قومی اسمبلی کا اجلاس کورم اور آئین؟؟

راحت ملک
حکومت نے بلاآخر قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے پر آمدگی ظاہر کر دی ہے گزشتہ روز کل جماعتی پارلیمانی کمیٹی کے ساتھ گفت و شنید کے بعد طے پایا کہ کرونا وباء کی وجہ سے اجلاس کا انعقاد خاص انداز میں کیا جائے گا یہ نقطہ درست ہے تاہم اجلاس میں شرکاء کی تعداد محدود رکھنے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے طے پایا کہ ہر جماعت قومی اسمبلی میں اپنی عددی حیثیت کے تناسب سے مخصوص اجلاس کے لیے شرکاء کا تعین کرنے گی یہ اجلاس میں وقفہ سوالات نہیں کیا جائے گا نہ ہی کوئی تحریک استحقاق پیش ہوگی تحریک التوا یا توجہ دلاو نوٹس بھی نہیں دیا جاسکے گا۔متذکرہ صدر فیصلے اسمبلی قواعد کے ماتحت کیے جاتے ہیں ہاؤس بزنس ایڈوائزری کمیٹی یا سپیکر کی قائم کردہ کمیٹی مخصوص حالات میں قواعد و ضوابط میں تبدیلی یا تعطل کا فیصلہ کر سکتی ہے لیکن اسمبلی اجلاس کے لیے آئین پاکستان میں درج شرائط و ضوابط میں ترمیم یا تعطل ایسی کمیٹی کا استحقاق و احتیار کیسے ہو سکتا ہے یہ غور طلب نکتہ ہے آئین کی شق 55/2 کہتی ہے
” اگر کسی وقت اسمبلی کے کسی اجلاس کے دوران صدارت کرنے والے شخص کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی جائے کہ اسمبلی کی کل رکنیت کے ایک چوتھائی سے کم ارکان حاضر ہیں تو وہ یا تو اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردے گا یا اجلاس کو اس وقت تک کے لیے معطل کردے گا جب تک کہ اسمبلی کی کل رکنیت کے کم سے کم ایک چوتھائی ارکان ِحاضر نہ ہو جائیں "
قیاس آرائی کی جا سکتی ہے کہ کورم کا مسئلہ نشاندہی کے ساتھ مشروط ہے لہذا اگر ارکان اتفاق رائے سے کورم کی طرف توجہ نہ دلانا چاہیں تو یہ شق ان کی صوابدید پر منحصر ہے۔
اس قیاس آرائی میں مصلحت موجود ہے آئینی مثالیت پسند استدلال موجود نہیں۔اسی آئینی شق کی وضاحت بڑی معنی خیز ہے ” کورم پورا نہ ہونے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ ارکان اسمبلی کو کو حکومتی امور سے دلچسپی نہیں رہی”کورم کی شرط کا مقصد قانون سازی میں پارلیمنٹ کے کم از کم ارکان کی موجودگی و رائے کو فوقیت دینا ہے۔
اب جبکہ کورم کے سوال کو بالائے طاق رکھ دینے پر اتفاق رائے ہوگیا ہے تو اس کا ایک نتیجہ یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اجلاس محض نشستن گفتن برخاستن کے دائرے میں رہے گا حزب اختلاف کرونا کے خلاف حکومت کے اقدامات پر تنقید کرے گی حکومت اپنے اقدامات کو افلاطونی بصیرت افروزی قرار دے گی زیادہ سے زیادہ لاک ڈاؤن بارے ایک عمومی اتفاق ہو سکتا ہے نرمی کا یا سختی کرنے کا لگتا ہے اجلاس کی رائے منقسم سی ہو گی۔ اور یوں کرونا کے خلاف تدبیری ابہام پر پارلیمنٹ کی مہر ثبت ہوجائے گی۔
دوسرا نتیجہ اس اجلاس سے یہ اخذ ہو گا کہ آئین کی کسی شق کو معطل کرناہاوس بزنس کمیٹی کے دائرہ احتیار میں تصور کر لیا جائے گا۔ باقی پرنالا اپنی موجودہ جگہ پر بہتا رہے گا۔
بلوچستان میں کرونا پھیل رہا ہے گزشتہ روز 174 کیسز سامنے آئے ہیں۔ مریضوں کو کہاں کس طرح علاج کے لیے جاناہوگا واضح نہیں۔ فاطمہ جناح ہسپتال میں جانے والے مریضوں کو گھر واپس بجھوایا جاتا ہے شنید ہے کہ وہاں خالی بیڈ ہی دستیاب نہیں۔ ٹیسٹنگ کا نظام مفلوج ہے۔ رپورٹس تاخیرسے دی جاتی ہیں تب تک مریض کو گھر میں رہنے کی ہدایت دے کر رخصت کر دیا جاتا ہے شیخ زید ہسپتال میں بھی حالات مخدوش ہیں۔ لیاقت شاہوانی صاحب نے کل ہی بتا یا ہے این ڈی ایم اے سے 142 وینٹی لیٹر کی فراہمی کی درخواست کی گئی ہے۔ اس صوبے میں صرف 74 وینٹی لیٹر ہیں جو کوئٹہ کے مختلف ہسپتالوں میں نصب ہیں اندورون صوبہ کے ہسپتالوں میں وینٹیلیشن کا انتظام ہے نہ کرونا ٹیسٹنگ کی سہولت۔ ماسوا تفتان کے۔
علاج معالجہ کی ناقص صورتحال اپنی جگہ ایک المیہ ہے جبکہ کرونا سے لاحق ہونے والے افراد کی تدفین الگ سے معاشرتی و طبی مسائل ہیں۔جس گلی محلے میں ایسا سانحہ ہوجائے وہاں ضلعی انتظامیہ تدفین کی نگرانی اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے کام کرتی نظر نہیں آرہی گزشتہ روز سرکی روڈ میں ہونے والی موت شہریوں اور اہل خانہ کی دردناک بے بسی تھی۔ عزیز واقارب میت کے پاس روائتی انداز میں جمع تھے۔ نماز جنازہ و تدفین میں بیسیوں لوگ شریک تھے جن میں مرحومہ کے گھر کے افراد بھی شامل تھے لوگ ان سے مل کر روائتی انداز میں دلاسہ دے رہے تھے۔ اللہ نہ کرے کہ ان کے گھر کے دیگر افراد میں مرض کی علامات موجود ہوں تاہم اس خدشے سے انکار ممکن نہیں۔ پھر لواحقین سے ملنے والے افراد کے متعلق کیا یقین سے کیا جا سکتا ہے کہ مرض خدانخواستہ ان تک منتقل نہیں ہوا ہوگا؟
اس محلے اور گلی کو سیل کیا گیا ہے نہ دیگر حفاظتی اقدامات کئے گئے کیا حکومت کرونا وباء کے سامنے بے بس ہوچکی ہے یا وہ شعوری غفلت سے مرض پھیلانے میں مصروف ہے؟
بلوچستان بالخصوص کوئٹہ میں ایک فرضی لاک ڈاؤن نافذ ہے بازاروں میں ہجوم عام ہے۔ حکومت یقین رکھتی ہے کہ عوام احتیاطی تدابیر نہیں اپنا رہے مگر پھر بھی لاک ڈاؤن نامی فرضی اقدام میں کچھ نرمی کرنے جارہی ہے حالانکہ پہلے سے ہی 19 مئی تک صوبے میں لاک ڈاؤن کے نفاذ میں توسیع کے احکامات صادر ہوچکے۔
دریں اثناء آج مرکزی حکومت لاک ڈاؤن بارے حتمی فیصلہ کرے گی حکومت کی اعلانیہ خواہشات لاک ڈاؤن کو نرم کرنے کا پتہ دیتی ہیں وہ بھی مانتی اور جانتی ہے کہ اس صورت ایس او پیز پر عمل ناممکن ہوگا جس کے تباہ کن نتائج نکلیں گے مگر پھر بھی لاک ڈاؤن بتدریج ختم کرنے کی دانشمندی سمجھ سے بالا ہے11 مئی کو قومی اسمبلی کے اجلاس تک لاک ڈاؤن کے متعلق فیصلے ملتوی کرلیے جاتے تو مناسب ہوتا۔
اگر آج مرکزی حکومت نے لاک ڈاؤن میں کمی یا نرمی کا فیصلہ کیا تو کیا بلوچستان حکومت اپنے فیصلے سے رجوع کرے گی؟ جب قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہونے جارہا ہے تو بلوچستان صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب نہ کرنے کا کیا جواز باقی رہ گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں