرہ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ جب وزراء کرونا کو عمومی ٹریفک حادثات کے برعکس کم جانی خطرناک بیان کریں
نادرا دفاتر کے باہر بے ھنگم ہجوم لگ رہا ہو تو کیا ایک پسماندہ تعلیمی ذہنی روئیے کی حامل سوسائٹی جہاں توکل کو ہر آفت کا شافی علاج مانا جائے وہاں کیا محض حکومت کی اپیل پر مجبور و مہقور افراد شناختی کارڈ میں نادرا کی اعلیٰ کارکردگی سے پیدا ہونے والے نقائص کی درستگی کے لیے سماجی فاصلے کی اہمیت ضرورت کو لازما کیونکر اپنائیں گے؟
شناختی کارڈز میں بائیو میٹرک کی خامی کا درستگی سہل و آسان طور پر ایسے مقامات پر نادرا کی موبائل ٹیمیں بجھوا کر کیا جاسکتا ہے جہاں احساس کی امداد تقسیم ہورہی ہو البتہ اس طرح کے فہمیدہ طرز عمل کے لیے احساس پروگرام میں انسانیت کے احترام اور آفت کے ایام کے تقاضوں کا اساس کا پایا جانا ضروری ہوگا۔
اس وقت سماجی فاصلے کے علاوہ کوئی دوسری حفاظتی موثر تدبیر موجود نہیں تو حکومت کو اس کا احساس کرنا چاہیے اور تمام اقدامات میں انسانی شرف کے اساس کو اولین ترجیح بنانا ہوگا۔
حکومت بے سمتی کی جن راہوں پہ گامزن ہے ان خطرات و خدشات کی گہری کھائیوں نظر آتی ہے اگر چشم بصیرت میں انا کی گرد نہ پڑی ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں