بلوچستان کے نام ایک اور خیرات

زبیر بلوچ
کچھ دن پہلے بلوچوں کے دردوغم کا مداوا کرنے کیلئے بیرون بلوچستان سے ایک اور نامور شخصیت 80 بوری آٹااور کچھ ماسک لیکر تشریف لائے اور ایک مرتبہ پھر یہاں کے لوگوں کو احساس دلایا کہ انہیں پچھلے کتنے سالوں سے ان نااہل حکمرانوں نے نظرانداز کیاہے یہاں کے لوگ کیسے دگرگوں حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں کیسے نگہداشت کا سامنا کر رہے ہیں لیکن ان بدنصیبوں کو کون سمجھائیں کہ اس کا برسوں سے نہیں بلکہ دہائیوں سے لوگوں کو علم و شعور ہے کہ کس طرح ان کے سائل و وسائل لیکر انہیں غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ پنجاب سے آئے لوگ ایسے باشن دیتے ہیں جیسے یہاں کے لوگ جنگلی لوگ ہیں جنہیں کچھ علم و تعلیم نہیں جنہیں اپنی پسماندگی کا احساس نہیں جو ترقی جیسی چیز سے ناواقف ہیں۔ اس مرتبہ بلوچستان کی پسماندگی دور کرنے کیلئے پاکستانی کرکٹ شاہد آفریدی نے پنجاب سے بلوچستان کا سنگین تکلیف دہ اور خطرناک سفر کرکے آئے وڈھ اور خضدار میں کچھ ماسک اور آٹے کی بوریاں بانٹ دی پولیس کی چار سیکیورٹی گاڑیوں کے ساتھ دو گھنٹے کا بلوچستان کے دو علاقے میں گھومنے کے بعد کرکٹر کو بلوچستان کی پسماندگی کا احساس ہوا جنہیں پچھلے ستر سالوں میں یہاں ہونے والی سنگین حالات کی کچھ خبر نہیں تھا۔ پھر جناب بلوچستان کی پسماندگی دیکھ کر تقریر کرنے اور باشن دیئے چلے گئے حکمرانوں پر الزام لگایا حکام سے اپیل کی کہ بلوچستان کی پسماندگی کو دور کریں اور انہوں نے اپنے ایک فاؤنڈیشن جس کے ذریعے انہوں نے آٹے کی ایک ہزار بوریاں بلوچستان میں بانٹ دی اسی کے ذریعے بلوچستان کی غربت کو دور کرنے کا عزم لیا۔ کبھی کبھی انسان سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے میں آفریدی کیحالیہ دورے کے بعد کچھ ایسی کیفیت سے گزر رہا ہوں کہ بلوچستان اور یہاں کے لوگوں کوپنجاب میں بیٹھی اشرافیہ نے کیا سمجھا ہے بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا 44فیصد بنتا ہے مطلب آدھاپاکستان بلوچستان سے ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی معیشت کا دارومداربھی بلوچستان سے ہے، سی پیک اور سیندک سمیت درجنوں میگا پروجیکٹس سے پاکستان کھربوں ڈالرکمائی کرتاہے اس کے علاوہ
بلوچستان میں قومی معدنیات کو بھی انتہائی وسیع پیمانے پر استعما ل میں لایا جاتا ہے، بلوچستان کے ساحل پر پوری دنیا کی نظریں جمی ہوئی ہیں جبکہ سعودی عرب بھی بلوچستان میں سرمایہ کاری کیلئے دلچسپی کا اظہار کر رہا ہے، اس کے علاوہ پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک ایران اور افغانستان کے ساتھ تجار ت بھی بلوچستان کے ذریعے کرتا ہے اگر بلوچستان کو نکال دیا جائے تو پاکستان کا ایران اور افغانستان کے ساتھ ہمسائیگی ختم ہو جاتی ہے پاکستان کا جو ساحلی علاقہ ہے وہ بھی بلوچستان میں ہے پاکستان کی فشر انڈسٹری بھی بلوچستان کی بدولت ہی چلتی ہے، اگر آج دنیا بھر کے ممالک میں پاکستان ایک اہم ملک کی حیثیت رکھتا ہے تو اس کی وجہ بلوچستان ہے لیکن ستم ظریفی اور المیہ کا مقام ہے کہ ان سب کے باوجود بلوچستان کو ایک خیراتی علاقہ بنایا گیا ہے جہاں کے لوگوں کو پاکستانی اشرافیہ بھکاری کے طور پر دیکھتی ہے جہاں ہر سال پنجاب سے کوئی کچھ بوری آٹے کا لیکر یہاں کا رخ کرتا ہے اوربھکاریوں جیسے رویوں کے ساتھ ان کو بانٹ کر پھر ایک لمبی چوڑی تقریر کرکے چلا جاتا ہے۔ شاہد خان آفریدی سے پہلے جناب وزیر اعظم پاکستان نے کچھ دنوں پہلے یہاں کا چکر لگایا تھا اپنے تین گھنٹے دورانیہ کے دورہ کے بعد صاحب نے پورے بلوچستان کا تجزیہ لگایا اور پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلوچستان کو کورونا وائرس کے خطرہ سے محفوظ قرار دیتے ہوئے چلا گیا، تین گھنٹے میں عام طور پر بچوں کی کلاس ختم نہیں ہوتی جناب وزیر اعظم نے تین گھنٹوں کے مختصر وقت میں یہاں کے حکام سے ملاقاتیں کیں، کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے حالات کا جائزہ لے لیا، قرنطینہ سنٹر کا دورہ بھی کیا،حکومتی حکام کی کرونا سے مقابلہ کی تیاروں کا جائزہ بھی لے لیا، اور ان سب کے بعد تین منٹ کی پریس کانفرنس میں سب کچھ نمٹا کر چلا گیا،جو محض یہاں کے لوگو ں کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ جناب وزیر اعظم سے پہلے 25جولائی 2019کو پاکستان مسلم لیگ کی وائس چیئرپرسن بی بی مریم صاحبہ نے دو دن کا دورہ کیا تھا بی بی کو اپنے پانچ سالہ اقتدار میں بلوچستان میں ہونے والی ناانصافیوں کا ادارک نہیں تھا، ان کے دور حکومت میں جو سلوک بلوچستان سے ہوا تھا یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے لیکن بی بی نے سب کچھ بھلا کر بلوچستان کے لوگوں کو اردوزبان پر گرفت نہ رکھنے پرطعنہ دے کر چلا گیا، جبکہ ایک مرتبہ پھر بلوچستان کامذاق اُڑاتے ہوئے فرمایا کہ یہاں کے لوگ غربت کی لکیرسے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، جب یہاں کے وسائل کی لوٹ ماری کرتے ہوئے تمام وسائل کو پنجاب میں بروئے کار لاؤ گے تو یقینا یہاں کے لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسرکریں گے۔
لیکن یہ پاکستانی سیاستدانوں کی عام روایت ہے کہ انہیں سیاست کے نام پر لوگوں کا مزاق اُڑانا اچھا لگتا ہے بلکہ پاکستانی سیاست خود ایک مذاق ہے، جس میں سنجیدگی کا کچھ بھی عنصر موجود نہیں ہے۔ بی بی مریم، وزیراعظم و شاہد آفریری سے پہلے بھی کئیلوگ یہاں کچھ ہزار کا خیرات دیکر لمبالیکچر دیکر پھرہمیشہ کیلئے رفوچکر ہو چکے ہیں۔ لیکن ان کی بچگانہ حرکتوں سے بلوچستان میں تبدیلی آئے یا نہ آئے لیکن بلوچستان کے لوگوں کے سامنے ان کا حقیقی چہرہ ضرور عیاں ہوگا۔ بلوچستان معدنیات سے مالا مال علاقہ ہے بی بی مریم جیسے لوگ تو یہاں کے انسانوں کوگنوار و بے شعور سمجھتے ہیں لیکن بلوچستان کے لوگ کتنے باشعور ہیں اس کا علم وہی رکھتا ہوگا جس کا سچے دل کے ساتھ بلوچستان سے تعلق ہے۔ لیکن پنجاب سے تعلق رکھنے والی اشرافیہ نے بلوچستان کو خیرات خانہ بنا دیا ہے ہر کوئی ایک چھوٹی سی خیرات لیکر آتا ہے اور بلوچستان کے لوگوں کوطعنہ دے کر چلا جاتا ہے اور پھر ان کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں