نظریاتی اثاثہ

انور ساجدی
پاکستان کے ثقافتی اورنظریاتی محاذ پر ایک اور زید حامد اور اوریا مقبول جان پیدا ہوا ہے یہ موصوف ہیں ڈرامہ نگار خلیل الرحمن قمران کاایک ڈرامہ کیا ہٹ ہوا کہ وہ داڑھی مونچھ کے بغیر نہ صرف مولانا بن گئے بلکہ خواتین کی تذلیل کرکے اور انہیں حقیر قراردے کر ایک خاص طبقہ فکر کے رہنما بن گئے انہیں ڈرامہ کے بعد شہرت اس وقت ملی جب انہوں نے ماروی سرمد کو ایک ٹی وی ٹاک شو میں گالیاں دیں اگرچہ اپنے ڈرامے میں انہوں نے گنگا جمنی تہذیب کی نمائندگی کی جیسے کہ اور ڈراموں میں ہوتا ہے پاکستان بننے کے بعد اس تہذیب کوریڈیو کے ذریعے نمایاں کیاجاتا تھا جب ٹی وی آیا تو اسکے ڈرامے اور دیگر پروگرام اسی تہذیب کی نمائندگی کرتے تھے اور جب سے پرائیویٹ چینلوں نے اپنے ڈراموں کی پروڈکشن شروع کی ہے انکے سارے ڈرامے ان میں دکھائے جانے والے لباس وضع قلع زیورات نشست وبرخاست ایک خاص تہذیبی فکر کی نمائندگی کرتی ہیں حالانکہ جس زمین پر یہ ملک قائم ہے اسکی اپنی تہذیب اوراقدار سے اس نئی تہذیب کااتنا خاص تعلق نہیں ہے پی ٹی وی نے اپنے عروج کے زمانے میں جو تاریخی ڈرامے بنائے ان کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ ان میں سے بیشتر کی تشکیل نسیم حجازی کے ناولوں کے پلاٹ پر ہوئی تھی۔جنہوں نے متھ ادر فکشن کاسہارا لیا تھا کافی عرصہ سے لوگ انہی کی ناولوں کواسلامی تاریخ سمجھتے تھے ملک بننے کے بعد ہی حکمرانوں نے فیصلہ کیا تھا کہ تاریخ مسخ کرکے پیش کرنی ہے اور اس ملک کے لوگوں کو ایک خیالی دنیا میں لے جانا ہے تاکہ انکابرین واش ہوجائے اوپر سے نصاب بنانا بھی ایسے لوگوں کے سپرد کیا گیا جو تازہ تازہ گنگا جمنی تہذیبی سے آئے تھے انہوں نے جو تصویر پیش کی اسکے مطابق ہندوستان کے مسلمان ان حملہ آوروں کے وارث یا انکی اولادیں ہیں جو عرب ایران اور وسط ایشیاء سے آئے تھے اور جنہوں نے کفرستان ہند میں اسلام پھیلایا حالانکہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام ان حملہ آوروں کی وجہ سے نہیں پھیلا بلکہ تاجروں اور صوفیا کے ذریعے پھیلا یہ ضرور ہے کچھ مقامی لوگ بھی مسلمان ہوئے تھے لیکن ہندومت کو بہت لوگوں نے ترک کیا8سو برس تک مسلمانوں کی حکومت رہی لیکن کبھی ہندواکثریت اقلیت میں تبدیل نہ ہوئی اکبراعظم کے وقت میں تقریباً پورا ہند انکے زیر نگین آگیا تھا لیکن انہوں نے جبر سے کسی کو مسلمان نہیں بنایا اورنگ زیب نے بڑے علاقے تاراج کئے زمینوں پرٹیکس لگایا مظالم ڈھائے لیکن انکے اقدامات سے لوگ دائرہ اسلام میں نہیں آئے یہ ضرور ہوا کہ افغانوں،مغلوں اور ترک حکمرانوں نے خود ہند کی تہذیب کوقبول کیا حتیٰ کہ اپنی زبان کو ترک کرکے ہند کی زبان کو اپنایا۔بڑے فخر سے کہا جاتا ہے کہ محمود غزنوی نے سومنات کے مندر پر17بار حملے کئے لیکن کوئی نہیں بتاتا کہ اسلام پھیلانے کیلئے ایک حملے کی ضرورت تھی موصوف کو17حملے کرنے کی زحمت کیوں کرناپڑی ان کا مقصد لوٹ مار تھاہند کے مسلمان طویل عرصہ تک خود کو ایلیٹ کلاس سمجھتے تھے اور انہیں خوش فہی تھی کہ انکے اسلاف حکمران رہے ہیں لیکن انگریزوں نے آکر انہیں خواب سے جگایا اور بتادیاکہ وہ غلامی کی زندگی گزاریں انگریزوں نے بہادرشاہ ظفر کو انکی بزدلی کی جو سزادی وہ اس وقت کے ہندی مسلمانوں پر نقش ہوکررہ گیا۔یہ تو ایک طویل قصہ ہے مختصر یہ کہ جب پاکستان قائم ہوا تو طے پایا تھا کہ بنگال اور پنجاب تقسیم ہورہے ہیں اس لئے نقل مکانی ان دونوں میں ہی ہوگی لیکن درمیان میں لیاقت علی خان اپنے لوگ بھی لائے آبادی کا یہ انخلاء سیاسی اور معاشی تبدیلی کے علاوہ کلچر کے حوالے سے بھی ایک بڑی تبدیلی تھی۔مشرقی پنجاب سے جولوگ مغربی پنجاب میں آئے تو کلچر پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا کیونکہ وہ ایک سرزمین تھی لوگ ایک جیسی تہذیب سے وابستہ تھے ہاں یہ ضرور ہوا کہ جو حضرات امرتسر،جالندھر،پٹیالہ اور لدھیانہ سے آئے تھے ان پر اردو کا خبط سوار تھا انہوں نے مقامی پنجابیوں کوبتانا شروع کردیا کہ پنجابی ان پڑھ گنواروں کی زبان ہے لہٰذا آئندہ اردو زبان بولی جائے اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر پاکستانی پنجاب کی مڈل کلاس نے اردو کو اپنایا لیکن سندھ پراس یلغار کے زیادہ دور اس اثرات سے مرتب ہوئے کیونکہ اردو بولنے والے اپنے ساتھ اپنی زبان کے علاوہ بہت کچھ لائے تھے جن میں ان کا مخصوص لباس انکے مصالحے دار کھانے،پاندان کی تہذیب،کرتاپاجامہ،…… عورتوں کا الگ لباس شادی بیاہ کی مختلف رسومات چونکہ انکی تعداد زیادہ تھی اس لئے کراچی کا پرانا کلچر بدل گیا جو نئے کاروبار کھولے گئے وہ انکی ضروریات کے مطابق تھے ابتداء میں یہ لوگ کراچی کے بلوچوں اور سندھ کے سندھیوں کووحشی اور غیرمہذب سمجھتے تھے وہ خود کو ان سے الگ اور برتر گردانتے تھے چونکہ سرکاری سطح پر انکی زبان رائج کردی گئی خوابوں خیالوں پر مشتمل نصاب بنایا گیا جس کاسندھ بلوچستان اور پختونخوا سے کوئی تعلق نہیں تھا یہ لوگ مقامی لوگوں سے رشتے ناطے جوڑنے سے بھی گریز کرتے تھے۔
قیام پاکستان کے ابتدائی سالوں میں
ایک سکہ بند اردو مذہبی اسکالر
علامہ رشیدترابی نے جب اپنی
بیٹی کا رشتہ خیرپور کے بلوچ نواب سے طے کیا تو کراچی شہر میں ایک کہرام برپا ہوگیا تھا اور علامہ صاحب کو بڑی وضاحتیں دینا پڑی تھیں موجودہ وقت میں وہ ماحول نہیں رہا کیونکہ اردو بولنے جان گئے ہیں کہ انہوں نے کہیں اور نہیں جانا ہے اور ہمیشہ کیلئے سندھ میں رہنا ہے اس لئے بڑے پیمانے پر رشتے ناطے ہورہے ہیں اگرچہ اس تہذیبی ارتقا کوپاکستان کی حکومتوں نے روکنے کی بہت کوشش کی اور سندھ پر غلبہ کیلئے ریاستی سطح پران کا ساتھ دیا یہ پالیسی اب بھی جاری ہے لیکن توقع یہی ہے کہ آبادی
کایہ موثر حصہ بالآخر مدغم ہوجائے گا
پاکستان میں فیشن کا ایک برانڈ
عامر عدنان ہے جوہر شہر میں
موجود ہے یہ صرف ہند کی اشرافیہ
کیلئے لباس تیار کرتا ہے ایک
دن ایک پٹھان اسکے شوروم میں
آیا تو وہ برانڈ منیجر سے کہہ رہا تھا کہ
آپ اپنے برانڈ میں تبدیلی لائیں
کیونکہ کراچی اب صرف ہندوستانیوں کا
شہر نہیں یہاں پر لاکھوں پٹھان
اوربلوچ بھی آباد ہیں جنکی تعداد
وقت کے ساتھ بڑھتی جائیگی اگر آپ
نے ان کا لباس نہیں بنایا تو
ایک دن آپ ناکامی سے دوچار ہوجائیں گے۔
جب میرظفراللہ خان جمالی وزیراعظم بنے
تو پورے اسلام آباد میں بلوچی شلوار
سینے والا کوئی ٹیلر نہیں تھا میر صاحب
نے ایک ٹیلرکوبلاکر بتایا کہ یہ شلوارکس طرح
بنتی ہے اسکے بعد ہی ان کا
لباس اسلام آباد میں سلنے لگا
ہندوستان سے آنے والے اگرچہ اپنے اسلاف کو
عرب اور وسط ایشیاء سے آنے والے لشکری
سمجھتے ہیں لیکن انکی شادی بیاہ کی
تمام رسومات ہندووانہ ہیں ایک
نکاح کے سوااورکوئی اسلامی رسم
شامل نہیں ہے خاص طور پر عورتوں کی
ملبوسات کاتعلق گنگا جمنی تہذیب سے ہے
پاکستان میں تاریخ کومسخ کرکے جس طرح
ایک جعلی نظریہ اور جعلی بیانیہ گھڑا گیااس
کا کچھا چٹا کھل گیا ہے لیکن اسکے
باوجود حکمران اس میں تبدیلی کیلئے تیار نہیں
ہیں موجودہ نصاب میں وہ تمام حملہ آور شامل
ہیں جنہوں نے ہندوستان کو تاراج کیاتھا
حکمران انہیں ہیروبناکر پیش کررہے ہیں
اولین ہیرو تو محمد بن قاسم ہیں اسکے بعد
محمود غزنوی سے لیکر احمد شاہ ابدالی تک
پورا نصاب بھرا پڑا ہے جس سرزمین پر
پاکستان قائم ہے ایسے لگتا ہے کہ یہ بانجھ
تھی اور اس نے کبھی ہیرو پیدا نہیں کئے۔
میٹرک سے لیکراوپر تک کی کلاسوں میں
مسیورکے حکمران ٹیپوسلطان کوبڑا ہیروبناکر
پیش کیاجاتا ہے لیکن انہی کی طرح قلات
کے حکمران محراب خان نے انگریزوں کا
مقابلہ کرکے شہادت پائی تھی لیکن ان کا
کوئی ذکر نہیں ہے ہزاروں پختونوں نے
انگریزوں سے لڑائی لڑی تھی
مجال ہے جو کسی شخصیت کاذکر ہو
خانہ پری کیلئے خوشحال خان خٹک
اور رحمان بابا کو شامل کیا گیا ہے۔
ہمارے حکمرانوں کا تعلق اگرچہ پنجاب سے ہے لیکن انگریزوں کے ہاتھوں پھانسی چڑھنے والے بھگت سنگھ اور ساتھیوں کا نام شجرممنوع ہے نہ رائے احمد خان کھرل کا ذکر ہے اور نہ دُلا بھٹی کا
حکمران خائف ہیں کہ اگر اس سرزمین کے
لوگوں کو بڑھاوا دیاگیا تو نہ جانے کیاہوگا
ضیاء الحق نے تو بڑے بڑے علماء تیار کئے تھے
جو بڑے اداروں میں جاکر لیکچر دیتے تھے
یہ لوگ ایک طرف جہاد پر زور دیتے تھے اور
دوسری جانب غیر ملکی حملہ آوروں کوہیرو
ظاہرکرکے انکی پیروی کی تلقین کرتے تھے
ان علماء میں اسرار احمد طاہرالقادری،مولانا
سمیع الحق اور دیگرشامل تھے۔جبکہ موجودہ
دور میں مولاناطارق جمیل اور زید حامد
کویہ فضیلت حاصل ہے
یعنی مسخ شدہ تاریخ پرزور کا سلسلہ
جاری ہے اصل حقائق چھپائے جارہے
ہیں پاکستان میں ڈاکٹر مبارک علی وہ
پہلے اسکالر ہیں کہ انہوں نے برصغیر کی
صحیح تاریخ پیش کرنے کی کوشش کی
اسی وجہ سے انکے لئے سخت
ناپسندیدگی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔
اگرکسی ریاست کی اساس جھوٹ اور
مسخ شدہ حقائق پر ہواسکا ایک حقیقت
پسندانہ نظریہ کیسے تشکیل دیاجاسکتاہے۔
ڈرامہ نگار خلیل الرحمن قمر جی این این
ٹی وی کے اینکر کوجاہل احمق اور
نہ جانے کن کن القابات سے نواز
رہے تھے اس پروگرام میں ڈاکٹر مبارک علی
بھی موجود تھے لگتا ہے کہ یہ موصوف
جلد ڈرامہ کے ساتھ ساتھ ایک نظریاتی
اثاثہ قرار دیئے جانے والے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں