کرونا۔۔۔حقیقت یا گریٹ گیم

تحریر؛۔ شہبازطارق ایڈووکیٹ
چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والی عالمی وباکرونا COVID-19 تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔گذشتہ ڈھائی ماہ میں دنیا میں 4,006,257 افراد اِ س وبائی مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں۔وولڈومیٹر کی تازہ رپورٹ کے مطابق اس مرض سے اب تک 278,892 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ 1,527,583 افراد صحت یاب ہوچکے ہیں۔ اندیشہ ظاہر کیا جا رہاہے کہ آنے والے چند مہینوں میں یہ تعداد کروڑوں تک جا پہنچی گی کیونکہ ڈھائی ماہ گزرنے کے باوجود پوری ترقی یافتہ دنیااس وبا کو کنٹرول کرنے کیلئے کوئی ویکسین تیار نہ کر سکی۔ اور نہ ہی مستقبل قریب میں اسکا امکان نظر آ رہا ہے۔ امریکہ جو کہ دنیا کا سپر پاور ہے نے بھی ویکسین کی تیاری میں ایک سال کے عرصے کا عندیہ دیا ہے۔ دوسری جانب چین جہاں سے یہ وباپھیلی وہاں اس وبا پر کنٹرول پا لیا گیاہے۔ چین کے شہر ووہان میں معمولات زندگی رواں دواں نظر آ رہے ہیں۔ جس سے میرے ذہن میں کئی سوالات جنم رہے ہیں جن میں سر دست کرونا۔۔۔۔ حقیقت یا گریٹ گیم ہے؟؟;میرے ذہن میں جنم لینے والے ان گنت سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی جستجو اس عالمی وباسے جڑے اعدادوشمار، عالمی سطح پر اس وباکو کنٹرول کرنے کی ضمن میں پیش رفت۔ انٹرنیشنل میڈیا پر ہونے والے بحث و مباحثے، عالمی اداروں کی خاموشی و سست روی اور انٹرنیشنل طاقتوں کے درمیان عدم تعاون کا فقدان جیسے معاملات مجھے حیران و ششدر کئے ہوئے ہیں۔ اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس بات کو لیے بیٹھا ہوں کہ کرونا۔۔۔ بڑی طاقتوں کے درمیان عالمی جنگ کاآغاز ہے۔چین کئی دہائیوں سے عالمی معیشت کو کنڑول کرنے کاخواب دیکھ رہا ہے۔ ایک حد تک یہ بات درست بھی ہو گی کہ چین پوری دنیا تک اپنے پروڈکٹس متعارف کرانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ جبکہ وسطی ایشیائی ممالک میں تمام منڈیوں پر اپنا غلبہ قائم کر چکا ہے جہاں دوسری عالمی طاقتوں کے پروڈکٹس ملنا محال ہو گیا ہے۔ چین اپنے معاشی غلبے کو برقرار وسعت دینے کیلئے نہ صرف وسطی ایشیا بلکہ یورپی ممالک سے بھی کاروباری تعلقات استوار رکھا ہوا ہے۔ گوادر پورٹ منصوبہ اور ون بیلٹ و ن روٹ کے گرینڈ منصوبوں کی کامیابی سے چین کے سپر پاور بننے کا خواب مزید پایہ تکمیل جانب رواں دواں ہو سکے گا۔جبکہ دوسری جانب امریکہ اور دوسری طاقتیں کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گی کہ چین دنیا پر برتری حاصل کر سکے اور سپر پاور کی دوڑ میں پہلے نمبر پر آئے، اس لیے کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود گوادرپورٹ جیسامیگاپروجیکٹ شروع نہ کرایا جا سکا۔ امریکہ کی گوادر میں مداخلت اس بات کی دلیل ہے کہ امریکہ وسطی ایشیائی ممالک کا کنڑول کسی بھی صورت چین کے ہاتھوں میں دینے کیلئے تیار نہیں۔ افغانستان میں امریکی جارحیت و غلبہ کی عکاسی کر تا ہے۔چین کا کرونا کے خلاف جنگ میں کامیابی پر جہاں چینی ڈاکٹرز خراج تحسین کے لاحق ہیں۔ وہیں چینی عوامی بھی مبارک باد کے مستحق ہیں۔ جنہوں نے چینی حکومت کا کہنا مان کر خود کو کورنٹائن کرتے ہوئے اس مہلک بیماری سے اپنی جان خلاصی کی۔ چینی ڈاکٹرز اور سائنسدانوں کو جب ان کی حکمت عملی بابت سوالات کیے گئے تو انہوں نے کورونا کیخلاف جنگ میں نیچرل طریقہ علاج جیسے خود کو الگ تھلگ رکھنے، پانی کے زیادہ استعما ل، صفائی ستھرائی کے اصولوں کی پاسداری اور گرم پانی کے جسم کو سیخ دینے جیسے نیچرل طریقوں سے کورونا کو کنڑول کرنے کا عندیہ دیا مگر دوسری جانب یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ پوری دنیا ڈھائی ماہ گزرنے کے باوجود بھی اس موذی مرض پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ اسکا کہیں یہ مطلب نہیں کہ مقتدرہ قوتیں خود نہیں چاہتیں کہ کرونا پر کنٹرول حاصل ہو سکے۔۔۔۔۔!گذشتہ ڈھائی ماہ کے تجربات ہمیں ا س بات کی طرف مائل کرتے ہیں کہ WHO کی موجودگی میں بھی ابھی تک کرونا کی بابت ایسی کوئی انٹرنیشنل کانفرنس منعقد نہ ہو سکی جس میں دنیا بھر سے ڈاکٹر ز، سائنس دان وغیر ہ آ کر اپنے تجربات سے ایک دوسرے کو آگاہ کرتے کیونکہ امریکہ اور اسرائیل کرونا ویکسین تیار کر کے معاشی سبقت حاصل کر نا چاہتے ہیں۔امریکہ کے دو ڈاکٹرز کی پریس کانفرنس بھی معنی خیز ہے جنہوں نے کرونا کو سازش قرار دیتے ہوئے انٹرنیشنل گریٹ گیم کا حصہ قرار دیدیا ہے۔جہاں پوری دنیا کورونا وائرس کی وباکے لپیٹ میں ہے وہیں پاکستان بھی اس وبا سے بچ نہ سکا اور اس وبا نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک کو دبوچ لیاہے۔ صوبہ سندھ کا شہر کراچی جو پاکستان کی معیشت کو سنبھالنے کا ایک اہم عنصر ہے لاک ڈان کی وجہ سے پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت میں جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کر گئی۔ لاک ڈان کی وجہ سے کاروبار بری طرح مثاثر ہونے سے لوگ نان شبینہ کے محتاج ہوگئے۔ دوسری جانب کراچی جو روزگار کا شہر سمجھا جاتاہے جہاں دیہاڑی دار طبقے کو بیروزگار کر دیا۔ فیکٹریاں بند، دکانیں بند،گاڑیاں بند، ہر طرف شہر قائد بے نور نظر آ رہا ہے مگر دوسری جانب اس وباکے متاثر ہوئے لوگوں کی مدد کو یہاں کی سماجی تنظیموں نے اپنا کردار ادا کر تے ہوئے حکومت سے بڑ ھ کر اپنا حصہ ڈال کر بھوکے اور بے یارو مددگار لوگوں کو سہارا دیا جو یقینالاحق تحسین ہے۔مگر دوسری جانب صوبہ بلوچستان جو ہر وقت حکومتی عدم توجہی کا نشانہ بنتا چلا آ رہا ہے اس عالمی وبا کے دوران بھی عدم توجہی کا شکارہے۔کرونا کی وجہ سے نافذ لاک ڈان نے جہاں شہری زندگی کو مفلوج کر دیا ہے وہیں بلوچستان کی دیہی آبادی بھی بری طرح سے متاثر ہوئی ہے۔ بلوچستان میں رہنے والے افراد کا روزگار کا زیادہ تر انحصار ماہی گیری، مال داری، زراعت اورمزدوری پر ہے مگر لاک ڈان کی وجہ سے یہ طبقہ بری طرح متاثر ہواہے۔دوسر ی جانب بلوچستان کی آبادی چونکہ دوردرازعلاقوں میں مقیم ہے جہاں عدم رسل ورسائل و بندش آمد و رفت سے بھی لوگ بھوک و افلاس کی داستان بن چکے ہیں۔ بلوچستان کے وہ اضلاع جو ایرانی بارڈرز پر واقع ہیں اس وبائی دور میں زیادہ متاثر ہیں کیونکہ ان اضلاع کا مکمل دار و مدار ایران پر رہتا ہے۔ یہاں کے لوگ ایران کی خوردنی اشیا کا استعمال کرتے ہیں۔ تیل اور دیگر ضروریات زندگی کیلئے بھی ایران پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ ایرانی بارڈر بند ہونے کی وجہ سے یہاں کی آبادی کوترسیل ہونے والا خوراک مکمل ختم ہو چکاہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی عدم فراہمی سے لوگ بد حالی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہی حال بلوچستان کے تمام اضلاع کا ہے۔ حکومتی جانب سے ملنے والی امداد ناکافی اور اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مصداق ہے۔ حکومت کی جانب سے ترسیل ہونے والے راشن بیگ بھی حقدار ان کو نہ مل سکے جہاں ہر بااثر شحص نے اپنے اپنے رشتہ داروں اور صاحب حیثیت لوگوں میں یہ راشن بانٹ کر بھوک و افلاس سے مرنے والے غریب کو اور موت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ دوسری جانب احساس پروگرام کے تحت غربا کو بارہ ہزاروالی رقم نے بھی بے احساسی کی داستان بنا دی۔ احساس پروگرام کے تحت ملنے والی رقم کی تقسیم مکمل طور پر غیر منصفانہ رہی وہیں اس رقم کی تقسیم میں بے ضابطگیوں سے راقم کو یوں محسوس ہوا کہ کوروناوائرس حقیقی طور پر ایک عالمی گریٹ گیم ہے۔ یہ کوئی موذی مرض نہ ہے جیسے اس کو دکھا یا جا رہا ہے۔ اگر ہوتا توحکومت کی جانب سے ملنے والے راشن بیگ گھروں میں پہنچائے جانے چاہیے تھے، احساس پروگرام کی رقم اہلکاران سرکارگھر گھر جا کر بھی دے سکتے تھے مگر ہر ضلع میں ہزاروں کا جم غفیر نظر آیا جو ایک دوسرے سے اسطرح چمٹے ہوئے ہیں جیسے کرونا ہے ہی نہیں اور اگر ہوتا اور حقیقتا پاکستان میں شرح اموات لاکھوں کو پہنچ جاتی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں