علی حان المروف علی محمد چگھا بزدار

زوراخ بزدار
کوہ سلیمان ایک مردم خیز خطہ ہے جہاں کافی نامور لوگ پیدا ہوئے انکے داستانوں اور کارناموں کی کوئی کتاب موجود ہو نہ وہ لوگوں کے دلوں میں صدیوں سے زندہ ہیں. کوہ سلیمان کے بلوچوں میں بہت سے نامور گذرے مگر کوہ سلیمان کو اگر کسی نے پہچان دی تو وہ دو نام ہیں پہلے پیدا ہوئے شاعر مست توکلی دوسرے شاعر علی محمد چگھا بزدار. اس وقت ہمارا موضوع شاعر علی محمد چگھا بزدار ہی ہے. شاعر علی محمد چگھا بزدار ایک انتہائی غریب خاندان میں پیدا ہوئے انکے والد کا نام لال حان تھا لال حان لوگوں کی بھیڑ بکریاں چرا کر اپنی زندگی گزارا کرتے تھے. انکی کوئی موروثی ملکیتی جائیداد نہیں تھی. انکے ہاں کتنی اولاد ہوئی اگر خواہ مخواہ کوئی شخص مبالغہ نہ کرے تو شاید کسی کو معلوم نہیں چونکہ اس زمانے کے نامی گرامی لوگوں کی تاریخ محفوظ نہیں لال حان جیسے غریب کا تو آج نام بھی لوگ بھول چکے ہوتے اگر علی محمد چگھا بزدار انکا بیٹا نہ ہوتا.
چگھا بزدار 1840 اور 1850 کے درمیان پیدا ہوئے والدین نے انکا نام علی حان رکھا
جس کے ثبوت کے طور پہ انکے ہم عصر شعراء کا کلام گواہ ہے۔
سکندر جیئانی کھوسہ انکو یوں مخاطب کرتے ہیں.
گند علی حان ء َ شاعرا ہم چوش گشئے
ترجمہ
اے قاصد اگر شاعر علی حان تمہیں ملے تو انکو اس طرح کہنا
محمود بزدار جو انکے ہم عصر شاعر تھے وہ بھی انکا نام علی حان ہی لیتے ہیں
تؤ علی حاں شاعرے ئے مڑا ترا چے ئا گشی.
ترجمہ
علی حاں تم شاعر ہو تمہیں کوئی کیا سمجھائے (تم خود سمجھدار ہو)
اسکے علاوہ حافظ محمود بزدار جو انکے ہم عصر تھے کہتے ہیں.
علی حاں زور وثار اساری
ترجمہ
علی خود ستائی کرتا ہے
اب تینوں کے کلام سے ثبوت پیش کرنے کے بعد اس بات کی کوئی گنجائش باقی نہیں کہ ہم اس نام پہ بضد رہیں جو بعد والے لوگوں نے رکھا. بہرحال تحریری طور پہ علی محمد چگھا بزدار معروف ہوا. بلوچی اکیڈمی کے ابتدائی دنوں میں گفتارے چگھا کے نام سے انکا کلام حاجی مومن بزدار نے جمع کرکے اکیڈمی کو دیا اور اکیڈمی سے چھاپا بھی گیا. پھر ایک طویل خاموشی کے بعد اگست 1996 کو غلام قادر بزدار نے انکے کلام کو اضافے اور اردو نثری ترجمہ کے ساتھ چھپوایا. اب کی بار اس کتاب میں کلام کا حجم پچھلے کتاب کی نسبت زیادہ تھا. پھر جب اسکا نثری ترجمہ ظہور احمد فاتح نے سنا تو انہوں کچھ نظموں کا منظوم اردو ترجمہ کیا جو عکاس فطرت کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔
پھر کچھ محنت کے بعد انکا کچھ کلام ہاتھ لگا جو ناچیز نے جناب غلام قادر بزدار کے حوالے کیا جو اس وقت بلوچی شاعری کے بنیادی اصناف سخن پہ ایک کتاب مرتب کررہے تھے اور وہاں ایک حصہ تھا پھسو (شاعری مقابلہ) تو دو نظمیں انہوں نے اپنی کتاب میں شامل کیں اس کتاب کا نام انہوں نے ہفت رنگ رکھا. اسکے بعد انہوں شاعر علی محمد چگھا بزدار کے حالات زندگی پہ ایک کتاب لکھی جس کا نام رکھا تھا،، ناخواندہ معلم اخلاق،، رکھا گیا اس کی معلومات کے متعلق میں یہ نہیں کہتا کہ وہ حتمی ہیں مگر چگھا بزدار کے متعلق کچھ بنیادی معلومات ضرور ہیں. اس کے علاوہ علی حان المعروف علی محمد چگھا بزدار پہ کافی کچھ لکھا گیا. مگر بقول شاعر
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔
جو کچھ لکھا یقینی بات ہے وہ کوئی آسان کام نہیں تھا اس میں مومن بزدار اور غلا قادر بزدار کی کافی محنت اور دلی جذبے کا ثبوت ملتا ہے. مگر چگھا بزدار کی ذات انکا کلام اتنا اہم اور عظیم ہے کہ انکے لئے ایک مومن یا ایک غلام قادر نہیں ایک پورے ادارے کی ضرورت ہے. چگھا بزدار بزدار کا ایک ایک لفظ معنی کا سمندر ایک ایک تشبیہ اپنے اندر سو تشریحات سموئے ہوئے ہے. چگھا بزدار ایک عہد ساز شخصیت تھے جن کے کلام میں جو ہمت جوش ولولہ اور پیغام ہے وہ کسی اور بلوچ شاعر کے ہاں کہیں نہیں ہے۔
اس لئے میں کہتا ہوں کہ چگھا بزدار کو سمجھنا اتنا آسان نہیں دانتوں پسینہ آتا ہے. اب اتنے بڑے نام اور اسکے کلام کے لئے ہونا تو یہ چاہیے کہ ایک مکمل تحقیقاتی ادارہ ہو قائم کیا جائے. جو انکی شخصیت اور فن پہ کام کرے. جس ذات نے جبر و استبداد کے سامنے حالت بے سرو سامانی میں اپنی مکمل انا کے ساتھ کھڑے رہ کر ایک ایسی مشکل زندگی گزاری جس کی مثال شاید اب مشکل سے ملے کہ انکو انکی راست گوئی کے بنا پہ قبائلی رشتے سے dis own کیا گیا پھر بھی اسکی پائے استقامت میں لغزش نہ ائی اس عزم و ہمت کے پہاڑ کا دوسرانام چگھا بزدار ہے. انہوں سردارانہ اور جاگیردارانہ نظام کو للکارا لوگوں کو اس سے گریز کی دعوت دی انکے اس فعل سے ایک عزم اور حوصلہ پیدا ہوا کہ کچھ اور لوگ بھی سر اٹھا کر جینے کا سوچنے لگے۔
وہ زندگی کو سانسوں کی گنتی کی بجائے ایک جبر کے مقابلے کا نام دیتے تھے. وہ عیب جوئی کی بجائے عمل سے سچ کو ثابت کرنے کے قائل تھے. وہ خود داری پہ سودے بازی کو خود فریبی اور خدا فریبی کا نام دیتے رہے. وہ انسان کو سر جھکانے کی بجائے سر اٹھا کر جینے کا درس دیتے تھے. وہ لوگوں کو جبر و جابر کے پنجے سے آزاد دیکھنا چاہتے تھے. وہ دولت کے چند ہاتھوں میں جمع ہونے کو تقدیر کی کارستانی کی بجائی انسانی خود ساختہ جرم کہتے تھے کہہ جب حقدار حق کی خاطر آواز نہیں اٹھاتا تو ظالم اپنے ظلم کے زور سے طاقتور اور کمزور اسکے جبر سے کمزور تر ہوتا جاتا ہے. وہ زر پرستوں کو مردار خور گدھ کہا کرتے تھے۔
انہوں نے جاگیردار اور سردار کو ابر بے باراں سے تشبیہ دی۔
اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ
ان سے مطلع صاف ہو تو بہتر ہے.یعنی خس کم جہاں پاک والی بات ہے۔
وہ شاعر کو معاشرے کا پیرہن ساز کہتے تھے. کہ شاعر جانتا ہے کہ معاشرے کو کیسا لباس فٹ آسکتا ہے کس طرح کے لباس سے اسکے عیوب کو ڈھانپا جاسکتا ہے اور کس طرح کے لباس سے معاشرہ ایک دیدہ زیب معاشرہ بن سکتا ہے۔
وہ شاعر کو الفاظ ک جادو گر نہیں بلکہ بلکہ معاشرے کا وہ فرد سمجھتے تھے جو جو چوٹی پر کھڑے ہوکر اس لشکر سے خبردار کرتا ہے جو ابھی آنکھوں سے اوجھل ہے. وہ عقل مندوں کے صحبت کے قائل تھے جہلاء کی ہم نشینی انکے ہاں معلوم کو معدوم ماننے کے مترادف تھا. وہ کہتے تھے کہ زمانہ ہمیشہ عقل مندوں کو پاگل سمجھ کر نظر انداز کرتا ہے اور تم بھی مجھے اور میری باتوں کو نظر انداز کررہے ہو وقت ثابت کردے گا جو کچھ آج میں کہہ رہا ہوں وہی سچ ہے. اور وہ دعوے سے کہتے تھے کہ تم ہنس رہے ہو اور فقرے کس رہے ہو ایک دن آئے گا کہ تمہاری آنکھیں دیکھیں گی اور تمہارے کان سنیں گے جو کچھ میں کہہ کر جارہا ہوں وہ حرف بہ حرف سچ ثابت ہوگا. وہ ہر ظالم کو سیاہ مار یعنی کوبرا سانپ کہتے تھے مگر انکی دعوت تھی کہ کوبرا کو بھی اگر ہلکا سا زخم آئے تو چیونٹیاں اسکو ختم کرنے میں کافی ہیں کیا تم سے اتنی ضرب بھی نہیں لگتی کہ اس کے جسم پہ چیونٹیوں کے دندان جم سکیں اور وہ اسے نوچ کر ختم کردیں. وہ کہتے تھے کہ دنیا کا سردار و جاگیردار اگر انسانوں کو بھیڑوں کا ریوڑ ہی سمجھیں تب بھی کام چلے گا کہ انکا اون استعمال کریں اور چمڑے کو ادھیڑنے سے گریز کریں. مگر افسوس کہ وہ چمڑا اتارنے کے در پہ ہیں. چگھا بزدار ایک بھر پور درس دے کر اس دنیا سے رخصت ہوئے کسی نے نہ انکی قدر کی نہ انکے پند و نصائح کی. مگر یقین سے کہتا ہوں کہ انسانیت کو کل سے زیادہ آج چگھا بزدار کی ضرورت ہے چگھا کو پڑھا جائے اور میں نوجوانوں سے کہتا ہوں اگر کچھ بننا ہے تو چگھا بزدار کے کلام کا ورد کیا کریں۔
چگھا بزدار پہ اقبال کے یہ اشعار سو فیصد فٹ ہیں جو انہوں نے کارل مارکس کے لئے کہے تھے۔
وہ کلیم بے تجلی، وہ مسیح بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب
کیا بتاؤں کیا ہے کافر کی نگاہ پردہ سوز
مشرق و مغرب کی قوموں کے لیے روز حساب!
اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا طبیعت کا فساد
توڑ دی بندوں نے آقاؤں کے خیموں کی طناب.
آقاؤں کی طنابیں کب اور کہاں ٹوٹی ہیں اس تفصیل کی چندان ضرورت نہیں مگر چشم عصر نے دیکھا بھی ہے اور دیکھتا رہے گا. کیونکہ غلام ذہن اتنی شدید سمعی اور بصری معزوری کا شکار ہیں. کہ انکو ہاتھی ہمالیہ دکھتا ہے۔
آج اگر کہیں شعور و آگہی کا کوئی دیا ٹم ٹما رہا ہے تو یقین کریں اس میں چگھا بزدار کا خون بطور تیل کے جل رہا ہے. جس ذات نے ایک خیمہ تک اپنی زندگی میں نہیں بنایا جس کے ہاں اپنے کفن کے پیسے نہیں تھے اور نہ کوئی اور اس پہ کفن کے پیسے خرچ کرنے کو تیار تھا بس اس ذات کو جس نے پوری زندگی اپنے پسماندہ ذہنوں کے علاج پہ لگادی انہوں نے اسکو دو پرانے چادروں میں لپیٹ کر دفن کردیا مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ جس وجود مسعود کو ہم مٹی میں دفنا رہے ہیں یہ اپنے کلام کی شکل میں زندہ رہ کر دلوں پہ حکمرانی کرے گا 1934 یا 35 کو دنیا سے رخصت ہونے والا یہ شخص اپنی موت کے نصف صدی بعد ایسے زندہ ہوا کہ اب تا قیامت اہل دانش کے دلوں کی دھڑکن اور اہل مکر کے سروں کے لئے باعث درد رہے گا.
راست گشاں ڈیری سرے
مئیں بانگوا مالا جنے.
میں ڈنگے کی چوٹ پہ سچ کہتا ہوں
تم نے میری مال و ملکیت پہ جو ڈاکہ ڈالنا ہے ڈالنے میں دیر نہ کرو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں