بلوچستان پر شاطر افسران کا قبضہ


شطرنج کی بساط پر شطرنج کے کھلاڑی بڑے شاطر ہوتے ہیں ان کی ہر چال کے پیچھے ایک جال ہوتا ہے۔ اور ماہر کھلاڑی کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کی چالوں کو عام شائقین یا مخالف کھلاڑی سمجھ نہ سکے۔ وہ اپنے مہروں کی موو کو پلاننگ سے ایسے ترتیب دیتا ہے کہ جس سے اسے زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو۔ اور مخالف کھلاڑی کوشہہ مات ہو جائے۔ کیونکہ اگر مخالف کھلاڑی چالوں کو سمجھ جائے تو وہ اس سے بہتر چالیں چل سکتا ہے یوں جیتا ہوا کھیل ہار ابھی جاسکتا ہے۔ بلوچستان میں کچھ آفیسر ایسے ہیں جنہوں نے اسلام آباد یا پنجاب سے لینڈ کرتے ہی اپنے ذہن میں شطرنج کے کھیل جیسا ایک جال بنا ہوتا ہے۔ کہ کس طرح اہم پوسٹنگز لینی ہے اور پھر اوپر بیٹھی ہوئی سیاسی لیڈرشپ کے ذریعے اپنے مطلب کے بندے کھانے پینے والی جگہوں پر تعینات کروانے ہیں۔ اس کے لیے لابنگ کی جاتی ہے اور ہر طرح کے طریقے آزمائے جاتے ہیں۔ پہلے سے تعینات اور ان کے غیر قانونی کاموں میں رکاوٹ بننے والے اچھے افسروں کو ایک ایک کر کے ٹھکانے لگا دیتے ہیں۔ اور پھر اپنے گروپ کے افسران پیسے والی پوسٹوں پر قابض کرائے جاتے ہیں چاہے وہ جونیئر ہی کیوں نہ ہوں۔ ایک بات ہے کہ یہ قبضہ گیرافسر بے ایمانی میں ایمانداری پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ جب کسی بھی وجہ سے اس شطرنج کے کھلاڑی آفیسر کی اہم پوسٹ سے چھٹی ہوتی ہے تو وہ یہ کوشش کرتا ہے کہ پہلی اہم پوسٹ چلی گئی تو دوسری اہم پوسٹ پر قبضہ کیا جائے تاکہ حصہ ادھر ادھر نہ ہو جائے لیکن پھر حصہ دینے والے آفیسرز بھی کچھ ڈنڈی مارنا شروع کر دیتے ہیں جس پر اختلافات سر اٹھاتے ہیں اور خبریں لیک ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس طرح کا حال ہمارے کوئٹہ پیکج سے منسلک آفیسران کا ہے جہاں ایک دو نہیں اربوں کا پراجیکٹ ہے غالبا کوئٹہ پیکیج25 ارب کا تو ہے۔ اس میں مال بھی لاکھوں یا کروڑوں میں نہیں ایک آدھ ارب کا ہوگا۔ وہاں دل میں کچھ بے ایمانی آ ہی جاتی ہے۔ اور جھگڑوں کی خبریں بازار، گلی اور چوراہوں پر ڈسکس ہونے لگتی ہیں۔ چیف سیکرٹری کی سربراہی میں منعقد ہوئی اجلاس میں سب سے اہم ممبر سیکرٹری سی اینڈ ڈبلیو نے سرے سے شرکت ہی نہیں کی کیونکہ سرکاری ریکارڈ میں خانہ پوری کیلئے بتایا گیا کہ وہ ایک ضروری اسکیم کے وزٹ پر گئے ہوئے ہیں۔ اجلاس میں معلوم ہوا کہ جس پی ایم یو سے کوئٹہ پیکج کو چلایا جارہا ہے اسکا کوئی آبائی محکمہ ہی نہیں یعنی کوئی پرنسپل اکاؤنٹنٹگ آفیسر ہی نہیں۔ کمشنر کوئٹہ جو کہ اس پرواجیکٹ کے پی ڈی ہیں وہ آل ان آل یعنی مختار کل و جز ہیں۔ اس سے کمیشن میں حصہ دار لوگوں کو خیال آیا کہ یہ تو سراسر مروجہ قوانین کے خلاف ہے تو اب ایسے اجلاس بلاکر ان غیر قانونی اقدامات کو قانونی لبادہ پہنایا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کو پامال کیا گیا ہے جس میں عدالت واضح ہدایات دے چکی ہے کہ کسی بھی پروجیکٹ ڈائریکٹر کو تعینات کرنے سے پہلے مذکورہ پوسٹ مشتہر کی جائے اور اہل افراد کو تعینات کیا جائے چاہے انکا تعلق سرکار سے ہو یا اوپن میرٹ سے مگر ستم ظریفی کہ ایک خالص انجینئرنگ پروجیکٹ کا پی ڈی ڈی ایم جی کا ایک انتظامی افسر ہے جسکی انتظامی مہارت کا یہ حال ہے کہ پروجیکٹ کا ابھی تک کوئی والی وارث یا سرکردہ جیسے پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر کہتے ہیں انکا وجود سرے سے ہے ہی نہیں۔ اجلاس میں فیصلہ صادر ہوا کہ ابھی یہ پروجیکٹ محکمہ پی اینڈ ڈی کے زیر انتظام لایا جائے مگر اچانک خیال آیا کہ محکمہ مذکورہ کا آفیسر تو کافی تند و تیز اور قاعدے قانون والا ہے جب کوئلے کے کاروبار میں ہاتھ کالے کرنے کیلئے کوئی تیار نہ ہوا تو اپنے چہیتے اور ہمراز سکریڑی سی اینڈ ڈبلیوکو اسکا اب قانونی حصہ دار بنا دیا گیا جن کی منشاء سے کام کی استعداد سے محروم آفیسرکو پی ڈی لگایا گیا تھا اور یوں شراکت داروں نے میلہ لوٹ لیا وہ ایسے شخص نے جو اجلاس سے غیر حاضر بھی تھا۔ اجلاس میں سیکرٹری یو پی اینڈ ڈی نے صاف الفاظ میں واشگاف کروایا کہ جس انداز میں کوئٹہ پیکج چلایا جارہا ہے وہ سراسر پلاننگ کمیشن کی ہدایات کے بر عکس ہے۔ کوئٹہ کے ترقیاتی مسائل کا حل روڈوں کی کشادگی اور بچے کچھے نباتات کی بیخ کنی سے حل ہونے والا نہیں۔ اجلاس میں شہر کوٹف ٹائل میں بدلنے والے بابوکی پنجاب کے تجربات کی بازگشت بھی کافی سنائی دی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس پروجیکٹ کے تحت جس قدر خلاف قانون کام کرائے جا رہے ہیں جو کہ صرف اور صرف کاغذوں کا پیٹ بھرنا ہے سے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے کوئٹہ میں تمام تر سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کے شکار ہیں جن پر ابھی پچھلے مالی سال میں مرمت کے نام پر 28 کروڑ روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ آج اگر آپ میں سے اگر کوئی شخص ان روڈوں سے گزرتا ہے تو آپ کے لئے تو نتیجہ نکالنا آسان ہوگا کہ اس سے پہلے خراب حالت میں بنائے گئے روڈوں کی حالت یہ نہیں تھی کہ اس پیچ ورک کا کام اکھڑ نہیں گیا کیا وہاں پہ دوبارہ کھڈے نہیں بنے یہی کچھ اب کوئٹہ پروجیکٹ میں کیا جارہا ہے ائرپورٹ روڈ کوئٹہ پر کوئلہ پھاٹک سے کوئٹہ ائرپورٹ روڈ تک دونوں جانب ٹف ٹائل لگائے جا رہے ہیں جو کہ اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہے ان روڈوں کی ملکیت جو کہ این ایچ اے کی ہے پر صوبائی حکومت کے فٹ پاتھ بنانے کے پیچھے کیا عزائم ہیں جبکہ اپنے دائرہ اختیارر والی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کے شکار ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں کہ جو احتساب سے ماوراء ہیں یہ کون ہیں کہ جن سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جاتی کیا کوئی رہنمائی کر سکتا ہے کہ ایئرپورٹ پر صیحح سالم دیوار گرا کے اس کو دوبارہ بنانے کی کیا وجوہات تھیں اور کچھ حصے کو پلستر لگا کر دوبارہ تعمیر کردہ ظاہر کیا گیا ایسی بہت ساری مثالیں ہیں کوئٹہ شہر کے اندر کی یہی صورت حال ہے تب اگر آپ یہاں پر اعتراض اٹھاتے ہیں سوال کرتے ہیں تو کس سے پوچھا جائے کیا عام بلوچستانی کا یہ دعوی درست نہیں کہ اوپر سے نیچے تک سب لوگ ملے ہوئے ہیں؟ یہ کون لوگ ہیں کس طرح کا کام ہو رہا ہے؟ کہ شہر بھر میں جہاں پر سبزہ لگانا تھا وہاں پر ٹف ٹائٹل لگائے جارہے ہیں روڈوں کے درمیان جہاں درخت لگے ہیں کو اکھاڑ کر وہاں پر ٹائل لگائے جارہے ہیں سابق چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ قاضی فائز عیسی کی نشاندہی کے باوجوددو آئینی اداروں بلوچستان ہائی کورٹ اور بلوچستان اسمبلی کے درمیان واقع روڈ پر بھی سبزہ اکھاڑ کر ٹف ٹائل لگانا شروع کردئیے ہیں
٭٭٭
Load/Hide Comments