نظریاتی اثاثہ مئی 7, 2020مئی 7, 2020 0 تبصرے انور ساجدیپاکستان کے ثقافتی اورنظریاتی محاذ پر ایک اور زید حامد اور اوریا مقبول جان پیدا ہوا ہے یہ موصوف ہیں ڈرامہ نگار خلیل الرحمن قمران کاایک ڈرامہ کیا ہٹ ہوا کہ وہ داڑھی مونچھ کے بغیر نہ صرف مولانا بن گئے بلکہ خواتین کی تذلیل کرکے اور انہیں حقیر قراردے کر ایک خاص طبقہ فکر کے رہنما بن گئے انہیں ڈرامہ کے بعد شہرت اس وقت ملی جب انہوں نے ماروی سرمد کو ایک ٹی وی ٹاک شو میں گالیاں دیں اگرچہ اپنے ڈرامے میں انہوں نے گنگا جمنی تہذیب کی نمائندگی کی جیسے کہ اور ڈراموں میں ہوتا ہے پاکستان بننے کے بعد اس تہذیب کوریڈیو کے ذریعے نمایاں کیاجاتا تھا جب ٹی وی آیا تو اسکے ڈرامے اور دیگر پروگرام اسی تہذیب کی نمائندگی کرتے تھے اور جب سے پرائیویٹ چینلوں نے اپنے ڈراموں کی پروڈکشن شروع کی ہے انکے سارے ڈرامے ان میں دکھائے جانے والے لباس وضع قلع زیورات نشست وبرخاست ایک خاص تہذیبی فکر کی نمائندگی کرتی ہیں حالانکہ جس زمین پر یہ ملک قائم ہے اسکی اپنی تہذیب اوراقدار سے اس نئی تہذیب کااتنا خاص تعلق نہیں ہے پی ٹی وی نے اپنے عروج کے زمانے میں جو تاریخی ڈرامے بنائے ان کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ ان میں سے بیشتر کی تشکیل نسیم حجازی کے ناولوں کے پلاٹ پر ہوئی تھی۔جنہوں نے متھ ادر فکشن کاسہارا لیا تھا کافی عرصہ سے لوگ انہی کی ناولوں کواسلامی تاریخ سمجھتے تھے ملک بننے کے بعد ہی حکمرانوں نے فیصلہ کیا تھا کہ تاریخ مسخ کرکے پیش کرنی ہے اور اس ملک کے لوگوں کو ایک خیالی دنیا میں لے جانا ہے تاکہ انکابرین واش ہوجائے اوپر سے نصاب بنانا بھی ایسے لوگوں کے سپرد کیا گیا جو تازہ تازہ گنگا جمنی تہذیبی سے آئے تھے انہوں نے جو تصویر پیش کی اسکے مطابق ہندوستان کے مسلمان ان حملہ آوروں کے وارث یا انکی اولادیں ہیں جو عرب ایران اور وسط ایشیاء سے آئے تھے اور جنہوں نے کفرستان ہند میں اسلام پھیلایا حالانکہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام ان حملہ آوروں کی وجہ سے نہیں پھیلا بلکہ تاجروں اور صوفیا کے ذریعے پھیلا یہ ضرور ہے کچھ مقامی لوگ بھی مسلمان ہوئے تھے لیکن ہندومت کو بہت لوگوں نے ترک کیا8سو برس تک مسلمانوں کی حکومت رہی لیکن کبھی ہندواکثریت اقلیت میں تبدیل نہ ہوئی اکبراعظم کے وقت میں تقریباً پورا ہند انکے زیر نگین آگیا تھا لیکن انہوں نے جبر سے کسی کو مسلمان نہیں بنایا اورنگ زیب نے بڑے علاقے تاراج کئے زمینوں پرٹیکس لگایا مظالم ڈھائے لیکن انکے اقدامات سے لوگ دائرہ اسلام میں نہیں آئے یہ ضرور ہوا کہ افغانوں،مغلوں اور ترک حکمرانوں نے خود ہند کی تہذیب کوقبول کیا حتیٰ کہ اپنی زبان کو ترک کرکے ہند کی زبان کو اپنایا۔بڑے فخر سے کہا جاتا ہے کہ محمود غزنوی نے سومنات کے مندر پر17بار حملے کئے لیکن کوئی نہیں بتاتا کہ اسلام پھیلانے کیلئے ایک حملے کی ضرورت تھی موصوف کو17حملے کرنے کی زحمت کیوں کرناپڑی ان کا مقصد لوٹ مار تھاہند کے مسلمان طویل عرصہ تک خود کو ایلیٹ کلاس سمجھتے تھے اور انہیں خوش فہی تھی کہ انکے اسلاف حکمران رہے ہیں لیکن انگریزوں نے آکر انہیں خواب سے جگایا اور بتادیاکہ وہ غلامی کی زندگی گزاریں انگریزوں نے بہادرشاہ ظفر کو انکی بزدلی کی جو سزادی وہ اس وقت کے ہندی مسلمانوں پر نقش ہوکررہ گیا۔یہ تو ایک طویل قصہ ہے مختصر یہ کہ جب پاکستان قائم ہوا تو طے پایا تھا کہ بنگال اور پنجاب تقسیم ہورہے ہیں اس لئے نقل مکانی ان دونوں میں ہی ہوگی لیکن درمیان میں لیاقت علی خان اپنے لوگ بھی لائے آبادی کا یہ انخلاء سیاسی اور معاشی تبدیلی کے علاوہ کلچر کے حوالے سے بھی ایک بڑی تبدیلی تھی۔مشرقی پنجاب سے جولوگ مغربی پنجاب میں آئے تو کلچر پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا کیونکہ وہ ایک سرزمین تھی لوگ ایک جیسی تہذیب سے وابستہ تھے ہاں یہ ضرور ہوا کہ جو حضرات امرتسر،جالندھر،پٹیالہ اور لدھیانہ سے آئے تھے ان پر اردو کا خبط سوار تھا انہوں نے مقامی پنجابیوں کوبتانا شروع کردیا کہ پنجابی ان پڑھ گنواروں کی زبان ہے لہٰذا آئندہ اردو زبان بولی جائے اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر پاکستانی پنجاب کی مڈل کلاس نے اردو کو اپنایا لیکن سندھ پراس یلغار کے زیادہ دور اس اثرات سے مرتب ہوئے کیونکہ اردو بولنے والے اپنے ساتھ اپنی زبان کے علاوہ بہت کچھ لائے تھے جن میں ان کا مخصوص لباس انکے مصالحے دار کھانے،پاندان کی تہذیب،کرتاپاجامہ،…… عورتوں کا الگ لباس شادی بیاہ کی مختلف رسومات چونکہ انکی تعداد زیادہ تھی اس لئے کراچی کا پرانا کلچر بدل گیا جو نئے کاروبار کھولے گئے وہ انکی ضروریات کے مطابق تھے ابتداء میں یہ لوگ کراچی کے بلوچوں اور سندھ کے سندھیوں کووحشی اور غیرمہذب سمجھتے تھے وہ خود کو ان سے الگ اور برتر گردانتے تھے چونکہ سرکاری سطح پر انکی زبان رائج کردی گئی خوابوں خیالوں پر مشتمل نصاب بنایا گیا جس کاسندھ بلوچستان اور پختونخوا سے کوئی تعلق نہیں تھا یہ لوگ مقامی لوگوں سے رشتے ناطے جوڑنے سے بھی گریز کرتے تھے۔قیام پاکستان کے ابتدائی سالوں میںایک سکہ بند اردو مذہبی اسکالرعلامہ رشیدترابی نے جب اپنیبیٹی کا رشتہ خیرپور کے بلوچ نواب سے طے کیا تو کراچی شہر میں ایک کہرام برپا ہوگیا تھا اور علامہ صاحب کو بڑی وضاحتیں دینا پڑی تھیں موجودہ وقت میں وہ ماحول نہیں رہا کیونکہ اردو بولنے جان گئے ہیں کہ انہوں نے کہیں اور نہیں جانا ہے اور ہمیشہ کیلئے سندھ میں رہنا ہے اس لئے بڑے پیمانے پر رشتے ناطے ہورہے ہیں اگرچہ اس تہذیبی ارتقا کوپاکستان کی حکومتوں نے روکنے کی بہت کوشش کی اور سندھ پر غلبہ کیلئے ریاستی سطح پران کا ساتھ دیا یہ پالیسی اب بھی جاری ہے لیکن توقع یہی ہے کہ آبادیکایہ موثر حصہ بالآخر مدغم ہوجائے گاپاکستان میں فیشن کا ایک برانڈعامر عدنان ہے جوہر شہر میںموجود ہے یہ صرف ہند کی اشرافیہکیلئے لباس تیار کرتا ہے ایکدن ایک پٹھان اسکے شوروم میںآیا تو وہ برانڈ منیجر سے کہہ رہا تھا کہآپ اپنے برانڈ میں تبدیلی لائیںکیونکہ کراچی اب صرف ہندوستانیوں کاشہر نہیں یہاں پر لاکھوں پٹھاناوربلوچ بھی آباد ہیں جنکی تعدادوقت کے ساتھ بڑھتی جائیگی اگر آپنے ان کا لباس نہیں بنایا توایک دن آپ ناکامی سے دوچار ہوجائیں گے۔جب میرظفراللہ خان جمالی وزیراعظم بنےتو پورے اسلام آباد میں بلوچی شلوارسینے والا کوئی ٹیلر نہیں تھا میر صاحبنے ایک ٹیلرکوبلاکر بتایا کہ یہ شلوارکس طرحبنتی ہے اسکے بعد ہی ان کالباس اسلام آباد میں سلنے لگاہندوستان سے آنے والے اگرچہ اپنے اسلاف کوعرب اور وسط ایشیاء سے آنے والے لشکریسمجھتے ہیں لیکن انکی شادی بیاہ کیتمام رسومات ہندووانہ ہیں ایکنکاح کے سوااورکوئی اسلامی رسمشامل نہیں ہے خاص طور پر عورتوں کیملبوسات کاتعلق گنگا جمنی تہذیب سے ہےپاکستان میں تاریخ کومسخ کرکے جس طرحایک جعلی نظریہ اور جعلی بیانیہ گھڑا گیااسکا کچھا چٹا کھل گیا ہے لیکن اسکےباوجود حکمران اس میں تبدیلی کیلئے تیار نہیںہیں موجودہ نصاب میں وہ تمام حملہ آور شاملہیں جنہوں نے ہندوستان کو تاراج کیاتھاحکمران انہیں ہیروبناکر پیش کررہے ہیںاولین ہیرو تو محمد بن قاسم ہیں اسکے بعدمحمود غزنوی سے لیکر احمد شاہ ابدالی تکپورا نصاب بھرا پڑا ہے جس سرزمین پرپاکستان قائم ہے ایسے لگتا ہے کہ یہ بانجھتھی اور اس نے کبھی ہیرو پیدا نہیں کئے۔میٹرک سے لیکراوپر تک کی کلاسوں میںمسیورکے حکمران ٹیپوسلطان کوبڑا ہیروبناکرپیش کیاجاتا ہے لیکن انہی کی طرح قلاتکے حکمران محراب خان نے انگریزوں کامقابلہ کرکے شہادت پائی تھی لیکن ان کاکوئی ذکر نہیں ہے ہزاروں پختونوں نےانگریزوں سے لڑائی لڑی تھیمجال ہے جو کسی شخصیت کاذکر ہوخانہ پری کیلئے خوشحال خان خٹکاور رحمان بابا کو شامل کیا گیا ہے۔ہمارے حکمرانوں کا تعلق اگرچہ پنجاب سے ہے لیکن انگریزوں کے ہاتھوں پھانسی چڑھنے والے بھگت سنگھ اور ساتھیوں کا نام شجرممنوع ہے نہ رائے احمد خان کھرل کا ذکر ہے اور نہ دُلا بھٹی کاحکمران خائف ہیں کہ اگر اس سرزمین کےلوگوں کو بڑھاوا دیاگیا تو نہ جانے کیاہوگاضیاء الحق نے تو بڑے بڑے علماء تیار کئے تھےجو بڑے اداروں میں جاکر لیکچر دیتے تھےیہ لوگ ایک طرف جہاد پر زور دیتے تھے اوردوسری جانب غیر ملکی حملہ آوروں کوہیروظاہرکرکے انکی پیروی کی تلقین کرتے تھےان علماء میں اسرار احمد طاہرالقادری،مولاناسمیع الحق اور دیگرشامل تھے۔جبکہ موجودہدور میں مولاناطارق جمیل اور زید حامدکویہ فضیلت حاصل ہےیعنی مسخ شدہ تاریخ پرزور کا سلسلہجاری ہے اصل حقائق چھپائے جارہےہیں پاکستان میں ڈاکٹر مبارک علی وہپہلے اسکالر ہیں کہ انہوں نے برصغیر کیصحیح تاریخ پیش کرنے کی کوشش کیاسی وجہ سے انکے لئے سختناپسندیدگی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔اگرکسی ریاست کی اساس جھوٹ اورمسخ شدہ حقائق پر ہواسکا ایک حقیقتپسندانہ نظریہ کیسے تشکیل دیاجاسکتاہے۔ڈرامہ نگار خلیل الرحمن قمر جی این اینٹی وی کے اینکر کوجاہل احمق اورنہ جانے کن کن القابات سے نوازرہے تھے اس پروگرام میں ڈاکٹر مبارک علیبھی موجود تھے لگتا ہے کہ یہ موصوفجلد ڈرامہ کے ساتھ ساتھ ایک نظریاتیاثاثہ قرار دیئے جانے والے ہیں۔٭٭٭٭٭٭٭٭ Share this:Click to share on Twitter (Opens in new window)Click to share on Facebook (Opens in new window)Click to share on WhatsApp (Opens in new window)Click to print (Opens in new window)