ٹیکسلا: جس پر ساکاؤں نے 100 برس حکومت کی

ابوبکر شیخ
‘سرکپ’ کے انتہائی جنوب میں جو ‘کنال اسٹوپا’ بنا ہوا ہے، اس اسٹوپا کے ساتھ ‘راجکمار کنال’ کی ایک درد بھری کہانی وابستہ ہے کہ اس کی سوتیلی ماں نے اس کے والد کے طرف سے ایک جھوٹا حکمنامہ بھیجا کہ کنال کی آنکھیں نکال لی جائیں، تو کنال نے کہا کہ اگر میرے باپ کا یہ حکم ہے تو اس پر عمل کیا جائے۔ اس کے بعد اس کا ‘آشواگھوش’ نامی ماہر چشم سے علاج کروایا گیا اور جب بینائی بحال ہوئی تو اس کی یادگار کے طور پر اس اسٹوپا کی بنیاد رکھی گئی۔یہ بھی کہتے ہیں کہ اندھیری راتوں میں ان آثاروں سے خوفناک آوازیں آتی ہیں اور مخصوص راتوں کو روشنیاں دکھائی دیتی ہیں، کبھی ایک مقام پر کبھی دوسرے مقام پر۔ ‘سرکپ’ کا نام اس لیے پڑا کہ یہاں کا بادشاہ ہر اس آدمی کا سر کاٹ دیتا جو اس سے چوپڑ راند میں ہار جاتا تھا۔ایسی کئی کہانیاں اور دلچسپ باتیں ہیں جو ٹیکسلا کے آثاروں کی گلیوں، اسٹوپاو?ں، گزرگاہوں، اور پاٹھ شالاؤں کے آنگنوں اور درختوں کی ٹھنڈی چھاو?ں میں آپ کو سننے کے لیے مل جائیں گی۔ اور ان باتوں کو دل کے کانوں سے سننا چاہیے، کیونکہ یہ سینہ بہ سینہ اس مٹی، ان پہاڑیوں اور ان درختوں کی خوشبودار چھاو?ں میں سے اگی ہوئی ہیں۔ٹیکسلا کی پہچان کے لیے بہت سارے نام اور حوالے ہیں۔ کوٹلیہ چانکیہ نے ‘ارتھ شاستر’ ان وادیوں میں تحریر کی تھی۔ ‘پاننی’ جو ٹیکسلا کے قریب ‘سلوترا’ کا باشندہ تھا، سنسکرت کی پہلی گرامر پر اس نے یہاں ان درسگاہوں میں کام کیا۔ اور یہ بھی ممکنات میں شامل ہے کہ "مہا بھارت” کی رزمیہ داستان یہاں پر نظم ہوئی۔
کچھ برس پہلے جب میں نے ‘قر? العین حیدر’ کے ناول "آگ کا دریا” میں یہ جملہ پڑھا تھا:
"تم کیسے فلسفی ہو جو الفاظ میں یقین نہیں رکھتے۔” گوتم نے جھنجلا کر جواب دیا۔ "پاننی، تمہارے تکشلا کے استاد نے کہا تھا، اپنے یا دوسروں کے خیالات کے مظاہر صرف الفاظ ہی ہو سکتے ہیں۔ ان کی ماہیت کا مطالعہ کرنا کس قدر ضروری ہے۔ الفاظ کے راستے کے بنا خالص خیال تک کس طرح پہنچ پاو? گے؟ آواز الفاظ کا پراکرت گن ہے۔ اور مادہ ابدی ہے۔ وید زبان کی شکل میں برہما ہے اور مادہ برہما ہے۔”
اس ناول کے بعد ‘تکشلا’ سے ایک رشتہ سا جڑ گیا تھا۔ہم جب ٹیکسلا کے اجڑے ہوئے شہروں اور یونیورسٹیوں میں اکیلے گھومتے پھرتے ہیں، تو دل و دماغ میں کہیں یہ سارے آثار جاگ جاتے ہیں، معلم اپنے شاگردوں کو کائنات کے راز سمجھا رہے ہیں، دور کہیں بھیڑوں کے گلے چر رہے ہیں، کسی شاخ پر کوئل کوک رہی ہے، پانی کے ٹھنڈے نالے بہہ رہے ہیں، جنگل میں ہرنوں کی ڈاریں بے خوف و خطر گھوم رہی ہیں، بازاروں میں چہل پہل ہے، کسی گھر کے آنگن میں خوبصورت آنکھوں کو کاجل کی لہر دے کر اور خوبصورت بنایا جا رہا ہے۔ یہ تھا پر امن، تہذیب یافتہ اور سحر انگیز ٹیکسلا۔ لیکن اب ان سارے منظروں کے رنگ ہمارے ذہنوں میں رہ گئے ہیں۔ یہ ہی جیون کا چلن ہے۔ کیا کیا جائے۔ چلیے ٹیکسلا کے مختصر سے سفر پر چلتے ہیں۔
ٹیکسلا جس کو ہم پتھروں کا شہر کہتے ہیں، ماضی میں وہ سینٹرل ایشیا جانے کے لیے ایک شاندار گزرگاہ تھی، یہ ایک ایسا شہر تھا جہاں سکون، امن اور زندگی کے فلسفے اگتے تھے، اس لیے یہ شہر ایسی جگہ بنا ہوا تھا جہاں حملہ آوروں کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی تھی، اور وہ بڑی آسانی سے قبضہ کر لیتے تھے۔
یہ سب شاید اس لیے تھا کہ جہاں زندگی علم اور فلسفوں کی گھنی چھاو?ں میں گذرتی ہو وہاں ہتھیاروں کو بنانے اور دھار دینے کی نہ سوچ ہوتی ہے نہ وقت۔ سلمان رشید لکھتے ہیں: "موئن جو دڑو اور ہڑپہ جنہوں نے قدیم عراق کے شہر ‘ار’ اور ‘نینوا’ کو آج سے 6 ہزار برس پہلے بہت کچھ سکھایا، ان کو اگر چھوڑ بھی دیں اور صرف ٹیکسلا کی بات کریں تو اس کے متعلق سکندر کے تاریخ دانوں سے بہت کچھ پتہ چلتا ہے۔ ان میں کچھ تو وہ تھے جو سکندر کے ساتھ آئے تھے، جنہوں نے بہت کچھ لکھا، اور جس کو بنیاد بنا کر بعد میں ماخذ تواریخ قلم بند کیں۔
ان میں اول تو سکندر کا جرنیل ‘نیارکس’ (Nearchus) تھے جس کی تصنیف کے کچھ حصے ہم تک پہنچے، اس کے علاوہ یونانی سفارتکار ‘میگاستھینیز’ (Megasthenes) تھے جو سکندر سے محض 25 برس بعد ‘چندرگپت موریا’ کے دربار میں سفیر بن کر آیا اور یہاں 15 برس تعینات رہا۔ اس طویل عرصے میں اس شخص نے یہ ملک گھوم پھر کر خوب دیکھا اور اپنے ملک واپسی پر Indika نامی کتاب لکھی جو ٹیکسلا کے بارے میں ایک خزانہ ہے۔۔”
ٹیکسلا کے نام کے حوالے سے بہت ساری روایات ہیں جو ہمیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ کہتے ہیں ‘ٹیکسلا’ کا پرانا نام ‘ٹکسا شیلا’ ہے۔ "ٹکسا” سنسکرت میں ‘کالے ناگ’ کو کہتے ہیں. ناگ کی پوجا یہاں کے قدیم لوگوں کی روایت ہے، آریائی روایت نہیں۔ ناگ کو دیوتا مان کر پوجا کرنے والی قومیں کسی زمانے میں ٹیکسلا کے آس پاس موجود تھیں۔ قیاس کہتا ہے کہ ٹیکسلا آریوں کے ورود کے پیشتر ‘ناگاو?ں ‘ کی بستی رہی ہوگی جس پر آریوں نے قبضہ کیا۔ بلکہ آریوں نے بعد میں جو شہر بسائے ان میں سب سے بڑا مرکز ‘ٹیکسلا’ تھا، اور ٹیکسلا کو تجارتی مرکز بنانے کے لیے جو اہم سبب تھا وہ موجود تھا۔
"پاکستان میں تہذیب کا ارتقا” کے مصنف سبط حسن لکھتے ہیں:”ڈھائی سے تین ہزار برس پیشتر یہ جگہ تین اہم تجارتی راستوں کا مقام اتصال تھی۔ ایک راستہ یورپ سے آتا تھا جو موریہ عہد سے آج تک بنگال سے پشاور جانے والی شاہراہ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ دوسرا راستہ مغربی ایشیا سے باختر اور پشکلاوتی (چارسدہ) سے گذرتا اور دریائے سندھ کو عبور کرتا ٹیکسلا کے مقام پر ختم ہوتا تھا، اور تیسرا راستہ سری نگر، بارہ ملا، اور ہری پور سے ہوتا ہوا ٹیکسلا پہنچ کر دوسرے راستوں سے مل جاتا تھا۔”
جس طرح انسان کی خوش قسمتی اور بدقسمتی ہوتی ہے، اس طرح زمینوں، خطوں، اور وادیوں کے بھی اپنے نصیب اور بدنصیبیاں ہوتی ہیں۔ یہ راستے ٹیکسلا کے لیے جیسے آبیاری کی نہریں بن گئیں، اور ٹیکسلا کے بھاگ جاگ اٹھے۔
‘ہخامنشی’ خاندان کے ‘داریوش’ (486-522) ق۔م میں پہلے گندھارا پر قبضہ کیا اور پھر وادیء سندھ کے پورے علاقے کو اپنی قلمرو میں شامل کرلیا۔ رومی سلطنت کے بعد یہ دوسری بڑی سلطنت تھی جو 7.5 ملین کلومیٹر میں پھیلی ہوئی سلطنت تھی۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ ‘ہندوش’ (پنجاب اور سندھ) اس سلطنت کا ایک تہائی خراج ‘سپت سندھو’ سے وصول ہوتا تھا۔ اس لحاظ سے ہندوش ہخامنشی سلطنت کا سب سے دولت مند صوبہ تھا۔ وادی سندھ کا علاقہ تقریباً 200 سال تک ایران کا باجگذار رہا۔
ٹیکسلا نے فروغ اسی زمانہ میں پایا۔ سبط حسن لکھتے ہیں: "سلطنت کے سب سے دولت مند صوبے کے صدر مقام کی حیثیت سے ٹیکسلا کو تین تہذیبوں، ہندوستانی، ایرانی، اور یونانی سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔
ڈاکٹر بدھا پرشاد لکھتے ہیں: "یہ وہ زمانہ تھا جب ٹیکسلا کی شہرت تمام شمالی ہند میں پھیل چکی تھی۔ ‘مگدھ’ (بِہار) تک کے طلباء طویل فاصلہ طے کرکے یہاں کی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرنے آتے۔ کاشی کے راجہ کے پروہت کے بیٹے ‘جوتی پال’ نے ٹیکسلا ہی میں حربیات کا علم سیکھا اور پھر راجہ کا سپہ سالار مقرر ہوا۔ اسی جگہ مگدھ کے راجہ ‘بمبسار’ اور ‘گوتم بدھ’ کے مشہور طبیب ‘جیوکا’ نے ٹیکسلا کے بیدوں سے حکمت سیکھی اور واپس جا کر مگدھ راج کا درباری طبیب مقرر ہوا۔ ‘کوشل’ کے روشن خیال راجہ ‘پراسینہ جیت’ نے یہاں کی درسگاہوں میں تعلیم پائی۔
ہخا منشی، فرمانرواو?ں نے آرامی زبان کو اپنی سلطنت کی سرکاری زبان قرار دیا جس کی وجہ سے اس نے یہاں بھی رواج پایا۔ سکوں کا رواج بھی ان ہی کے زمانے میں یہاں متعارف ہوا۔ ان ٹھپے دار سکوں کو پاننی ‘قرش پان’ لکھتا ہے۔ قرش قدیم پہلوی زبان کا لفظ ہے جو مخصوص وزن کو ظاہر کرتا ہے۔ اس قسم کے ٹھپے دار سکے نند راجاو?ں نے اور پھر موریوں نے سارے ملک میں رائج کیے۔ ان سکوں کی سب سے بڑی ٹکسال یہاں ٹیکسلا میں تھی۔
ہم سکندر اعظم کے حملے سے پہلے اگر مڑ کر تھوڑا سا پیچھے دیکھ لیں تو شاید بہتر ہوگا، کیونکہ تواریخ میں پیدا ہونے اور مرنے، حکومتوں کے قائم ہونے اور ختم ہونے کے سن اپنے آپ میں ایسے گتھم گتھا ہیں کہ تصور کے میدان میں بس دھول ہی اڑتی ہے۔ کچھ مستند تاریخ کے کتابوں کو چھوڑ کر ہر کسی نے اپنے مطالعے اور مشاہدے سے بات لکھی ہے۔ بہرحال سفر بڑا ہے اور ہم جلدی میں بھی ہیں۔ میں آپ کو فقط یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ویدک زمانے (جس کو دو زمانوں میں تقسیم کیا گیا ہے، ایک ‘رگویدک دور’ (1000-1500) اور جو اب ویدک دور ہے (600-1000) قبل مسیح) میں ‘سپت سندھو دیش’ میں سات آٹھ بڑی ریاستوں کے نشان ملتے ہیں جن میں ایک سندھ اور جہلم کے درمیان گندھارا تھا۔
آریوں نے بعد میں جو شہر بسائے ان میں سب سے بڑا مرکز ٹیکسلا تھا۔ سبط حسن لکھتے ہیں: "مہا بھارت کے ساتھ وادیء سندھ میں آریائی تہذیب کا دور ختم ہوا جو رِگ وید سے شروع ہوا تھا، لیکن یہ ضرور تھا کہ جو بھی نئے فاتح آئے اور جو روایتیں آریوں نے قائم کی تھیں، ان کو دوسرے مٹا نہ سکے، خاص کر آریوں کی مذہبی زبان سنسکرت اور ان کی پراکرتوں بالخصوص ‘خروشٹی’ اور ‘شورسینی’ کو حاصل ہے۔ آگے چل کر یہی پراکرتیں ہماری زبانوں کی اساس بنیں۔”
یہ وہ ہی زمانہ تھا جب مگدھ سلطنت جنوبی ہند کی ایک تہذیبی یافتہ سلطنت تھی۔ مہاویر (527-599) ق۔م میں جین مت، اور سدھارتھ (483-563) ق۔م میں بدھ مت کی داغ بیل ڈال چکے تھے۔
فارس کے حاکموں کا ذکر مختصراً پہلے ہو چکا ہے۔ 327 قبل مسیح میں ‘ہخامنشی’ سلطنت چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ گئی تھی۔ اسی زمانے میں سکندرِ اعظم نے اپنی طاقت کے بل پر اپنی حکومت قائم کی۔ ٹیکسلا کے راجہ امبی نے سکندر کی اطاعت کی، البتہ جو پنڈت تھے وہ اس اطاعت کے حق میں نہیں تھے۔
آریان (Arrian) (دوسری صدی کا یونانی موّرخ) نے لکھا کہ دریائے جہلم اور سندھ کے درمیان واقع ٹیکسلا بہت بڑا شہر ہے۔ سلمان رشید لکھتے ہیں: "چوتھی صدی قبل مسیح میں ٹیکسلا میں تین مذہب رائج تھے: ‘بدھ مت’، ہندومت’ اور ‘زرتشت’، یہ ایک پرسکون شہر تھا۔ یہاں بیوپار کے سودے کے لیے کوئی ایگریمنٹ نہیں تھا، بس زبان ہی سب کچھ تھی، اس کا احترام سب کچھ تھا۔”
‘چندرگپت موریا’ (298-322 ق۔م) کے لیے بہت ساری کہانیاں ہیں، جو کبھی اس کے لیے مثبت رائے قائم کرتی ہیں کبھی منفی۔ کچھ بھی ہو وہ ایک تیز دماغ اور مضبوط قوت ارادی کا مالک بادشاہ تھا۔ نند خاندان، جو مگدھ پر حاکم تھا، نے کبھی اس کو سکھ کا سانس لینے نہیں دیا۔ ایسا شاید انہوں نے ‘کوٹلیہ چانکیہ’ سے بھی کیا تھا جو ایک برہمن تھا اور اس نے اپنے بال کھول کر قسم کھائی تھی کہ جب تک مگدھ سلطنت کو برباد نہیں کرے گا، تب تک اپنے بال نہیں باندھے گا۔
چندر گپت نے مگدھ سے ہزاروں میل دور ٹیکسلا میں تعلیم حاصل کی۔ یہاں بیٹھ کر کوٹلیہ جو ٹیکسلا میں سیاست اور معاشیات کا ایک ماہر استاد تھا، وہ چندر گپت کا صلاحکار بنا اور کم فوج کے باوجود کوٹلیہ کی حکمت عملی کے نتیجے میں مگدھ سلطنت کو پاش پاش کردیا گیا۔
ڈاکٹر معین الدین ‘قدیم مشرق’ میں لکھتے ہیں: ‘موریاو?ں نے تمام برہمنی رسومات ختم کردیں۔ وہ برہمنوں کی بالادستی کو نہیں مانتے تھے۔ وہ ہندو مذہب کے روایتی، سماجی، مذہبی اور سیاسی نظریات کی مخالفت کرتے اور ذات پات کو نہیں مانتے تھے، اگر 265 ق۔م کا نقشہ دیکھیں تو پاٹلی پتر سے افغانستان، افغانستان سے ٹیکسلا تک، ٹیکسلا سے لے کر بلوچستان، حیدرآباد سندھ اور کچھ تک موریا سلطنت پھیلی ہوئی نظر آئے گی۔”
چندر گپت نے آخری وقت میں جین مت قبول کر لیا اور حکومت اپنے بیٹے بندوسار (273-298 ق۔م) کو دی جس نے پچیس برس تک حکومت کی، پھر زمانہ آیا اس کے بیٹے اشوک (232-273 ق۔م) کا۔ کلنگا کی جنگ میں مرے ہوئے لاکھوں انسانوں کے خون کے چھینٹے اس کے دامن پر آج بھی نظر آتے ہیں، لیکن یہ بھی ہے کہ اس جنگ نے اسے بدل کر رکھ دیا، اور اس نے اپنی وسیع حکومت میں بدھ مت جاری کیا۔ اشوک نے مشہور بھکشو دھرما راجیکا کو ٹیکسلا میں یونانی نوآبادیوں میں تبلیغ کے لیے بھیجا۔
بدھ مت وادی سندھ سے افغانستان اور وسطی ایشیا میں داخل ہوا، پھر چین کی راہ سے جاپان اور کوریا تک پہنچا۔ رفتہ رفتہ بھکشوو?ں کے لیے وہار اور اسٹوپا تعمیر ہونے لگے، اور یہ جگہیں تعلیم اور عبادت کا مرکز بن گئیں۔ ان میں سے بڑا مرکز ٹیکسلا تھا۔ ٹیکسلا کی وہ پاٹھ شالائیں جو ویر کے بھجنوں اور اپنشدھ کے اشلوکوں سے گونجتی تھیں، اب وہ بدھ مت کی درسگاہوں میں تبدیل ہوگئیں۔
اشوک کے بعد موریا سلطنت پر زوال آیا تو باختر کے یونانی نڑاد بادشاہوں نے وادیء سندھ پر قبضہ کرلیا لیکن پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ یونانیوں کے اقتدار کا سورج پہلی صدی میں ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔ ‘ساکاو?ں ‘ کی آخری یلغار میں انہوں نے یونانیوں کو شکست دے کر گندھارا پر قبضہ کرلیا اور رفتہ رفتہ ان کی سلطنت پنجاب، اور سندھ سے متھرا تک پھیل گئی (90 ق-م سے 25ع)۔ ان کا جھکاو? بدھ مت کی طرف تھا، مگر دوسرے مذاہب سے بھی ان کا برتاو? بڑی رواداری اور نرمی کا رہا۔ ساکاو?ں کو ٹیکسلا میں راج کرتے 100 سال گذرے تھے کہ ‘پارتھیوں ‘ کا ریلہ آیا اور ساکاو?ں کے اقتدار کو بہا کر لے گیا۔
سبط حسن لکھتے ہیں: "پارتھین ایرانی نڑاد نہایت مہذب لوگ تھے، چنانچہ گندھارا آرٹ کی ابتدا انہی کے دور میں ہوئی۔ پارتھیوں نے یہاں 53 برس تک حکومت کی۔ اس کے بعد ‘کشن’ قوم نے سر اٹھایا اور وادیء سندھ پر قبضہ کرلیا۔ کشنوں نے 200 برس تک حکومت کی۔ سلطنت کا مرکز چونکہ گندھارا کا علاقہ تھا، اس لیے گندھارا کو ترقی کے خوب مواقع ملے۔ گندھارا آرٹ اس تہذیبی ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔”
آرین، یونانی، ساکا، پارتھین، اور کشن تہذیبوں کا نچوڑ ہے ‘گندھارا آرٹ’۔ اس آرٹ کا مرکز یوں تو ٹیکسلا تھا، لیکن اس کے سحر کی جڑیں دور پشاور، مردان، سوات، افغانستان، حتیٰ کہ وسطی ایشیا تک پھیلی ہوئی تھیں۔
ابتدا، کمال، خوبصورتیوں، دکھ سکھ، شکست و ریخت کے ذائقے کی کیفیتوں کو محسوس کرتے ہوئے ہم آخر وہاں آکر پہنچے جہاں کمال کا اختتام ہوتا ہے اور زوال کے زینوں کی ابتدا ہوتی ہے۔ یہ فطرت کا اصول ہے کہ ہر کمال کی کوکھ میں زوال کا بیج ہوتا ہے۔ بس اس کے اگنے کا وقت، حالات اور واقعات مقرر کرتے ہیں۔
یہاں بھی یہ وقت آ پہنچا۔
460ع میں ظالم، وحشی اور بے رحم ‘حنوں ‘ نے اپنی وحشتوں سے شہروں اور بستیوں کو مسمار کردیا، اسٹوپاو?ں اور وہاروں میں آگ لگا دی، ہزاروں بے گناہ جان سے مارے گئے، اور گندھارا کا فن ایسا مٹا کہ پھر کبھی زندگی کی سانس اس میں پھونکی نہ جاسکی۔
مشہور چینی سیاح ہوانگ سانگ حنوں کے آخری دنوں میں 629ع میں یہاں آیا۔ سوات کا ذکر کرتے وہ لکھتا ہے: "یہاں کسی زمانے میں 18 ہزار بھکشو رہتے تھے لیکن اب وہار اور اسٹوپا ویران پڑے ہوئے ہیں۔ البتہ یہاں ہندوو?ں کے دس مندر بن گئے ہیں۔” ٹیکسلا کا حال بھی کچھ اس طرح کا بیان کیا گیا ہے۔
سبط حسن لکھتے ہیں: "حقیقت یہ ہے کہ پانچویں، چھٹیں اور ساتویں صدی کا زمانہ اس تہذیب کا تاریک ترین دور ہے۔ ان تینوں صدیوں میں علم و فن نے کوئی ترقی نہیں کی۔” دسویں صدی میں کتاب الہند کے مصنف ابو ریحان البیرونی (1048-973ع) نے ٹیکسلا کو دیکھا تھا تو یہ شہر ویران ہوگیا تھا۔ یہ ایک کمال اور اس کے زوال کی کہانی تھی مگر یہ ضرور ہے کہ ایسا کمال بہت ہی کم علاقوں کے نصیب میں ہوتا ہے، یہ تہذیبوں کو جوان کرنے کا یادگار زمانہ تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں