ایک اور شوشہ مئی 8, 2020مئی 8, 2020 0 تبصرے انور ساجدیہمارے جید سیاستدان ایک اور رسوائی کے منتظر ہیں کیونکہ بڑوں نے فیصلہ کیا ہے18ویں ترمیم میں ردوبدل کیاجائے ان کامقصود اس ترمیم کے ڈنک کونکال کر اسے بے ضرر بنانا ہے بظاہر تو ترمیم کو مکمل طور پر ختم کرنا ممکن نہیں لیکن اصل کارس نکال کراسے اتنا بے اثر کردیاجائیگا کہ وہ مضبوط مرکز کی راہ میں حائل نہ ہوسکے عمران خان کی کابینہ کے اندرونی ملا نصیرالدین نے چند روز قبل اس کا انکشاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج کل عمران خان کے دست راست اسد عمر سیاسی رہنماؤں سے رابطے میں ہیں سیاسی رہنماؤں سے مراد مسلم لیگ (ن) ہے کیونکہ ترمیم میں تبدیلی کیلئے سب سے زیادہ اسی کی ضرورت ہے تحریک انصاف کے بعد پارلیمنٹ میں اسکی عددی اکثریت زیادہ ہے پیپلزپارٹی کانمبر سب سے آخر میں آئیگا جیسے کہ آرمی ایکٹ کی منظوری کے وقت اس پارٹی سے سب سے آخر میں رابطہ قائم کیا گیاتھا ابتدائی نازنخروں کے بعد اس نے بھی ہاں کہہ دی تھی اگرلوگوں کو یاد ہو جب آرمی ایکٹ میں ترمیم سامنے آئی تھی تو مسلم لیگ ن کی پاکستان میں موجود قیادت نے انکار کیا تھا لیکن ایک خفیہ ڈرامے کے بعد امید بہار کی خاطر نواز شریف نے لندن میں اکیلے فیصلہ کیا تھا کہ ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالنا ہے ن لیگ کے اس اقدام کے بعد یہ بات مشہور ہوئی تھی کہ ن لیگ نے مقتدرہ سے ڈیل کرلی ہے اور ایک این آر او لیا ہے این آر او کیا تھا نیب کے ہاتھوں گرفتار پارٹی کے تمام چیدہ چیدہ رہنماؤں کو یکے بعد دیگرے رہائی ملی تھی اب جبکہ ایک اور کام درپیش ہے تو نیب دوبارہ سرگرم ہوگیا ہے شاہد خاقان کاایک اور کیس کھول دیا گیا ہے شہبازشریف کو دوبارہ طلب کرلیا گیا ہے شائد کچھ اور لوگوں کو تنگ کیاجائے تاکہ مشکلات سے گھبراکر یہ پارٹی18ویں ترمیم میں ردوبدل کے حق میں ووٹ ڈالنے پر راضی ہوجائے حتمی فیصلہ تو اس بار بھی نوازشریف ہی کریں گے ڈیل بھی انہی سے ہونی ہے لیکن یہ کام بہت بڑا ہے لہٰذا اگر ڈیل ہوئی تو بڑی ہوگی مقدمات کو ڈھیل دے کر کمزورکیاجائے گا اور مریم بی بی بھی عازم لندن ہوجائیگی جہاں ان کا شاندار محل کب سے ان کا منتظر ہے بھائی شہبازشریف بھی اپوزیشن کو روتا چھوڑ کر لندن میں جاکر طویل ڈیرہ ڈالیں گے۔اس طرح جب سارا شریف خاندان ولایت میں ٹھکانہ کرلے گا تو اس وقت تک واپس نہیں آئیگا جب تک کہ حالات انکے ایک اوراقتدار کیلئے ہموار نہ ہوجائیں ن لیگ 18ویں ترمیم کے رہنے یا ختم ہوجانے سے زیادہ فکر مند نہیں کیونکہ اگر صوبے مضبوط ہوتے ہیں تو بھی وہ فائدے میں ہوگی۔اگر مرکز ایک بار پھر مضبوط ہوگا تو بھی فائدہ اسی کا ہے کیونکہ مرکز کا اصل مطلب ہے پنجاب 18ویں ترمیم کے ساتھ ”بڑے“ این ایف سی ایوارڈ میں بنیادی ردوبدل کرنے کے خواہش مند ہیں کیونکہ موجودہ فارمولے کے تحت صوبوں کو قومی آمدنی کا زیادہ حصہ جاتا ہے جس کی وجہ سے مرکز اپنے اخراجات خاص طور پر سلامتی کے اخراجات پورے کرنے کی پوزیشن میں نہیں وقت آنے پر جب سیاسی رہنماؤں کو بریفنگ دی جائے گی انکے سامنے یہ تصویر رکھ دی جائیگی کہ بھارتی عزائم خطرناک ہیں اور وہ کوئی نہ کوئی مہم کا ارادہ رکھتا ہے لہٰذا قومی سلامتی کا تقاضہ ہے کہ دفاعی بجٹ میں اضافہ کیاجائے جب تک صوبوں کے وسائل میں کٹوتی نہ کی جائے دفاع مضبوط نہیں ہوسکتا بھلا اس بریفنگ کے بعد کون ہوگا جو این ایف سی ایوارڈ میں ردوبدل کی مخالفت کرے گا اپنے آپ کو زیادہ محب وطن ثابت کرنے کیلئے ن لیگ دو ہاتھ آگے ہوگی جب کہ زرداری بھی ملک دشمنی کے الزام سے بچنے کیلئے مان ہی جائیں گے اگر وہ نہ مانے تو سیاست ایک اور رخ اختیار کرے گی ایسا رخ کہ جس کے بارے میں ابھی تک سوچا نہ ہوگا زرداری نے اپنے قریبی حلقوں کو بتادیا ہے کہ18ویں ترمیم کو ختم کرنے اور این ایف سی ایوارڈ میں ردوبدل کرنے کیلئے آخری زور لگایا گیا تو وہ سیاست سے کنارہ کش ہوجائیں گے اسکے بعد سندھ کے عوام جانیں اور مضبوط مرکز جانے سیاسی مبصرین اس بات کو سنجیدہ نہیں لیتے کیونکہ زرداری نے ابھی تک سیاست کی ”پوستین“ میں چھپ کرجان بچائی ہے اگر سیاست میں ان کا رول ختم ہوجائے تو انکے ساتھ بہت برا ہوگا لہٰذا وہ کھیل کا حصہ رہیں گے یوں آسانی سے ہارماننا انکی سرشت میں شامل نہیں ہے البتہ وہ بھی کچھ نہ کچھ بارگین کرلیں گے اور پارٹی والوں کو سمجھادیں گے کہ جب آئندہ موقع ملے گا تو آئین کو دوبارہ ٹھیک کرلیا جائیگا۔یہ بات تو طے ہے کہ18ویں ترمیم کی خیر نہیں ہے یہ جو تحریک انصاف کے سیاستدانوں سے رابطے ہونگے یہ سنجیدگی کے حامل نہیں ہونگے اصل رابطے تو خفیہ ہونگے جن میں زیادہ مشاق لوگ حصہ لیں گے تحریک انصاف تو ابتدائی طور پر کنڈیکٹر کاکام کرے گی یعنی سواریوں کوبس میں بٹھائے گی اور پھر ”چل استاد ڈبل اے“ کا نعرہ لگائے گی وہ اسٹیک ہولڈرضرور ہے لیکن اصل اسٹیک ہولڈر وہ نہیں اور ہیں تحریک انصاف سے انکے دورانیہ میں ہر وہ کام لیاجائیگا جو لیاجاسکتا ہے۔اسکے بعد بحیثیت جماعت یہ اپنا وجود برقرار رکھنے کے قابل ہی نہیں رہے گی۔حکام بالا نے باتوں باتوں میں ایک اور شوشہ بھی چھوڑا ہے کل رات ایک ڈمی چینل کے اینکر فرمارہے تھے کہ یہ پارلیمانی نظام بھی ٹھیک نہیں ہے وہ اسکی جگہ صدارتی نظام کی بات بھی نہیں کررہے تھے بلکہ ان کا اشارہ تھا کہ ملک کو ایک نئے نظام کی ضرورت ہے جو ملا جلا ہو انہوں نے اسکی وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ ایسا نظام جس میں چینی نظام کا رنگ غالب ہویعنی ایک آمرانہ صدارتی نظام یہ دراصل ایک تجویز تھی جس پر عنقریب بڑے بڑے چینل اور ”جماندرو“ اینکرز بھی بحث ومباحثہ کاسلسلہ شروع کردیں گے یعنی ایک نیا تجربہ کرنے کی کوشش کی جائے گی جہاں تک صدارتی نظام کا تعلق ہے تو سکندر مرزا بھی صدر بن گئے تھے انکے بعد ایوب خان ایسے صدر تھے کہ ایک پتہ بھی انکی مرضی کے بغیر ہل نہیں سکتا تھا ایوب خان کے بعد جنرل ضیاء الحق ازخود صدر بن گئے تھے وہ ایسے صدر تھے کہ ان جیسے اختیارات کسی کو حاصل نہیں تھے وہ بہ یک وقت صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے انہوں نے صوبوں میں اپنی پسند کے فوجی گورنررکھے تھے انہوں نے جمہوریت اظہار رائے آزادی اور بنیادی حقوق کا کھباڑہ کردیا تھا اپنی دہشت بٹھانے کیلئے انہوں نے ہزاروں کارکنوں پر کوڑے برسائے تھے اور منتخب وزیراعظم کو پھانسی چڑھائی تھی آگرآمرانہ صدارتی نظام ترقی وخوشحالی کا ضامن ہوتا تو آج پاکستان جرمنی اور جاپان سے آگے ہوتا۔ایوب خان نے چند صنعتیں قائم کرکے ضرور نیک نامی کمائی تھی لیکن لوگ بھول گئے ہیں کہ انہوں نے بلوچستان کا پانچ ہزار مربع میل کا انتہائی قیمتی علاقہ ایران کو تحفے کے طور پر بخش دیا تھا یحییٰ خان بھی ایک بااختیار صدر اور فوجی سربراہ تھے انہوں نے پورا بنگال گنوادیا اسی طرح ضیاء الحق کے دور میں سیاچین کابڑا علاقہ ہاتھ سے نکل گیا نہ صرف یہ بلکہ گھبرو صدر پرویز مشرف کے دور میں کارگل پر بھارت نے قبضہ کرلیا ان انتہائی محب وطن صدور کے دور میں نقصان کے سوا کوئی فائدہ نہیں ہوا اگر دوبارہ صدارتی نظام کا تجربہ مقصود ہے تو ضرور کیاجائے لیکن اس سے ملک کا کچھ بھلاہونے والا نہیں ہے یہ کام انتہائی مشکل ہے اور یوں آسانی سے ہونیوالا نہیں ہے اس کا واحد آسان راستہ یہ ہوگا کہ آئندہ انتخابات میں اپنی مرضی کے لوگ دوتہائی اکثریت کے ساتھ پارلیمنٹ میں لائے جائیں جس کے بعد1973ء کے آئین کی روح کوتبدیل کرکے پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام لایاجائے بلکہ اس سے بھی آسان راستہ یہ ہوگا کہ بہ یک جنش قلم یا ایک ہی ضرب سے 1973ء کے آئین کا خاتمہ کردیا جائے اور آنیوالے سربراہ خود کو صدر مملکت قراردیں ضیاء الحق اورمشرف دونوں نے یہی کام کیاتھا۔موجودہ دور میں آرمی ایکٹ میں جو ترمیم کی گئی تھی وہ غیر واضح ہے کیونکہ اس میں آرمی چیف کی مدت ملازمت طے نہیں کی گئی ہے پہلے 3سال والی روایت ختم ہوگئی ہے عین ممکن ہے کہ آنے والے آرمی چیف حسب منشا اپنی مدت کا تعین خود کریں اگر کسی کا جی چاہے تو وہ10برس تک بھی عہدے پر فائز رہ سکتا ہے اگرچینی طرز کانظام لانا ہے تو اس میں صدر کا عہدہ تاحیات رکھا گیا ہے روس میں بھی ایسا کیا گیا ہے اس سے کہیں بہترہوگا کہ آرمی چیف ہی تاحیات صدر کا عہدہ بھی سنبھالیں حالانکہ اس وقت ہمارے وزیراعظم پر امید ہیں کہ اگر صدارتی نظام لوٹ آیا تو وہ تاحیات صدر مملکت کاعہدہ سنبھالیں گے یہ الگ بات کہ پیرانہ سالی کی وجہ سے تاحیات عہدہ طویل نہیں ہوگا۔ایسے خیالی گھوڑے دوڑانے و مختلف شوشے چھوڑنے سے حکومت وقت بھی خوش ہے تاکہ لوگ ایک اہم بحران کے موقع پر اس حکومت کی ناکام کارکردگی پرنہ سوچیں دوماہ ہونے کوآئے ہیں وزیراعظم فیصلہ نہ کرسکے کہ کرونا کے بحران سے کیسے نمٹا جائے اور لاک ڈاؤن میں نرمی کیسے لائی جائے۔ ایک سندھ حکومت ہے کہ اسکی انوکھی ادائیں ہیں ہزاروں لوگ فاقہ زدہ ہیں اوربھوک سے مررہے ہیں لیکن وزیراعلیٰ مرادعلی شاہ تاحیات لاک ڈاؤن چاہتے ہیں کراچی میں کاروبار بند ہونے سے لاکھوں لوگ بیروزگار ہوگئے ہیں سندھ حکومت انکی کیا مدد کررہی ہے کتنے لوگوں کوراشن پہنچایا گیا ہے اس کا حساب بھی نہیں ہے بس وزیراعلیٰ کے سرپرلاک ڈاؤن جاری رکھنے کابھوت سوار ہے شروع میں لاک ڈاؤن ٹھیک تھا لیکن اب بھوک کرونا سے زیادہ خوفناک وبا بن گئی ہے سندھ حکومت لوگوں کو سہولتوں کی فراہمی کی بات نہیں کرتی بس شہروں پرتالا ڈالنے کو اپنا بڑا کارنامہ سمجھ رہی ہے اگر لاکھوں بھوکے لوگ سڑکوں پر نکل آئے تو سندھ حکومت کیاکرے گی Share this:Click to share on Twitter (Opens in new window)Click to share on Facebook (Opens in new window)Click to share on WhatsApp (Opens in new window)Click to print (Opens in new window)