چاک گریبان مئی 15, 2020مئی 15, 2020 0 تبصرے انور ساجدی نام نہاد افغان جہاد کے دوران(1979-90) امریکی مصنف سلیگ ہیری سن نے افغانستان کے تناظر میں بلوچستان پر اچھی خاصی ریسرچ کی تھی اس ریسرچ کے اخراجات شہرہ آفاق ادارہ ”اسمتھ سونین کارپوریشن“ نے برداشت کئے تھے یہ ادارہ سی آئی اے کے ساتھ بھی مل کر تحقیق کرتا ہے اگرچہ ہیری سن کا ریسرچ ورک اتنا شاندار نہیں تھا جو ہونا چاہئے تھا تاہم انہوں نے مشرقی اور مغربی بلوچستان دونوں کااحاطہ کیا تھا لیکن کوہ سلیمان کے بارے میں وہ حالات سے بے خبر تھے اگرکبھی بلوچستان کا مستقبل طے ہوا تو کوہ سلیمان کے بغیر مشرقی بلوچستان ادھورا اور نامکمل ہے اسی طرح انہوں نے کراچی پر توجہ نہیں دی پرتگیزوں کے بلوچ ساحل پر آمد اور جزائر شرق الہند کی طرف کوچ کرنے کے بعد کراچی کی کوئی تہذیبی شناخت نہیں تھی یہ مینگروز کے درختوں میں گھرا کیرتھر پہاڑ کے ندی نالوں کاایک ڈیلٹا تھا جس میں ایک وسیع دلدل تھا لیکن مائی کلاچی نے یہاں آکر پہلی سٹلمنٹ کی بنیاد رکھی اگرچہ بھائی گل حسن کلمتی کراچی کے حوالے سے بلوچ فیکٹر کو کوئی اہمیت نہیں دیتے سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں اتنا بڑاعالم انسانی تمدن کا استاد ماہر لسانیات جب وہ کراچی کو بلوچ سے علیحدہ شناخت دینے کی کوشش کرتے ہیں تو بڑا افسوس ہوتا ہے وہ بھول جاتے ہیں کہ کراچی ساحل پر پہلی بلوچ سٹلمنٹ ہے اگرچہ ڈیموگرافی تبدیلیوں نے آج کراچی کی شناخت تبدیل کردی ہے اور یہ1970ء سے صوبہ سندھ کادارالحکومت ہے لیکن بادی النظر میں یہ بلوچ سرزمین کااٹوٹ انگ ہے جس طرح کوہ سلیمان آج پنجاب کا حصہ ہے لیکن کوئی ذی شعور بلوچ اسے ماننے کیلئے تیار نہیں ہے اسی طرح کراچی پر بلوچ کلیم ہمیشہ رہے گا چاہے کچھ بھی ہوبے شک وقت کے بلوچ اکابرین بلوچوں کی اس پہلی باقاعدہ بستی کو رضاکارانہ طور پر بخش دیں لیکن سندھیوں کو بھی ماننا پڑے گا کہ یہ شہر بلوچوں نے بسایا تھا اور وہی اسکے اولین اور اصلی باشندے ہیں اس ضمن میں ایاز پلیجو کاشکریہ ادا کرنا چاہئے کہ انہوں نے چند سال قبل لیاری آکر اعلان کیا تھا کہ لیاری کے باشندے ہی کراچی کے انڈی جنیٹس آبادی ہے بہرحال یہ ایک لمبی چوڑی بحث ہے اور اسے چھیڑنے کا یہ مناسب وقت نہیں ہے۔سلیگ ہیری سن نے لکھا تھا کہ ایران میں ایک بچہ اپنی کلاس میں بلوچی بول رہا تھا تو ایرانی ٹیچر نے اسے کلاس سے باہر نکال کر سزادی تھی وہ توشاہ کا آخری دور تھا اور اپنے آخری دور میں شاہ نے بلوچوں کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل کردی تھی تاہم جب نام نہاد انقلاب آیا اور ملاصاحبان نے اسلام کا نام لیکر بلوچوں کی جونسل کشی شروع کردی وہ ابھی تک جاری ہے ہرماہ کئی درجن بلوچوں کو کرینوں پر لٹکا کر پھانسی دی جاتی ہے بظاہر ملا لیکن اصل میں الٹراقوم پرست ایرانی حکومت اتنی سخت گیر ہے کہ اس سے پہلے رضا شاہ پہلوی (آخری بادشاہ کے والد) تھے انہوں نے انگریزوں کے ذریعے مغربی بلوچستان پرقبضہ کرلیا اور میردوست محمد بارکزئی سمیت سینکڑوں بلوچوں کا بے رحمانہ قتل عام کیا۔موجودہ ملاصاحبان جب سے آئے ہیں انکی کوشش ہے کہ کسی طرح لفظ بلوچستان سے جان چھڑائی جائے کوئی تین سال قبل تہران میں فیصلہ کیا گیا بلوچستان کا نام سیستان رکھاجائے لیکن اسکی کافی مزاحمت ہوئی اور پہلی مرتبہ بغاوت کے آثار پیدا ہوئے حتیٰ کہ ایک بلوچ رکن پارلیمنٹ نے ایوان کے اندر اپنا گریبان چاک کیا اور اعلان کیا کہ بچہ بچہ کٹ مرے گا لیکن یہ فیصلہ قبول نہیں کرے گا اسکے بعد ملاصاحبان نے اپنا فیصلہ روک دیا لیکن وہ دوبارہ ایسی کوشش کریں گے۔چاک گریبان کا ایک واقعہ بلوچستان اسمبلی میں بھی ہوا تھا جب نیشنل پارٹی کے پنجگور سے رکن اسمبلی رحمت بلوچ نے ایوان کے اندر اپنی قمیض اتاری تھی لیکن اس انتہائی قدم کا حکام بالا نے نوٹس تک نہیں لیا تھا بلکہ کئی لوگوں نے کہا تھا کہ اگر اس ملک کے کسی ایوان میں کوئی رکن اپنا پاجامہ بھی اتارے تو اسکی بات نہیں سنی جائیگی لیکن میراخیال ہے کہ اگلے الیکشن میں رحمت بلوچ کی سن لی گئی تھی اور انہیں وزارت کے عہدے پر فائز کیا گیا تھا لیکن اپنے دوسرے دور میں ان پر قوم پرستی کاخماراترچکا تھا۔غالباً جب انہوں نے اپنا گریبان چاک کیا تھا تو اس وقت وہ ناتجربہ کار اورتہی دامن تھے لیکن وزارت پرفائز ہونے کے بعد انہیں پتہ چلا تھا کہ اصل قوم پرستی کیا ہے چنانچہ وہ ایک نئی مگرپرکشش راستے پر لگ گئے یہ بات صرف ان پر کیا موقوف! جودیگر پارلیمنٹرین ہیں انہوں نے بھی یہی پرکشش راستہ اپنایا تھا کیونکہ بلوچ کلچرویرانی کے سوا کچھ نہیں دے سکتا بلوچ سماج کی معیشت صدیوں تک چندبکریوں انکے دودھ اور ایک روٹی پر مشتمل رہی ہے اس پر گزارہ کرنا یاتوکل رکھنا بڑا دل گردے کا کام ہے۔بلوچ تاریخ کے ایک نمایاں کردار جبری الحاق کیخلاف پہلی بغاوت برپاکرنے والے شہزادہ کریم بلوچ 1980ء کی دہائی میں بھیڑبکریوں کااپنا ریوڑ خود چراتے تھے غالباً یہ احتجاج کاایک انتہائی طریقہ تھا کیونکہ نئی نسل نے انکی قدر نہیں کی بابو شورش کاافسوسناک انجام ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ برسوں ڈان ہوٹل میں ہمارے ساتھ بیٹھتے تھے انکی خدمات اتنی تھیں کہ کوئی انہیں شمار نہیں کرسکتاتھا انہوں نے بلوچی کا پہلا اخبار نوکیں دور نکالا حالانکہ انکی مادری زبان بلوچی نہیں فارسی تھی انہوں نے اپنی پوری جوانی اور تمام ترکہ بلوچ قومی تحریک پر واردیا تھا جوانی میں ان کا نام عبدالکریم شورش تھا لیکن آخری ایام میں انہوں نے اپنانام بدل کر کریم امن رکھا تھا اور اپنی زندگی میں ہزارگنجی کی ایک جگہ اپنی قبر کیلئے منتخب کیاتھا جو آج بھی انکی آخری آرام گاہ ہے شکر ہے کہ اسکے سامنے میرخیربخش مری کی قبر بھی ہے اگرکچھ لوگ انکے ہاں جائیں تو واپسی پر بابو کی قبر پرفاتحہ پڑھ سکتے ہیں لیکن مجھے اس کا یقین نہیں ہے کیونکہ اس وقت ایک نئی مخلوق جلوہ افروز ہے جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہے انکی نقل وحرکت اپنے دماغ اور ذہن کے تابع نہیں ہے وہ جس صوبے کی وجہ سے مالامال ہیں اس کا نام بلوچستان ہے لیکن وہ ایسی عفریت کا شکار ہیں کہ وہ اکثر خود اپنی نفی کرتے رہتے ہیں یعنی اس وقت جو ہورہا ہے وہ سیاست نہیں ہے جولوگ اپنے آپ کو سیاستدان کہتے ہیں وہ فن سیاست کے شاہ سوار نہیں ہیں جو لوگ پارلیمانی سیاست کررہے ہیں انہیں معلوم نہیں کہ پارلیمنٹ کا فنکشن کیا ہے وہ ایوانوں کے اندر بیٹھ کر گنتے رہتے ہیں کہ انہیں جو فنڈز ملے ہیں ان سے کتنے نالے اسٹریٹ لائٹیں اور گلیوں کی تنگ سڑکیں بن سکتی ہیں اسکے بدلے میں وہ جو انمول مال لٹارہے ہیں اس کا انہیں اندازہ نہیں ہے وہ جانتے نہیں کہ زور آور جب قدرتی ارتقا کوروک کر اور برین واش کے ذریعے جو مخلوق تیار کرتے ہیں اس میں انسانی اوصاف کم ہوتے ہیں اسکی مثال ایران اور اومان ہے جہاں کے لوگ ایک آسودہ حال زندگی گزاررہے ہیں وہ حیوانوں کی طرح اٹھتے بیٹھتے اورکھاتے پینے ہیں لیکن سوچتے نہیں کیونکہ انکے سوچنے کی صلاحیت چھین لی گئی ہے اگروہ کچھ سوچیں تو انہیں اسکی آزادی نہیں ہے انہوں نے اپنے ذہنوں کو آہنی زنجیروں میں جکڑ لیا ہے بے شک وہ جسمانی طورپرپابہ جولاں نہ ہوں لیکن انکے اذہان پابہ جولان ہیں ایک مثال لاطینی امریکہ کے چھوٹے سے ملک کیوبا کی ہے۔وہاں پر زندگی اتنی پرآسائش نہیں ہے جو امریکہ میں ہے لیکن وہ لوگ آزاد ہیں دنیا کے سب سے اچھے ڈاکٹر اوربے مثال طبی سہولتیں کیوبا میں موجود ہیں انکی روٹی آدھی ضرورہے لیکن وہ اپنی ذات میں قید نہیں ہیں انکے مقابلے میں ہم سب قیدی ہیں اپنی ذات کے اندر قیدی ہیں کسی آزاد شخص اور قیدی میں یہ فرق ہوتا ہے کہ ایک آزادانسان ہر طرح کے فیصلے کرسکتا ہے لیکن قیدی خود فیصلے نہیں کرسکتا۔مسقط کے سارے بلوچ خودشحال ہیں لیکن انکے لئے عربی بولنا اور سرپرسانپ باندھنا ضروری ہے اسکے بغیر حقوق نہیں ملتے۔19 اور20ویں صدی کی سامراجی قوتوں نے بلوچوں پرتاریخ کا سب سے بڑاقہر ڈھایا جو ہنوزجاری ہے انکے سلاسلوں کابج اٹنا گاہے گاہے صدائے جرس کی مانند ہے لیکن امید کا دامن خالی نہیں ہے۔بلاسے ہم نے نہ دیکھا اور دیکھیں گےفروغ گلشن وصوت ہزار کا موسم(فیض)٭٭٭ Share this:Click to share on Twitter (Opens in new window)Click to share on Facebook (Opens in new window)Click to share on WhatsApp (Opens in new window)Click to print (Opens in new window)