اے کوہنگ ء کوہِ قلات
عبدالقیوم بزدار
تاریخ اپنے آپ کودہرا رہی ہے
ایک بار پھر فیصلہ ہوجانیوالا ہے
قسمت و مقدر کافیصلہ جوکبھی ریاست کے چندافراد کرتے تھے اوراب بھی کرتے ہوں گے لیکن اس بار عوام ان کے ان فیصلوں کو مسترد کردیگی اورتاریخ نے بھی انہیں مستردکردیناہے
جیساکہ عوام نے 1968کوفیصلہ سنایا ہمیں سے ہماری رائے پوچھی جائے جسطر ح کشمیر میں آپ رائے دہی کے لیے کہہ رہے ہو لیکن نہیں پوچھاگیابلکہ حکومتی پالیسی یہاں انڈین پالیسی سے میل کھاتی تھی۔یہاں کے ڈوگرہ مہاراجہ کا کرداربلوچ سرداروں نے ادا کیا۔لیکن اب انہی سرداروں کی قومی ذمہ داری ہیں کہ وہ اس مسئلے کو حل کریں جس کی بنیادی وجہ ریاست کے ساتھ نامناسب معاھدہ ہے بلکہ صوبہ پنجاب کے ساتھ غلط الحاق ہے جودھونس ،جبر اورلالچ پرمبنی تھی۔جیسے عوام نے مسترد کیا اوراس کیخلاف جدوجہد کی اورحکومتی منجمینٹ کوخطوط کے زریعے اپنے خدشات کا اظہارکیا لیکن بے سودآج ہم بھی یہی خدشات کا اظہار کررہے ہیں جوہمارے بزرگوں نے کیے جنہیں کسی نے نہیں سنابلکہ ان کے کانوں پرجوں تک نہ رینگی ۔لیکن آج پھروقت صدا ہے آج پھرماضی کے بزرگوں کی قبروں میں ان کی روحیں پکارپکارکر کہہ رہی ہیں
کہ میرے بیٹو اوربیٹیو!!!
دھرتی پرجوفیصلہ ہمارے زمانے میں ہوا وہ مسلط کردہ ہے وہ ایک جبرانہ فیصلہ تھاجس نے ہمیں عالم ہست وبودمیں شناخت کی عالمگیریت سے محروم کیا اورہمیں اپنی شناخت سے بے شناخت ہوناپڑاجبر کے سائے میں ہم نے جدوجہد کی ،یہی جدوجہدجوآپ کررہے ہو ہم نے کی ہم نے قریہ قریہ نگرنگر پیغام بلوچ و بلوچیت کا احیاکیا جبکہ سرکاری سطح پرمسلسل نظرانداز ہوتے رہے مگراب بھی ہوں گے شنیدیہی ہے
یہاں جبرہے،میڈیاخبرسے بےخبرہے
تومیرے بیٹو اوربیٹیو!!!آٹھو !لکھو! اور
تم خودخبربن جاؤ
اسلم خان ملغانی کی کتاب”سیردیہات“بن جاؤ،کوڑاخان کی تلوار کی مانندشفاف ہوجاؤ،نصیرا گشتی کی مزاحمت کا عنوان بنو ،حان بند،چھیذغ اور گمبند کے نگہباں بنو
اُٹھو!!!وطن کے جیالے ،تمہیں سے ہی منزل ہے ،تمہیں سے ہی ہزارہاچشمے پھوٹنا ہے۔تمہیں ہی پلیہ کھوسہ کی یادداشت کاآئینہ دارہو ،تو سردارحمل کا شاہکار ہو۔تمہیں ہی سے۔اسد خان نتکانی کا سبق زیست زندہ رہیگی تو کوہ سلیمان کے شہدا کی عظمت تابندہ رہیگی اگرآج نہ اُٹھیں توصدیوں تک نہ آٹھ پاؤگئے اوراپنی شناخت گنواؤ گے۔اس لیے ضروری ہے کہ تم سب بلوچ بنو نہ کہ مزاری ،بگٹی ،لغاری ،بزدار ،قیصرانی اور لنڈ بن کرایک دوسرے کو کاٹو اورقبائلیت کوفروغ دوبلکہ متحد ہوکر آگے بڑھو اورشیربازمزاری کی سوچ بنو جس نے کہاتھا کہ ہمیں شناخت چاہیے ہمیں ڈیرہ جات اور جیکیب آباد کی بلوچستان میں الحاق چاہیے ہم انگریزسامراج کی ان مصنوعی لکیروں کونہیں مانتے بلکہ ہم بلوچستان میں شامل ہوناچاہتے ہیں کیونکہ یہ ساراعلاقہ بلوچ آبادی پرمشتمل ایک وسیع و عریض خطے میں ہم بے شناخت نہیں رہناچاہتے۔بلکہ ہم شناخت چاہتے ہیں
میرے فرزندو!! جب ہم تھے تب سرائیکی نہ تھے بلکہ بلوچ تھے اب تم ہوکہ تمہیں زبان کی بنیادپرتقسیم کرنے میں کامیاب ہوگئے
مگراس تقسیم کوتمہیں تفریق کرناہے اورزبان کوزبان ہی رہنے دیں اورآگے بڑھیں منزل قریب ہے
اُمیدہے کہ تم اسے پالوگئےاُٹھو!!! اپنی تاریخ خود لکھو اورایک نئی تاریخ رقم کروتاکہ آئندہ آنےوالی نسلیں یہ طعنہ نہ دیں کہ ہم بلوچ تھے مگراسلاف کی غلطی سےسرائیکی بن گئے۔جسطرح تم اپنی محفلوں میں ہمیں ہی کہتےہوکہ مصیبت چھوڑگئے اورشناخت بھی اپنے ساتھ قبروں میں لے گئےہمارے لیے بس مصیبت اورسرائیکی کاٹھپہ ہی چھوڑگئےاس لیے ضروری ہے کہ تم متحدہوجاؤ اورڈی جی خان اورراجن پور کی تاریخ کاعنوان ہی بدل دو اورکہہ دو
دریائے سندھ تامکران
بلوچستان بلوچستان
کوہنگ ءکوہ قلات
کس ءپت ء میراث نہ ے
اماگوں سگاراں گپتنگت
میرعبداللہ خان