اختر مینگل کا اچاٹ دل +بلوچ کی اصل بنیاد

انور ساجدی
لگتا ہے کہ سرداراخترمینگل کاجی عمران خان کی مخلوط حکومت سے بھر گیا ہے اس لئے انہوں نے ایک بار پھر جبری الحاق کامعاملہ چھیڑ دیا ہے اگر انکے بیان کا نوٹس لیاگیا تو وفاقی حکومت انکی حمایت واپس کرسکتی ہے یا اختر مینگل اس حمایت کو خود واپس لے سکتے ہیں۔
الحاق کے مسئلہ پرجام صاحب نے جو ٹویٹ کیا ہے وہ انکے دادا جان کا موقف تھا اس مسئلہ پر بحث کئے بغیر صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ قیام پاکستان کے وقت قلات کے سواآزاد ریاستیں نہیں تھیں مکران تو ریاست قلات کا ایک ضلع تھا جسے صوبہ بھی کہہ سکتے ہیں گچکی حکومت کے خاتمہ کے بعد مکران کی حیثیت ریاست کے طور پر باقی نہیں رہی تھی البتہ1947ء کولیاقت علی خان نے بھائی خان گچکی کو کراچی طلب کیا ایک ہی رات میں انہیں نواب آف مکران کالقب دیا گیا اور اسی دن ان سے الحاق کے کاغذات پردستخط لئے گئے جہاں تک خاران کاتعلق ہے تو وہاں کے نوشیروانی سردار اپنے آپ کو نواب کہتے تھے پاکستان بننے کے بعد سردار خاران نے از خودالحاق کااعلان کیا جس کی کوئی قانون حیثیت نہیں تھی اس معاملہ میں بس اتنا کہنا کافی ہے کیونکہ اس بحث کاکوئی فائدہ نہیں۔ان دنوں پی ٹی وی پر ٹرکش ڈرامہ غازی ارطغرل کی جوقسطیں دکھائی جارہی ہیں ان میں خواتین کو بلوچی کشیدہ والا لباس زیب تن کئے دکھایاجارہا ہے اس پر سوشل میڈیا پر کئی سوالات اٹھائے گئے ہیں جن کا جواب اس وقت کسی کے پاس نہیں ہے البتہ یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ 6سو یا آٹھ سو سال قبل جس علاقہ میں آج مملکت ترکی قائم ہے وہاں پر بلوچی لباس کون لوگ پہنتے تھے یہ بات تو طے ہے کہ روایات کے مطابق بلوچ اسی علاقے سے آئے ہیں انکی زبانی تاریخ کے مطابق بلوچوں کا آبائی وطن حلب ہے جو آج کل ملک شام میں واقع ہے جبکہ”حلب جاہ“ نامی شہر عراقی کردستان میں ہے ان دونوں مقامات پر کافی عرصہ سے کرد آباد میں یہ بات بھی ثابت ہے کہ ترک وسط ایشیاء سے ہجرت کرکے موجودہ ترکی میں آئے ہیں جو ان کا جدی پشتی وطن نہیں ہے ان سے پہلے ترکی کے کئی علاقوں میں کردآباد تھے جو ان کا آبائی وطن ہے ترکوں نے تلوار کے زور پر یہ علاقہ فتح کیا غالباً اس وقت سے وہ ترکی،شام اور عراق میں منقسم ہیں جبکہ انکی آبادی کے ایک حصہ پرایران بھی قابض ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جب بلوچ اس خطے میں آباد تھے تو ان کالباس وہی ہے جو ڈرامہ ارطغرل میں دکھایا جارہا ہے اور یہی لباس اس وقت بلوچوں کاقومی لباس ہے جو بندرعباس سے کراچی تک رائج ہے۔بلوچ تاریخ ارتقاء اور ہجرت ہنور تحقیق طلب مسئلہ ہے۔اس سلسلے میں سائنسی اور تاریخی اندازمیں کام نہیں ہوا جو بھی لکھاگیا جو زبانی تفصیلات ہیں وہ پہلی مرتبہ انگریزوں نے اکھٹا کیا باقی20ویں صدی میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں وہ کسی حوالے مستند تحقیق اور محنت کے بغیر لکھی گئی ہیں ان میں سردارخان گشکوری،ڈاکٹر عالم راقب،جسٹس میرخدابخش مری،میرگل خان نصیر،لالہ ہیتورام اور ملک محمد سعید دہوار کی کتابیں شامل ہیں۔
اگردیکھاجائے تو موجودہ بلوچ تاریخ سیستان سے مشرقی بلوچستان آمد پر محیط ہے یہ جلال ہان اور40دستے جنکی آمد کو تقریباً6سوسال گزرے ہیں اس سے آگے کی تاریخ پر ابھی تک پردہ پڑا ہے فردوسی نے اپنے شاہ نامہ میں بلوچوں کا جوذکر کیا ہے اسے11سو برس ہوچکے ہیں میرجلال ہان سے فردوسی تک کے جو چارسوسال ہیں انکی کڑیاں گم ہیں آیا اس عرصہ میں بلوچ کرمان اور سیستان میں رہے یا ان کا کہیں اوربسیراتھا۔
ہمارے کئی نامور تاریخ دانوں نے بلوچوں کو سامی النسل قرار دیا ہے لیکن اس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے مثال کے طور پر اگرکرد اور بلوچ ایک نسل سے ہیں تو2ہزار سال بنی اسرائیل کی سرزمین میں مقیم ہونے کے باوجود آج تک انہیں سامی النسل تسلیم نہیں کیاجاتا بلکہ یہودی اورعرب دونوں انہیں غیرسمجھتے ہیں اس ضمن میں کردستان جاکر انکی تاریخ کا مطالعہ کرنا ضروری ہے اور تحقیق بھی کی کہ کرد اپنے آپ کو کس نسل کا حصہ سمجھتے ہیں۔
زبانی روایات کے مطابق بلوچ 11سوسال پہلے بابل اورقرب وجوار میں مقیم تھے یعنی فردوسی نے ایک ہزار پہلے کاجو ذکر کیا ہے مزید تین سوسال کی کڑیاں ناپید ہیں اگر بلوچوں نے بابل سے ہجرت کی تو وہ ایران کے کس حصے میں آئے اگرنوشیروان عادل نے ان کی نسل کشی کی تو وہ کونسا سن تھا اگروہ سیستان میں آئے تو یہ علاقہ بھی ایران کاحصہ تھا اس بارے جامع تحقیق کی ضرورت ہے لیکن افسوس کے بلوچ قوم میں اس وقت ایسے تاریخ دانوں کی کمی ہے جو اس طرح کاکام کرسکے دوسرے یہ کہ یہ بے حد مشکل کام ہے اس کیلئے کردستان ایران اور جارجیا کے تمام علاقوں میں جاکر جستجو کرنا پڑے گی۔
میراذاتی خیال ہے کہ بلوچ اپنی گم شدہ کڑیاں اور اپنا آریجن یعنی اصل ساکانسل میں تلاش کریں کیونکہ اگروہ آریائی نسل سے تعلق رکھتے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ ان کا جد موجد ساکااول ہو جن کا تعلق موجودہ چیچناسے تھا پہلے ساکا نے سینٹرل ایشیاء کے کئی علاقوں کوفتح کرنے کے بعد موجودہ جارجیا میں قیام کیا اسکے بعد دوسرے ساکا نے ترکی میں شامل کردستان کے قبائل کو اکٹھا کیا اور حلب کو فتح کرنے کے بعد بصرہ سے ایران کا رخ کیا تیسرے ساکا نے مغربی بلوچستان کا علاقہ فتح کیا جو آج کل سیستان ہے لیکن تاریخی طور پر اس کا نام ساجدی استان یاساکا استان تھا ساکاؤں نے طویل عرصہ تک یہاں پرحکومت کی غالباً بلوچ اسی وقت یہاں پر آئے تھے ایک محتاط اندازہ کے مطابق ساکااول نے ڈھائی ہزار قبل وسط ایشیاء پر حملے کئے تھے اس کا ایک ثبوت راولپنڈی کے قریب ٹیکسلا کے میوزیم میں ملتا ہے اس عجائب گھر میں ساکا دورکے سکے اور انکی تاریخ موجود ہے جس کے مطابق دوبھائیوں ماوز اور شاوز نے دوہزار50سال قبل اس علاقہ پر قبضہ کیا تھا اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ساکاؤں نے ایک طرف ایران اوردوسری جانب افغانستان پر قبضہ کیا تھا اس زمانے میں ان دوممالک کے نام اورتھے۔
سراولف کیرو نے اپنی کتاب دی پٹھان میں
ساکاؤں کاذکر کیا ہے اسکی کتاب کا ایک باب
ساکاؤں کی آمد اور دوسرا باب ”پختو“کا جنم ہے
کئی غیر ملکی مورخین نے لکھا ہے کہ ساکافارسی نما زبان بولتے تھے لیکن وہ یہ نہیں بتاسکے کہ انکی زبان بلوچی تھی جوفارسی سے زیادہ قدیم زبان ہے اسی طرح ساکاؤں کے عقائد کے بارے میں بھی کسی کو معلوم نہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ انہوں نے اپنے دور کے کسی بھی مذہب کو نہیں مانا جب وہ ایران آئے تو وہاں پر زرتشت کے عقائد رائج تھے لیکن انہوں نے یہ مذہب قبول نہیں کیا جب افغانستان اور ٹیکسلا میں بدھ مذہب رائج تھا تو انہوں نے بدھ مت کو شکست سے دوچار کردیا تقریباً ہزار سال بعد اسلام آبا تو وہ مسلمان نہیں ہوئے انکے اپنے دیوتا تھے جن کی وہ پوجا کرتے تھے۔
ایک انگریز مورخ نے لکھا ہے کہ ساکا دوسری آریائی ہجرت کے دوران برصغیر میں آئے لیکن نااتفاقی اور برادر کشی کی خرابیوں کی وجہ سے انہیں شکستوں کا سامنا کرنا پڑا اس مصنف کے مطابق ساکائی نسل کا نام سیتھی ریس ہے برصغیر میں راجپوت قوم اسی نسل سے تعلق رکھتی ہے لیکن خود راجپوتوں سے بہت کم کو اپنی اصلیت معلوم ہے مشرقی پنجاب کے کچھ دانشوروں نے ساکا کو اپنا جدامجد قراردے کر انکی شبیہ پرچم اور گھوڑے کی خیالی تصاویر بنائی ہیں جبکہ باقی راجپوت ہندومت میں اتنے مدغم ہوگئے ہیں کہ وہ خود کو دیوتاؤں کی اولاد سمجھتے ہیں انکی روایات کے مطابق ایک اولین بھگوان نے ہمالیہ کی چوٹی پر جاکر دعا مانگی کہ ہماری حفاظت کیلئے بہادر جنگجوپیدا کئے جائیں چنانچہ اس دعا کے نتیجے میں راجپوتوں نے جنم لیا یہ ایک متھ اور فکشن ہے جبکہ راجپوت ساکا نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور کئی لوگ مانتے بھی ہیں۔
قصہ مختصر کہ جونوجوان تحقیق کاشوق رکھتے ہیں وہ بلوچ قوم کی تاریخی کڑیاں ملائیں اور یہ کھوج لگائیں کہ وہ ساکا نسل سے تعلق رکھتے ہیں کہ نہیں کیونکہ اگر بلوچ ساکا نہیں ہیں تو انکی کوئی لمبی چھوڑی تاریخ نہیں بنتی اور بلوچستان میں انکی آمد کو اگرزیادہ عرصہ ہوا تووہ 8سوہزار سال سے زیادہ نہیں ہوگی اگران کا تعلق ساکا سے ہوا تو سیستان اورمغربی افغانستان دوہزار سالوں سے انکا آبائی وطن ہے اور وہ اس تہذیب اورسرزمین کے اصلی مالک ہیں۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں