چالاک لابی کا تصوراتی بلوچستان مئی 8, 2020مئی 8, 2020 0 تبصرے بایزید خان خروٹیکل کسی سیکرٹری نے بتایا کہ ہمیں کوئٹہ میں جاری ترقیاتی اسمکیات کے معائنے سے زبانی طور پر روک دیا گیا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ ایم پی ایز کی ناراضگی بیان کی گئی ہے کہ وہ نہیں چاہتے ہیں کہ کام کے حقائق بے نقاب ہوں اب کوئٹہ میں یہ حالت ہے تو باقی صوبے کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ذہن میں سوال کیاقانون،قاعدے توڑنے کے لیے بنائے جاتے ہیں؟۔ اس ایک سوال نے مجھے چکرا کر رکھ دیا ہے۔ جمہوری حکومتیں معاشرے کی بہتری کے لیے قوانین، ضابطے بناتی ہیں تاکہ معاشرے میں بگاڑ پیدا نہ ہو۔ ظاہر ہے عوام اپنے نمائندوں کو اسی لیے منتخب کر کے ایوانوں میں بھیجتی ہیں کہ وہ معاشرے کی فلاح اور بہتری کے لیے قانون سازی کریں گے۔ جن میں کسی حقدار کی حق تلفی نہیں ہو گی۔ کرپشن کا خاتمہ کیا جائے گا۔ میرٹ اور ایمانداری کو یقینی بنایا جائے گا۔ پھر ان قوانین اور ضابطوں پر عملدرآمد کے لیے عوام کے پیسوں سے اربوں روپے کے خرچے سے ایک بہت بڑی حکومتی مشینری بھی قائم کی جاتی ہے۔ لیکن یہ سب جمہوری ممالک میں ہوتے ہیں جہاں جمہوری قدریں ہوں۔ جہاں نمائندوں کو اپنے احتساب کا ڈر ہو۔ لیکن جہاں ایلیٹ کلاس یا اشرافیہ کسی اور کی بیساکھیوں کے سہارے حکومت کر رہی ہو۔ جسے ہر شخص سیلیکٹڈ کی نظر سے دیکھتا ہو۔ انہیں عوام کی پرواہ نہیں ہوتی۔ انہوں نے عوام کو جواب دینا نہیں ہوتا۔ وہ ایلیٹ طبقہ اور ان کی حکومتی مشینری میں کاسہ لیس مہرے ایک پالیسی بناتے ہیں اور پھر بڑی دیدہ دلیری سے اسے توڑ بھی دیتے ہیں اور یہ سب کرتے ہوے انہیں ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی ہے۔ نا اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ کس ڈھٹائی سے اپنے ہی دستخطوں سے جاری کردہ پالیسی کی نفی کر رہے ہیں۔موجود وزیراعلی کے پرنسپل سیکرٹری 13 فروری 2019 کو چیف سیکریٹری کو ایک لیٹر لکھتے ہیں جس میں افسروں کی پوسٹنگ/ٹرانسفر سے متعلق حکومتی پالیسی بیان کی جاتی ہے۔ اس پالیسی میں وزیراعلیکی مختلف سمریز پر ریمارکس کو بنیاد بنایا گیاہے۔وزیراعلی پوسٹنگ/ٹرانسفر کی ایک سمری پر لکھتے ہیں کہ انڈر ٹرائل کیسز اس وقت تک انٹرٹین نہیں کیے جائیں جب تک کہ وہ حل نہیں ہو جاتے۔ جب کہ دوسری سمری میں وزیراعلی لکھتے ہیں کہ سیکریٹری صاحبان ٹرانسفر/ پوسٹنگ میں کیڈراور گریڈ کو ضرور مد نظر رکھیں مزید نیب سے سزا یافتہ، پلی بارگین اور نااہل افسروں کو بھی پوسٹنگ نہ دیں۔ بلکہ ان کے خلاف بیڈا قانون کے تحت ڈسپلنری کاروائی بھی عمل میں لائی جائے۔ اور جن افسروں پر نیب کے ریفرنسز ہیں وہ بھی ریفرینس کے خاتمے تک پوسٹنگ/ٹرانسفر کے اہل نہیں ہوں گے۔یہ تو تھی شروع میں وزیراعلی کی پالیسی سے آگاہی دینے والے ریکارڈ پر موجود خطوط۔ پھر کیا ہوا۔ اس پالیسی پر کتنا عملدرآمد ہوا آیا جس نے اپنے دستخطوں سے یہ پالیسی جاری کی تھی اس نے اپنے دستخطوں کی لاج رکھی۔ لیکن جس طرح ڈرامے میں انٹرول ہوتا ہے اور کردار بدل جاتے ہیں بالکل اسی طرح موصوف پرنسپل سیکرٹری نے بھی جب یہاں سے پرواز کی تو صوبے کے سب سے بڑے کماؤ محکمے میں سکریڑی بن گئے۔ اور پھر وہی اس پالیسی کے ساتھ کرتے ہیں جو مالک اپنے غلام کے ساتھ کرتا ہے۔ کیونکہ بولی وہی دے سکتا ہے ڈیمانڈ وہی پوری کر سکتا ہے جو اس راہ گزر کا عادی ہو۔ لہذا نیب سے ضمانت شدہ شخص کو نہ صرف کمائی والی پوسٹنگ بطور ایکسین لگائی جاتی ہے بلکہ ایک 17 گریڈ کے افسر کو 18 گریڈ کا چارج بھی دے دیا جاتا ہے۔ اب یہ نہیں کہ 18 گریڈ کے افسروں کی کال پڑ گئی ہے یا انہیں کورونا ہو گیا ہے۔ مگر شاید ان میں سے کوئی ڈیمانڈ پورا نہیں کر سکتا ہو گا۔ بدقسمتی سے اس محکمے کا وزیر بھی وہ شخص ہے جس نے اپنے رشتہ دار کو تو تمام محکمے کا تو انتظامی امور کا کرتا دھرتا بنایا ہے جبکہ خود ایمانداری کالبادہ اوڑھ لیا ہے۔ ایک مشہور مقولہ ہے کہ دیگ کا ذائقہ چاول چکھ کر ہی لگایا جاتا ہے۔ دیگ دیکھ کر نہیں لگایا جاتا۔ کاش یہ خود ساختہ ایماندار لوگ ہمارے حصے میں نہ آتے۔ اربوں خرچ کرنے کے ذمہ دار چالاک وزیر اور چالاک سیکرٹری اس سے قبل بھی محکمہ خزانہ میں بھی ساتھ کام کرچکے ہیں جو وزیر موصوف کے علاقے کو 2 ارب روپے کی خطیر رقم روڈ سے جھاڑیاں ہٹانے اور روڈ پر کالے رنگ کا لاپ مارنے کیلئے جاری کرچکے ہیں جو جیبوں میں چلے گئے ہیں بدقسمتی سے نظام کے اندر موجود شاطر بلوچستانیوں نے ایک منظم سوچ کے ساتھ بلوچستان کے ساتھ کھلواڑ شروع کیا ہے اور آدھا بلوچستان ہڑپ کرلیا ہے بدقسمتی تو یہ ہے کہ یہ صوبے سے باہر کی اپنی نجی محفلوں اور ملاقاتوں میں بلوچستانیوں کو نااہل کہتے ہیں جبکہ نظام میں موجود یہ لوگ خود نااہل اور کرپٹ بھی ہیں اور اس لبادے میں صوبے کو نقصان پہچانے پر تلے ہوئے ہیں اوراس شاطرلابی نے موجودہ وزیراعلی کی نفسیات کو بھانپ لیا ہے اورٹوئٹر کیلئے بہترین تصاویر اور ویڈیوز بنانے کیلئے جہاں خود جدید کیمرے خرید لئے ہیں وہیں پر فوٹوگرافرز کی خدمات بھی حاصل کر لی ہیں جس کا ثبوت کل سکریڑی کے ٹوئٹر اکاونٹ پر کوئلہ پھاٹک کوئٹہ کی ایک تصویر جس میں اس روڈ سے شاز و نادر گزرنے والے وزیراعلی، چیف سکریڑی، صوبائی وزراء کو ٹیگ کیا گیا ہے تصویر درحقیقت دیکھ کر یقین نہیں آتا ہے کہ یہ کوئٹہ کے کسی علاقے کی ہے جو شخص یہاں سے گزارتا ہے اسکو معلوم ہے کہ یہ تصویر ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور کی کہاوت پر صادق اترتی ہے۔ یہ چالاک لابی کا تصوراتی بلوچستان ہے جبکہ حقیت میں ایسا نہیں ہے۔ Share this:Click to share on Twitter (Opens in new window)Click to share on Facebook (Opens in new window)Click to share on WhatsApp (Opens in new window)Click to print (Opens in new window)