چینی اسکینڈل بھی خاک ڈاؤن ہوگا!!!

راحت ملک
چینی اور گندم کی قلت‘ گرانی برآمد اور سبسڈی دیئے جانے کے ہوشرباء واقعات سامنے آئے تو انہیں شوگر مافیا کا سنگین سکینڈل سمجھا گیا اس کی سنیگنی کا نمایاں پہلو یہ تھا کہ اس میں موجودہ حکومت کے وزراء اور اہم مرکزی رہنماء ملوث تھے۔ جیسے ہی سکینڈل سے متعلق ذرائع ابلاغ میں خبریں آنے لگیں تو حکومت پر دباؤ بڑھ گیا تب تک ملکی معیشت کی تباہی میں حکومت کی ناقص کارکردگی عوامی سیاسء تنقید کے نشانے پر تھی احتساب کا عمل پوری طرح عریاں ہو کر سیاسی انتقام پسندی کے ر وپ میں ڈھل چکا تھا مقدمات یا تو عدالتوں تک پہنچنے سے قاصر تھے (حمزہ شہباز شریف) مگر الزامات کے تحت سیاسی رہنماء اور اعلیٰ سرکاری سول افسران نیب کے حراستی کیمپوں میں مقید تھے معاشی شرح نمو 18ماہ میں سکڑتے سکڑتے 5.8 فیصد کی سالانہ شرح سے کم ہو چکی تھی ایسے میں کرونا کی بھیانک وباء نے دنیا کو دبوچ لیا۔ تو گویا حکومت کو ایک خلائی جواز میسر آ گیا جس کے ذریعے اپنی نااہلوں کی پردہ پوشی ممکن تھی یا کم از کم ان امور پر لوگوں کی توجہ منتقل ہوسکتی تھی. اور یہی ہوا بھی۔
کہانی شروع ہوتی ہے تفتان بارڈر سے جہاں سے زائرین و دیگر پاکستانی شہریوں کو ملک میں داخل ہونے دیا گیا۔ متاثرہ مریض اور پاکستانیوں کو طبی معائنے اور حفاظتی تدابیر کے بغیر اندرون ملک عجلت کے ساتھ منتقل کیاگیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کرونا وباء نے سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیے لیا۔لگتا ہے کہ یہ اقدام حکومت کا شعوری فیصلہ تھا وہ درپیش مسائل سے نمٹنے میں ناکامی پر عوامی حمایت کھو رہی تھی چینی گندم کے بحران سے اس کی سیاسی ساکھ داؤپر لگ گئی تھی بہر طور چینی اور گندم بحران کے اسباب اور ذمہ داران کا تعین کرنے کیلئے حکومت نے معروف تفتیشی افسر جناب واجد ضیاء کی سربراہی میں ایف آئی اے کی ٹیم کو تحقیقات کا حکم دیا۔ ایف آئی اے. نے ابتدائی تفتیشی رپورٹ مزید احکامات حکومت کو ارسال کی جو بہت دنوں تک وزیراعظم آفس کی کسی دراز میں بند پڑی تھی کہ اچانک صحافی جناب محمد عبدالمالک تک پہنچ گئی انہوں نے اس رپورٹ کے مندرجات کو اپنے چینل پر منکشف کیا تو حکومتی حلقوں میں کہرام مچ گیا میرا شروع دن سے یہ موقف رہا ہے کہ جن قوتوں نے پانامالیکس کی تحقیقات کیلئے جناب واجد ضیاء کی خدمات سے استفادہ کیا تھا اسی طاقتور حلقے نے پہلے جناب واجد ضیاء کو آئی جی ریلوے پولیس کی کھڈے لائن پوسٹ سے نکال کر ایف آئی اے کا سربراہ بنوایا اور پھر انہی کی سربراہی میں چینی گندم سکینڈل کی تحقیقات کی زمہ داری انہیں دلائی بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ جناب واجد ضیاء کی مرتبہ کردہ رپورٹ کو متذکرہ صدر پس منظر میں بہت دنوں تک پی ایم آفس کے دراز میں زیر التوا رکھا جاتا؟
اس رپورٹ کا جناب محمد عبدالمالک تک پہنچنا ہر پس ٍ پردہ کار فرما ان عوامل و عناصر کی بابت بہت کچھ عیاں کرنا ہے جن کا سطور بالا میں ذکر ہوا ہے۔ رپورٹ کی اشاعت کے فوری بعد جناب وزیراعظم کے چہیتے وزیر ریلوے جنہیں کبھی وہ اپنا چپڑاسی رکھنا بھی گوارا نہیں تھا۔ اور پی پی سے درآمد شدہ عمدہ شخصیت کے مالک جناب ندیم افضل چن جیسے صاحبان طاقت و بصیرت نے صاف صاف فرما دیا تھا کہ رپورٹ حکومت کی اجازت کے برعکس لیک ہوئی ہے جبکہ اسی بات پر جناب شہباز گل بھی قوالی کا مصرعہ طرح الاپ چکے تھے کہ رپورٹ جاری نہیں بلکہ لیک ہوئی ہے اس ابہام کا مقصد رپورٹ کی اہمیت کو مشکوک بنانا تھا تاکہ معاملہ کسی طرح دب جانے لیکن ایسا. ممکن نہیں رہا تھا۔ لہذا چند روز بعد ہی معلوم ہوا کہ وزیراعظم نے کابینہ کے اجلاس میں ارشاد فرمایا ہے کہ رپورٹ ان کے حکم پر جاری ہوئی ہے یہ بات پوری حکومت کے لیے یوٹرن کا درجہ رکھتی تھی تب بھی یہ سوال پیدا ہوا کہ سرکاری طور پر جاری ہونیو الی رپورٹ ایک محصوص صحافی اور چینل کو ہی کیوں دی گئی تھی؟ بہر حال حکومت نے واضح موقف اپنالیا کہ رپورٹ اس کے ایماء پر ذرائع ابلاغ کو مہیا کی گئی ہے جو سردست نامکمل ہے اور اس کی فرانزک انکوائری جاری ہے ارشاد ہوا کہ 25اپریل تک فرانزک کے ساتھ مکمل رپورٹ شائع کر دی جائیگی اور جوکوئی بھی اس میں ملوث ہوا اس کے خلاف بلاامتیاز کارروائی عمل میں آئے گی۔
اس پس منظر میں جو کچھ سامنے آ چکا تھا اس سے جناب جہانگیر ترین اور جناب عمران خان کے سیاسی دوستانہ رشتے میں بہت گہرا شگاف دور سے نظر آ رہا تھا اور یہ بھی بہت واضح تھا کہ جہانگیر ترین ایک فرد کا نام نہیں بلکہ وہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی و سینیٹر کے ایک انتہائی مضبوط (عددی اثرورسوخ رکھنے والے) گروپ کے مربی ھیں نیز یہ کہ مرکز اور پنجاب میں قائم حکومتیں ان کے ایک اشارے پر زمین بھوس ہو سکتی ہیں چنانچہ انہیں کوئی خوف و خطرہ محسوس نہیں ہو رہا تھا مگر بڑے اعتماد کے ساتھ وہ ذرائع ابلاغ پر اپنی معصومیت اور بے ا عتناہی کے ساتھ اپنی ایمانداری کا دفاع کرتے رہے اس مہم میں ایک آدھ دھمکی نما جملہ معترضہ محض یاددہانی کی خاطر کچھ رازوں کے افشاء کرنے کا بھی داغ رہے تھے ان حالات میں راقم نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ جناب عمران خان اس حقیقت سے ناآشنا نہیں تھے کہ جہانگیر ترین خسرو بختیار و دیگر وزراء کے خلاف کارروائی ہوئی تو سب سے پہلے ان کی حکومت زمین بھوس ہو گئی!!! یقینا انہوں نے اس سکینڈل کے متعلق ہر طرح کے حساب کا بھرپور جائزہ لے کر نفع و نقصان کا میزانیہ مرتب کر کے 25اپریل کو حتمی رپورٹ منظر عام پر لانے اور بلاامتیاز قانونی کارروائی روبہ عمل لانا کا عندیہ دیا تھا اس دلیل کے بعد میری رایے تھی کہ خان صاحب حکومتی ناکامیوں کا بوجھ اصول پسند سیاست دان بن کر اتارنے کی کوشش کر جا رہے ہیں میرا قیاس تھا کہ 25اپریل کو اپنے موقف سے رجوع نہیں کریں گے کیونکہ اس صورت ان کی روبہ زوال سیاسی ساکھ مزید تباہ ہو سکتی ہے مگر 25 اپریل سے قبل ہی ایف آئی اے کی درخواست پر فیصلہ ہو گیا کہ تحقیقات کیلئے مزید چند ہفتے کی مہلت دی جائے اسی اثنا میں خواجہ برادران نے جناب پرویز الٰہی سے ملاقات کی جس سے ایک نئی بحث چھڑ گئی یہ ملاقات ایک مدت کے بعد ہوئی تھی ہر چند کے اس ملاقات کا مقصد خاندانی مراسم کے پس منظر میں سپیکر پنجاب اسمبلی کے مشفقانہ رویے پر خواجہ برادران کی طرف سیصرف اظہار تشکر بیان کیا گیا مگر سیاست کی وادی میں ایسی ملاقاتوں کو غیر سیاسی عمل نہیں مانا جاتا ہے چوہدری برادران بھی گزشتہ کئی ماہ سے حکومت کے رویے سے نالاں تھے جناب وزیراعظم نے پنجاب میں اپنی اتحادی جماعت کے محدود تعداد کے باوجود ان کے حلقوں میں ہر قسم کے انتظامی تبادلوں کیلئے مسلم لیگ قاف کی رضا مندی کے مطالبے کو فروی مان لینا ضروری سمجھا یہ مطالبہ خود پی ٹی آئی کے ایم پی ایز کیلئے امتیازی سلوک اور انہیں غیر اہم سمجھے جانے کا واضح اشارہ تھا پھر چشم فلک نے پی ٹی آئی پنجاب کے 20رکنی پریشر گروپ کی باتصویر شائع ہوئی خبر کا نظارہ کیا۔ ساتھ ہی جہانگیر ترین اور ان کے رفقاء کی ناراضگی کے منفی اثر کو کم کرنے کیلئے وزیراعظم نے علیم خان ککے زئی کو فوراً کابینہ میں واپس لینے کا حکم دیا انہیں سینئر صوبائی وزیر اور دیگراہم محکموں کا انچارج بنایا گیا ہے تو یہ عمل بھی حکومتی جماعت اور اتحادیوں کے بیچ چینی گندم سکینڈل کے نتیجے میں آنے والے سیاسی دھچکوں کی پشتہ بندی سمجھا جارھا ہے جسے جناب سہیل وڑائچ کے کالم نے ممیز کیا ہے اس کالم میں جناب شہباز شریف نے ملک میں انتخابی عمل کی شفافیت کے سب راز فاش کیے تھھ۔
چینی سکینڈل کے تمام مخفی رازوں اور عوام کی دولت لوٹنے کے عمل میں سرمائے اور ریاست کی معاونت میں مصروف عناصر کا اصل چہرہ سامنے آ سکتا ہے جس میں بہت سے معززین شرفاء کے نام نامی اسم گرامی افشاء ہو سکتے ہیں جناب پرویز الٰہی کے صاحبزادے مونس الٰہی اور ان کے خاندان نے شوگر مافیا کے ساتھ تجارتی رشتوں سے جو دولت سمیٹی ہے اس کا راز اور مجرمانہ رخ سامنے آنے کا خطرہ بڑھ گیا تھا۔
چوہدری برادران اور نیب کا باہمی تعلق پرویز مشرف دور سے ہی استوار ہے مسلم لیگ کو قاف کا لاحقہ لگانا نیب کے دست ہنر کا اعجاز ہی تو تھا۔
عمران خان حکومت کی تشکیل کیلئے مطلوبہ تعاون حاصل کرنے کیلئے نیب نے ایک بار پھر 2018 کے انتخابات کے بعد چوہدریوں کو نوٹس دیا تو نتیجہ عمران حکومت کی تشکیل کی صورت میں نکلا تھا چوہدری برادران کے خلاف کیس کے متعلق مشرف عہد میں نیب کے چیئرمین جنرل شاہد عزیز نے اپنی کتاب میں بہت کچھ افشاء کیا ہے کہ مذکورہ مقدمات سیاسی بلیک میلنگ ہیں تو پھر چودھری برادران دباؤ میں کیوں آتے رھے ہیں؟
چوہدری برادران نے چینی سکینڈل کی رپورٹ پر التواء کے فیصلے کو عمران خان۔جہانگیر ترین کے مابین کشیدگی کے خاتمے کے طور پر دیکھا تو حکومت کو دباؤ میں لانے کا فیصلہ کیا نیب کے معاملات پر عدالت میں آئینی رٹ دائر کر دی ہے۔ چنانچہ اب اگر نیب حالیہ نوٹس سے پیچھے ہٹے تو شیخ رشید کی یہ بات سچ ثابت ہوگی کہ(چوہدری برادرن اپنے بندے ہیں)ان کو کچھ نہیں ہو گا۔ یہ بات بالذات احتساب کے منہ پر طمانچے کے مترادف ہو گی کہا جا رہا ہے کہ نیب ذرائع اس بات سے ا بھی انکاری ہیں کہ انہوں نے چوہدری برادران کو حالیہ دنوں میں کوئی نوٹس دیا یا فون کال کی ہے۔ کیا یہ موقف جو اسلام آباد کی فضاء میں سنائی دے رہا ہے حکومت اور نیب کی پسپائی ہے اور چوہدری برادران نے جہانگیر ترین کے ساتھ اپنے سیاسی و تجارتی خاندانی تعلق کو مستحکم بناتے ہوئے حکومت کو بھی ٹف ٹائم دینے کا بروقت فیصلہ کیا ہے.؟
معیشت کا کباڑا بے روزگاری‘ بیڈ گورننس سیاسی عدم استحکام میں شدت اور پھر کرونا کے سدباب کی ناقص پالیسی نے مل کر ایسی سیاسی فضاء تشکیل دی ہے جس میں سیاسی تبدیلیوں کے موسم کی سن گن صاف سنائی دے رہی ہے عمران خان‘ جہانگیر ترین کے خلاف اقدام کرے تو حکومت ختم نہ کرے تو ساکھ کے خاتمے کے علاوہ قاف لیگ کے دباؤ میں ان کے مطالبات تسلیم کرنے پڑیں گے شاید اس صورت بھی اتحادی حکومتوں میں دراڑ سے تبدیلی وقوع پذیر ہوسکتی۔ عمران خان کیلئے دونوں اتحادیوں اور اپنی اراکین کو ایک ساتھ مطمئن رکھنا ناممکن ہو گا کسی ایک کی ناراضگی/ علیحدگی سے حکومت کا دھڑن تختہ ہو سکتا ہے۔
جب حکومت جہانگیر ترین کے دباؤ کی میں ہے تو ان حالات میں چوہدری برادران نے اس کی گردن ناپنے کا جو ارادہ کیا ہے. اسے بھی اخالصتا ان کا ذاتی سیاسی عمل نہیں مانا جا سکتا چوہدری شجاعت حسین صاحب نے جن رازوں کو افشا کرنے کا عندیہ دیا ہے کہ ان میں مولانا فضل الرحمان کا لانگ مارچ ختم کرانے کے وعدے و شرائط بھی شامل ہو سکتے ہیں؟ چینی بحران کی طرح شاید حکومت کورونا بحران پر قابو پانے کیلئے اپنے نیم دلانہ بے سمت و بصیرت اقدامات کے ذریعے طوالت کا پردہ ڈال کر سب کچھ خاک ڈاؤن کرنے جا رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں