اسے کیا نام دیا جائے

انور ساجدی
ارطغرل غازی ڈرامہ میں پاکستان کا ایک مخصوص طبقہ اپنا ماضی جوڑرہا ہے اور ایسا ظاہر کیاجارہا ہے یہ لوگ سلطنت عثمانیہ کے پڑ پوتے ہیں حالانکہ ترک قوم کا برصغیر سے اتنا واسطہ ہے کہ محمود غزنوی سلجوق اورخاندان غلامان نے یہاں آکر اپنی حکومتیں قائم کیں اور برصغیر کے کروڑوں لوگوں کو غلام بنایا جو لوگ ترکوں کے نشات ثانیہ پر فخر کررہے ہیں وہی دراصل انکی رعایا اور غلام رہے وزیراعظم نے تو ڈرامہ دکھانے کا حکم اس لئے دیا کہ وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ پاکستان میں سلطنت عمرانیہ کی اس طرح بنیاد ڈال دیں گے جس طرح عثمان نے ڈالی تھی لیکن یہ وہ سن ہے نہ سلطنتوں کے قیام کا وقت ہے نہ ہی حالات اسکے موافق ہیں اور نہ ہی 70سالہ وزیراعظم کی عمر اجازت دیتی ہے کہ وہ پاکستان جیسے مشکل ملک میں ایک شخصی بادشاہت کی بنیاد رکھیں باقی جو ڈرامہ ہے وہ محض ڈرامہ ہے اور بنانے والوں نے ترک قوم کی جدوجہد عظمت اور محنت کو ظاہر کیا ہے البتہ ایک بات سوچنے کی ہے کہ ڈرامہ میں جوکاسٹیوم دکھایاجارہا ہے کیا اس وقت اس خطے میں یہ لباس رائج تھا اور کیا یہ لباس جو آج بھی بلوچ پہنتے ہیں اس وقت کے بلوچ بھی یہی پہنتے تھے۔
ڈرامہ کے ایک سین میں بلوچی لباس پہنے خواتین اور بچوں کو دکھایاجارہا ہے جنکے سامنے انکے مردوں کے سرقلم کئے جارہے ہیں۔آیا یہ دیار باقر یاحلب کے بلوچ تھے جن کا قتل عام کرکے ارطغرل غازی نے اپنی مملکت کی بنیاد رکھی اس سلسلے میں کوئی چیز تاریخ سے ثابت نہیں ہے اگر ترکوں نے اپنی تاریخ محفوظ رکھی ہے تو انکے مورخین بتاسکتے ہیں کہ انکے اباؤاجداد نے جن لوگوں کا قتل عام کیا ان میں بلوچ بھی شامل تھے؟ہاں یہ ضرور ہے کہ سلطنت عثمانیہ کی بنیادوں میں کردوں کا خون ضرور شامل ہے چنگیز اور ہلاکوخان کی نسل نے وسط ایشیاء سے آکر اس علاقے پر قبضہ کیا اور جو لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوئے وہ کرد تھے اگرصلاح الدین میں عقل ہوتی تو اس علاقے میں غیر ملکی حملہ آور کبھی فتح حاصل نہ کرتے انکی نااہلی اور غیرذمہ داری سے کرد وطن قائم نہ ہوسکا اور دائمی غلامی انکے نصیب میں لکھی گئی۔
تاریخ دانوں نے بارہا لکھا کہ حملہ آوروں کے ساتھ جولوگ انڈیا آئے تھے انکی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی لیکن نچلی کلاس کے لوگ مسلمان ہوگئے تو انہوں نے اپنی توقیر بڑھانے کیلئے سید قریشی فاروقی عثمانی علوی صدیقی بیگ برلاس آفندی چغتائی اور نہ جانے کیا کیا ذاتیں اپنائیں یہی وجہ ہے کہ پورے عرب میں اتنے سید نہیں ہیں جو صرف انڈیا اور پاکستان کے چند شہروں میں پائے جاتے ہیں عرب دنیا میں کوئی صدیقی فاروقی اورعثمانی نہیں ہے بلکہ دنیائے عرب میں صرف ایک ملک سلطنت ہاشمیہ کہلاتا ہے وہ ہے اردن اور صرف اردن کے شاہ اپنا نسب ہاشمی خاندان سے جوڑتا ہے جبکہ دوسرا ملک غالباً مراکش ہے۔
پاکستان کے لوگ نہ جانے ارطغرل ڈرامہ سے کیوں پھولے نہیں سمارہے ہیں اگر طیب اردگان جو اس وقت ترکی کے لیڈر ہیں اور انہوں نے اپنے ملک میں بدترین آمریت قائم کررکھی ہے اگروہ دوبارہ خلافت قائم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو یہ خواہش انکی حد تک صحیح ہے بالغرض محال اگر معاہدہ لوزان ختم ہونے کے بعد انہوں نے خود کو خلیفہ قراردیا تو کیا پاکستان میں ترک سلطنت کاخطبہ پڑھا جائیگا جیسے کہ عثمانی دور میں کئی ممالک میں پڑھاجاتا تھا ارطغرل غازی کاتضاد یہ ہے کہ جو خواتین اس میں مکمل لباس میں ہیں اور وہ مسلمان کردار ادا کررہی ہیں عام زندگی میں وہ سوئمنگ پول میں یورپی طرز زندگی گزاررہی ہیں طیب اردگان اگرچہ اپنے آپ کو مسلمانوں کاسب سے بڑا لیڈر ظاہر کررہے ہیں لیکن ابھی تک انہوں نے مصطفی کمال پاشا کاقائم کردہ یورپی کلچر میں کوئی تبدیلی نہیں کی منی اسکرٹ آج بھی ترکی میں رائج ہے نائٹ کلب اسی طرح چل رہے ہیں مے خانے پہلے سے بڑھ گئے ہیں جوئے خانے کبھی بند نہیں ہوئے قول وفعل کااتنا بڑا تضاد اور کس کو کہتے ہیں جس طرح جمال گرسل سلیمان ڈیمرل اوردیگرترک حکمرانوں نے کردوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے طیب اردگان نے وہ قتل عام نہ صرف جاری رکھا ہے بلکہ اسے مزید تیز کردیا ہے ترکی کے کردوں اور علویوی سے زیادہ حقوق وہاں کی بھیڑوں اور بکریوں کوحاصل ہیں۔
جس طرح ترکی میں انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے اسی طرح ایران،افغانستان اور پاکستان میں آبادی کے ایک حصے پر انسانی مظالم کا سلسلہ جاری ہے اور یہ قرون اولیٰ کی روایت ہے اگر کمزور طبقات نے اپنے بنیادی انسانی حقوق طلب کئے تو ریاست نے ان پر غداری کا لیبل لگایا بلوچستان اور وزیرستان کے لوگوں نے کیا ڈیمانڈ کی تھی اپنے حقوق مانگے تھے اگر انکے مطالبات ناجائز تھے تو انہیں سامنے بٹھاکر قائل کیاجاتا لیکن طاقت کے ذریعے انہیں کچلنا کہاں کا انصاف ہے۔
چندماہ قبل میں نے صدرعلوی سے
پوچھا تھا کہ بلوچستان کے مسئلہ کاحل
طاقت کا استعمال ہے یا ڈائیلاگ کی
گنجائش بھی موجود ہے انہوں نے
راست گوئی سے کام لیکرکہا کہ ڈائیلاگ
کی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ اس وقت
وہاں پرجو کارروائی ہورہی ہے کہاجاتا
ہے کہ وہی حکمت عملی درست ہے
حالات اتنے خراب ہیں کہ نواب رئیسانی جیسے تحمل مزاج شخصیت کو بھی قواعد سے باہر نکلنا پڑتا ہے انسانی حقوق کی اتنی پامالی اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق بلوچستان کے88فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزاررہے ہیں یعنی ہرطرف بھوک،ننگ،فاقے اور بیماریاں ہیں اوپر سے آپ بھی اس لئے مارتے ہیں کہ لوگ روٹی کیوں مانگتے ہیں یا وہ یہ سوال کرتے ہیں کہ آپ ہم سے ساحلی پٹی کیوں چھین رہے ہیں وہ مچھلی جو خدا نے دی ہے آپ اسے چھین کر بدلے میں کیادیں گے۔اس سوال کو ناقابل تلافی جرم قراردے کر جبر سے اس کا جواب دینا کہاں کا انصاف سب کو پتہ ہے اکابرین نے اپنی بیٹھک میں یہ یہ سوچا ہے کہ اگرریکوڈک کی کانوں سے سونا ہم نے خود نہ نکالا تو یہ ریاست نہیں چلے گی لیکن ریکوڈک کے لوگ بھوک تابکاری سے مررہے ہیں انکی کوئی فکر نہیں بس آپ کو سونے کے سوبلاک (ایریا) درکار ہے جس میں اتنا سونا موجود ہے کہ ابھی تک اس کا اندازہ نہیں لگایا گیا اگرلگایا جائے تو یہ 6ہزار ارب ڈالر بنتا ہے اتنی دولت تو آپ کبھی نہیں کماسکتے اس کے باوجود آپ غیروں یاحملہ آوروں جیسا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں بالکل ایسا جیسا کہ یورپی حملہ آوروں نے امریکہ کے مقامی لوگوں کے ساتھ روارکھاتھا۔
امریکہ کے ایک انڈین سائٹ
پر لکھا ہے کہ ہم دنیا کے وہ مظلوم
انسان ہیں کہ ان کا ذکر بہت
کم ہوتا ہے انکی بات کوئی نہیں
کرتا ان پر جومظالم ہوئے اس پر
بھی خاموش ہیں انکی سرزمین جس طرح
چھینی گئی اس ظلم کو کوئی یادنہیں کرتا
اگرآج ڈیرہ جات کانام جنوبی پنجاب ہے تو آپ واضح طورپراسے مغربی بلوچستان تک توسیع دیدیں لیکن بات تو صاف کریں اگر ڈیموگرافک چینج لانا ہے تو کس نے روکا ہے اگرساحل اچھا لگتا ہے تو لے لیں اگر سونا لیتھیم چاندی تانبا کرومائیٹ چاہئے تو کس نے روکا ہے لیکن اپنا طریقہ تبدیل کریں کیونکہ چیونٹی پرپیرآجائے تو وہ بھی کاٹنے کی کوشش کرے گی۔
نواب رئیسانی نے ایک ناممکن مطالبہ کردیا ہے کہ سب لوگ متحد ہوجائیں وہ خود بتائیں کہ قلات کے جرگہ کے بعد سب نے مل کر کس اتحاد کامظاہرہ کیا تھا اور اس وقت سب نے جو کچھ کیا تھا اسے کیانام دیا جائے ایک سوگند کورد کرنے کیلئے دوسری سوگند کس نے کھائی تھی؟
وہ چرواہا جو کس شمار میں نہیں بھیڑیا سے لڑنا صرف وہی جانتا ہے جو لوگ بھیڑیا کاخوف دلاکر پورا ریوڑ ہی ہانک کر لے جائیں ان سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔
یہ سوال کیوں پوچھا جارہا ہے کہ پہلے بلوچستان نہیں تھا انضمام کے بعد یہ کہاں سے آگیا ایک خاص ذہینت کی غمازی کررہا ہے یہ بہت ہی گہرا سوال ہے جس کاجواب مستقبل کے اداروں میں تلاش کیاجانا ضروری ہے اسکے لئے رائج الوقت آئین کو بھی قربان کرنے کی نیت ہے تاکہ موجودہ ڈویژنوں کو صوبہ قرار دیاجائے تاکہ جز آگے آجائیں اور کل کا خاتمہ ہوجائے اسکے لئے ارطغرل جیسے کئی شاہ سوار مشق ستم کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں