ہیرو کون؟


آج تین اہم شخصیات کو یاد کرنے کا دن ہے تاریخ انسانی میں محنت کی عظمت کو اُجاگر کرنے اور ایک نیا فلسفہ دینے والی شخصیت کارل مارکس کی آج 2 سو ویں سالگرہ ہے مارکس کے نظریہ کو ماننے والے آج بھی کروڑوں کی تعداد میں ہیں جبکہ سرمایہ داری نظام آج بھی مارکس کے نظریہ سے لرزہ براندام ہے۔
ایک اور شخصیت سندھ کے حکمران راجہ داہر کی موت کا دن ہے کل سے سندھی قوم پرست اسے یوم شہادت قرار دے کر انہیں خراج تحسین پیش کررہے ہیں راجہ داہر کا یوم وفات محمد بن قاسم کے ہاتھوں سندھ کی فتح کا دن بھی ہے برصغیر کے مسلمانوں کی مجبوری ہے کہ وہ محمد بن قاسم کو اپنا ہیرو تسلیم کریں اور یہ مانیں کہ برصغیر میں اسلام ان کی وجہ سے داخل ہوا اور فروغ پایا خاص طور پر پاکستانی مسلمان اگر محمد بن قاسم کو ہیرو نہ مانیں گے تو ”دوقومی نظریہ“ ختم ہوجاتا ہے جسے قیام پاکستان کی بنیاد تسلیم کیا جاتا ہے۔
بانی پاکستان سے ایک بات منسوب ہے کہ مہاتما گاندھی نے ان سے پوچھا کہ یہ دو قومی نظریہ کب بنا تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ جس دن پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔
بچپن میں ہم نصاب کی کتابوں میں پڑھتے تھے کہ بحیرہ عرب میں کشتیوں میں سوار مسلمانوں کو ہندو بحری قزاقوں نے لوٹا تھا اور خواتین کی بالیاں نوچی تھیں ان کی فریاد جب بغداد پہنچی تو امووی گورنر حجاج بن یوسف نے ہندو قزاقوں کی سرکوبی کے لئے محمد بن قاسم کی سربراہی میں مجاہدین کا ایک لشکر سندھ بھیجا جہاں پر ہندو راجہ داہر سے مقابلہ ہوا راجہ داہر مارے گئے اور یوں سندھ باب الاسلام بن گیا۔
جب ہم بڑے ہوئے اور تاریخ کا مطالعہ کیا تو کئی مبالغے سامنے آئے مثال کے طور پر حجاج بن یوسف ایک بے رحم اور سفاک حکمران تھے جو کچھ مختار ثففی نے کیا تھا وہ مسلسل اس کا بدلہ لے رہے تھے جس کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھاگ کر سندھ آئی اور راجہ داہر نے انہیں پناہ دیدی حجاج بن یوسف نے جو کچھ کیا اور کس طرح انہوں نے مکہ اور مدینہ لشکر بھیجے اوروہاں پر کیا کچھ کیا اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں جئے سندھ تحریک کے بانی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے راجہ داہر کو ہیرو اپنی دھرتی پر مر مٹنے والا بہادر انسان قرار دیا تھا جبکہ عوامی تحریک کے سربراہ رسول بخش پلیجو اپنے مختلف خطبات میں راجہ داہر کو سندھ دھرتی کا محافظ اور محمد بن قاسم کو بیرونی حملہ آور قرار دیتے تھے جبکہ غیر جانبدار مورخین کا کہنا ہے کہ جب حجاج بن یوسف سیدوں کا صفایا کرچکے تو انہیں اطلاع ملی کہ ایک قافلہ سندھ پہنچ گیا ہے اور راجہ داہر نے انہیں پناہ دی انہوں نے راجہ داہر کو خط لکھا کہ ان لوگوں کو ہمارے حوالے کیا جائے اس پر راجہ داہر نے کہا کہ میں ایک راجپوت ہوں اور جب راجپوت کسی کو پناہ دیتے ہیں تو سر کٹواتے ہیں ان پر آنچ نہیں آنے دیتے اس جواب پر حجاج بن یوسف نے اس کی سرکوبی کے لئے لشکر بھیجا۔
گزشتہ دو دنوں سے سوشل میڈیا پر راجہ داہر اور محمد بن قاسم کو لیکر سندھیوں اور دیگر لوگوں میں ایک بحث چھڑی ہوئی ہے پنجاب کے لوگ سندھیوں کو دائرہ اسلام سے خارج اور غدار کا لقب دے رہے ہیں جبکہ سندھی راجہ داہر کو شہیدوں کا سرتاج اور عرب ڈاکوؤں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والا حکمران گردان رہے ہیں یہ ایسی بحث ہے کہ اس کا کبھی اختتام نہیں ہوگا لہٰذا اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ تاریخی کتب تلاش کرکے مطالعہ کریں اور صحیح معلومات حاصل کریں یہ بحث اس وجہ سے شدت پکڑ رہی ہے کہ ان دنوں وفاق اور سندھ کے درمیان محاذ آرائی زوروں پر ہے سندھ سے ہمدردی رکھنے والے اس رسہ کشی کو تاریخ کے تناظر میں ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہیں اور سندھ پر زیادتیوں کا طویل سلسلہ گنوا رہے ہیں ان کا خیال ہے کہ عرب حملہ آوروں نے قبضہ کے بعد سندھ میں ڈیمو گرافک تبدیلی کی اس کے وسائل پر قبضہ کیا بعد ازاں وقفہ وقفہ سے سندھ پر حملے جاری رہے اور اس کے عوام کا استحصال جاری رہا حتیٰ کہ بلوچوں نے بھی اس پر قبضہ کرلیا حالانکہ بلوچوں نے سندھ کی زبان اور کلچر کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ وہ خود سندھی بن گئے انگریزوں سے جو آخری لڑائی 1843ء میانی کے مقام پر ہوئی اس میں ”مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں“ کا نعرہ ایک بلوچ جرنیل نے لگایا اور اسے ضابطہ تحریر میں دشمن یعنی انگریز لائے یہاں تک تو معاملہ خیر تھا لیکن تحریک پاکستان چلی تو سندھ واحد صوبہ تھا جس نے اس تحریک کی حمایت کی نہ صرف یہ بلکہ جی ایم سید نے سندھ اسمبلی میں پاکستان کے حق میں قرار داد بھی منظور کروائی یہ وہ وقت تھا جب پنجاب کی اشرافیہ انگریز کے ساتھ تھی اور جو موجودہ پاکستان ہے اس کے کسی اور صوبے نے تحریک پاکستان کی حمایت نہیں کی لیکن جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو سب سے بڑی قیمت سندھ کو چکانا پڑی لیاقت علی خان نے حلف اٹھاتے ہی وزیراعلیٰ خان بہادر محمد ایوب کھوڑو کو حکم دیا کہ ایک ملین مہاجرین کی آباد کاری کا بندوبست کیا جائے وزیراعلیٰ نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت صرف ایک لاکھ مہاجرین کی آباد کاری کا بندوبست کرے گی جس پر وزیراعظم ناراض ہوگئے اور 27 اپریل 1948ء کو گورنر جنرل نے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے وزیراعلیٰ کو برطرف کیا نئی حکومت نے کراچی کے گوٹھوں کو سرکاری ملکیت میں لیکر مقامی بلوچوں اور سندھیوں کو بے دخل کردیا اور یہ جو آج کا لیاقت آباد‘ مہاجر کیمپ‘ ناظم آباد‘ نئی کراچی‘پوری دیہہ‘اوکھیواری‘ ڈرگ روڈ کے علاقے ہیں یہاں پرسینکڑوں گوٹھ تھے انہیں ختم کرکے ہندوستان سے آنے والے پناہ گزینوں کے لئے مختص کردیا گیا کراچی کی 3 لاکھ آبادی اقلیت میں چلی گئی جبکہ خود کراچی کو بھی سندھ سے علیحدہ کرکے مرکزی حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا جی ایم سید کو غدار قرار دیدیا گیا جس پر انہوں نے کچھ عرصہ بعد جئے سندھ تحریک کی بنیاد ڈالی اور سندھو دیش کی وکالت کرنے لگے جب ون یونٹ بنایا گیا تو سندھ کی حیثیت ختم کردی گئی اور یہ 1970ء میں دوبارہ صوبہ بن گیا لیکن 1972ء میں برسر اقتدار آکر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے تئیں سندھ کو مین اسٹریم میں شامل کیا لیکن اس نے بھی سندھ کے وسائل مرکز کے لئے مختص کردیئے 1973ء کے آئین میں پنجاب کی نمائندگی کرتے ہوئے بھٹو نے وسائل کی تقسیم کی بنیاد آبادی کو قرار دیا جس کی وجہ سے پنجاب کی بالادستی قائم ہوگئی فوج کا تو پہلے سے تعلق پنجاب سے تھا مالی وسائل بھی اس کی حوالے ہوگئے اس لئے پنجاب ایک قوی الجہت سیاسی و عسکری دیو بن گیا اگرچہ سندھ میں آج بھی بھٹو کی جماعت برسر اقتدار ہے لیکن سندھ کی گیس اس کے تیل اور تین پورٹس پر مرکز کا کنٹرول ہے خود سندھ کے اندر بھوک اور ننگ کا راج ہے گزشتہ این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے سندھ اور بلوچستان کے وسائل بڑھ گئے لیکن یہاں کی صوبائی حکومتوں نے بدعنوانی اور کرپشن کی وجہ سے ان وسائل کو ضائع کردیا اس سے قطع نظر اگر مرکز نے سندھ میں چھیڑ چھاڑ جاری رکھی تو یہاں پر قوم پرستی کی دبی چنگاری دوبارہ بھرک اٹھے گی اور علیحدگی پسند رجحانات کو فروغ ملے گا جس سے اس صوبے میں آباد مختلف طبقات میں کشیدگی بڑھ جائے گی اور ماضی کی طرح ایک بار پھر فسادات کی فضاء پیدا ہوجائے گی کیونکہ یوپی اور سی پی سے آنے والوں کے ہیرو محمد بن قاسم اور سندھیوں کے ہیرو راجہ داہرہیں لگتا ہے آئندہ ایک دو عشروں میں سندھ کے اندر بھٹو کا سحر بھی ٹوٹ جائے گا اور سیاسی کارکنوں کی غالب اکثریت قوم پرستی کی تحریک شروع کردے گی اس تحریک کی راہ میں پہلے پیپلز پارٹی رکاوٹ تھی جبکہ اب حروں کے روحانی پیشوا پیر پگارا اس کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں سندھی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی‘ محترمہ بینظیر اور ان کے دو بھائیوں کے قتل کو ایک منفی تناظر میں دیکھیں گے جس دن پیپلز پارٹی کو یہ پکا یقین ہوجائے کہ وہ وفاق کی زنجیر نہیں رہی تو اس دن سندھ کی سیاست بدل جائے گی پیپلز پارٹی کو اب بھی یہ غلط فہمی ہے کہ ایک دن وہ پھر سے پنجاب میں عروج حاصل کرے گی لیکن اب ایسا ممکن نہیں کیونکہ پنجاب مقتدرہ کے ڈائریکٹ کنٹرول میں ہے وہاں کسی میں یہ سکت نہیں کہ وہ مقتدرہ کو چیلنج کرسکے۔
ن لیگ کی مثال سامنے ہے اس کے لیڈر نواز شریف قید و بند کی مشکلات سے خوفزدہ ہوکر لندن چلے گئے جبکہ ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف مقتدرہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں اپنے حالیہ انٹرویو میں موصوف نے یہ انکشاف کیاکہ 2018ء کے انتخابات کے موقع پر ان کا اور عمران خان کا مقابلہ تھا کہ مقتدرہ کس کے سر پر وزارت عظمیٰ کا تاج رکھے گی لیکن بڑے بھائی کے بیانیہ کی وجہ سے تاج عمران خان کے سرپر رکھ دیا گیا ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس ریاست میں انتخابات ڈھونگ ہوتے ہیں یہاں پر طاقت کے عناصر کی مرضی کہ کس کی کامیابی اور کس کی ناکامی کا اعلان کرے اگر الیکشن ہی جعلی ہیں تو کاہے کی جمہوریت کہاں کی پارلیمنٹ وزیراعظم اور آئین کی کیا وقعت اس ریاست میں یہ سلسلے جاری رہیں گے اور یہاں پر سیاسی و معاشی استحکام کبھی نہیں آئے گا اس کے باوجود بڑے حکمران اپنے تجربات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
Load/Hide Comments