میر گل خان نصیر خان، ہمہ جہت شخصیت

ڈاکٹر عطا اللہ بزنجو
میرگل خان نصیر کی زندگی کے بہت سے پہلو ہیں۔ وہ ایک عظیم شخصیت، مؤرخ، تاریخ دان، سیاست دان، شاعر اور کیا کچھ رہے ہیں۔ ان سب پر سیرحاصل بحث کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔
گل خان نصیر کی شاعری کے بھی کئی پہلو ہیں، جنھیں ایک ساتھ بیان کرنا اور لکھنا شاید ممکن نہیں۔ اس کے لیے ایک سیمینار کی ضرورت ہے جس میں میرگل خان نصیر کے حوالے سے مختلف خیالات کو یکجا کیا جا سکتا ہے۔ بلوچستان سے باہر اور خصوصاً بلوچستان کے اندر گنے چُنے ادیبوں کافرض بنتا ہے کہ وہ میرگل خان نصیر جیسی ہستی کے دن کی مناسبت سے کوئی تقریب و سیمینار ملکی سطح پر کروائیں تاکہ اُن کی دی ہوئی ہمت تو صلح، شعور اور فکر کو مؤثر انداز میں آگے لے کر چل سکے۔
لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم اپنے ان رہنماؤں کو جنھوں نے اپنے عوام، قوم اور پسے ہوئے عوام کے اندر بیٹھ کر ان کے ساتھ قدم بہ قدم چل کر روشنی خیالی، شعوروآگہی پھیلائی، ہم نے انھیں بھلا دیا۔ ہمارے ادبی ادارے اگر چاہیں تو ان کے حوالے سے سیر حاصل بحث و مباحثہ کرنے کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں لیکن بہت کچھ ہم نہیں کر پا رہے ہیں جس کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ گل خان نصیر اور ان کے رفقا نے جیل و زندان میں رہ کر جو کچھ عوام اور قوم کو دیا، ہم آزاد رہ کر بھی وہ کچھ نہیں کر پا رہے۔
یہ بات دلچسپ ہے کہ میرگل خان نصیر مزاحمتی شاعری زیادہ، عشقیہ شاعر کم تھے۔ تاریخ دان، سیاست دان اور بحیثیت شاعر آپ نے ہر موڑ پر بلوچ قوم کی ترجمانی کی اور اس حوالے سے کلیدی کردار ادا کیا۔ قدم بہ قدم سیاست ہو کہ شاعری جیل، قید و زندان کی تنہائی میں بھی ثابت قدمی سے لکھتے رہے، پڑھتے رہے۔ ہمت و حوصلہ نہ صرف اپنے اندر پیدا کیا بلکہ نوجوانوں کو بھی جگاتے رہے اور منزل کی جانب سفر کے لیے یکجا کرنے میں اپنا کردار بخوبی اور انتہائی باکردار طریقے سے ادا کیا۔ سرداری اور جاگیرداری نظام کی برائیوں کو حقیقی معنوں میں اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا اور اُسے ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا، ہر میدان میں انھیں للکارا اور پکارا بھی۔
میر گل خان نصیر عوامی جدوجہد اور انسانیت کے علمبردار تھے۔ اس کٹھن دور کے سخت حالات میں برسرپیکار اِن رہنماؤں نے کبھی میدان خالی نہیں چھوڑا بلکہ سیاست ان کے رگ رگ میں بسی ہوئی تھی۔ ان کے قلم میں میں کبھی جنبش نہیں آئی اور آج سیاست کہاں آ کر کھڑی ہے؟ کیا حالات ہیں؟ کیا ہو رہا ہے؟ کیا کر رہے ہیں؟… کچھ پتہ نہیں۔ ادارے تباہ و برباد ہو چکے ہیں۔ سیاست تجارت بن چکی ہے۔ اب سیاست وہی کر سکتا ہے جس کے پاس پیسے ہوں اور سیاسی رہنما وہی بن سکتا ہے جو سرمایہ دار یا جاگیردار یا سردار ہو۔
اب سیاست خدمت کم، کاروبار زیادہ بن گئی ہے۔ اب کہاں سے لائیں ہم میر گل خان نصیر، میر غوث بخش بزنجو، ملک فیض محمد یوسفزئی، میریوسف عزیزمگسی، بابو عبدالکریم شورش، میر عبدالکریم بلوچ، عطاشاد، کریم دشتی، عبدالواحد آزاد جمالدینی، سید ظہورشاہ ہاشمی، جام دُرک، محمد حسین عنقا، ملا فاضل، زمرد حسین، حبیب جالب، ماما عبداللہ جان جمالدینی اور ایسے کئی نام ہیں جنھوں نے سچ اور حق کی خاطر، عوام کی خاطر بے کس کسانوں، دہقانوں اور مزدورں کے لیے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ وقف کیا۔ یہ لوگ اب ناپید ہوچکے ہیں۔ کہاں سے ڈھونڈیں کہاں سے لائے انھیں!
ان کے عوام آج بھی تاریک زندگی گزار رہے ہیں۔ خوش حالی، ترقی دور دور تک نہیں اس دور میں، جہاں سیاست رُک گئی ہے، حالات کہاں ٹھہرے ہیں۔ کچھ بھی اپنی جگہ صحیح نہیں۔ پورے ملک کو افراتفری اور نفسانفسی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
اُس دور میں میرگل خان نصیر کی شاعری نے عام عوام اور خصوصاً نوجوان طبقے کو متاثر کیا، انھیں مایوسی سے نکالنے میں اور حقوق کی جدوجہد میں آگے بڑھانے میں جو راستہ دکھایا، جو راہ دی، اُسے بہت شدت کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔
یقیناً اصولوں اور سیدھی راہ پر چلنے سے منزل آسان اور قریب ہو جاتی ہے۔ قلم کی طاقت سے دنیا کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے جو کہ میرگل خان نصیر کا فکری پیغام تھا، اپنے لوگوں اور نوجوانوں کے لیے۔
میرگل خان نصیر تبدیلی کے خواہش مند تھے۔ رُک جانا، ٹھہر جانا ان کی شاعری میں آپ کو نہیں ملے گا، تبھی تو کہتے ہیں؛
قدم قدم رواں ببیت
دلیر و پہلواں ببیت
میرگل خان نصیر غلامی اور بالادستی کو قبول نہیں کرتے تھے۔ اس حوالے سے دو ٹوک مؤقف اُن کی شاعری میں آپ کو ملے گا۔
میرگل خان نصیر پیدائشی شاعر تھے۔ اپنا ہنر، اپنی شاعری، اپنے سخن کو قوم اور عوام کی امانت سمجتھے تھے۔ چاہے وہ طالب علم تھا، مزدور تھا، کسان تھا، قدم قدم ان کے ساتھ رواں دواں رہے۔
گل خان نصیر نے پانچویں کلاس کے بعد شاعری شروع کی۔ آپ کی کتابوں میں تاریخِ بلوچستان، گل بانگ، ہونِ گوانک (لہوکی پکار)، شمبلاخ، حمل وجئیند، دوستین وشیرین، بلوچی عشقیہ شاعری، بلوچی رزمیہ شاعری، بلوچستان کی کہانی شاعروں کی زبانی، پُررنگ، شپ گروک، سینائی کیچگ شامل ہیں۔
آپ کی شاعری میں توپ و خنجر تلوار کا ذکر زیادہ اور گل و لالہ، گیسو اور رخسار کا ذکرکم ملتا ہے۔ یہ آپ کی وطن، سرزمین اور مٹی سے محبت اور عشق تھا۔
گل خان نصیر نے بلوچی شاعری، زبان اور ادب کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ براہوئی، فارسی اور اُردو زبان میں شاعری کی لیکن آپ کی بیشتر شاعری بلوچی زبان میں ہے۔
نوشکی کلی مینگل میں پیدا ہونے والا یہ شخص سنڈیمن اسکول کوئٹہ سے لاہور تک تعلیم حاصل کرنے والا یہ شخص کسے معلوم تھا کہ ایک بہت بڑا شاعر، ادیب، تاریخ دان، دانشور اور سیاست کی دنیا میں ہمیشہ زندہ رہے گا اور اپنی قوم کو پکارتا رہے گا:
بیا او بلوچ!
بیا او بلوچ!
گار کُرتگیں راہ آ وتی
میرگل خان نصیر بلوچستان کی پہلی کابینہ میں وزیر تعلیم بھی رہے اور جہاں ہم نے تعلیم کو چھوڑا، اب تک وہیں رُکی ہوئی ہے۔ ایک جمود طاری ہے۔ تبدیلی رُکی ہوئی ہے۔ لگتا ہے وقت ٹھہر چکا ہے۔ تبدیلی کے لیے، اس جمود کو توڑنے کے لیے، ایک محنتی مخلص علم سے لبریز کمیٹڈ انسان کی ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ لکھتے مجھے 20 ویں صدی کے عظیم رہنما نیلسن منڈیلا جو کہ اس صدی کے عظیم رہنما اور لیڈر رہے، یاد آ رہے ہیں، جنھوں نے اپنے عوام کے لیے وہ کچھ کیا جو شاید ہی کسی اور رہبر نے کیا ہو۔
میر گل خان نصیر کی شاعری کو جاننے اور سمجھنے کے لیے مجالس و سیمینار منعقد کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ گو کہ گل خان نصیر کے متعلق پروفیسر شاہ محمد مری، اللہ بخش بزدار اور واحد بخش بزدار کے علاوہ کئی ایسے نام ہیں جنھوں نے لکھا ہے لیکن ابھی بھی نچلی سطح پر ان کی خدمات کو مشعلِ راہ بنا کر عام عوام تک ان کی رسائی ممکن بنانے کے لیے سخت محنت، جدوجہد اور لگن کی ضرورت ہے۔
یہ کام ان حقیقی دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے مزید بہتر اور احسن طریقے سے نبھائیں۔ گل خان نصیر کی بیٹی نے اس سلسلے میں انتہائی محنت کے ساتھ ”کلیاتِ نصیر”شائع کروا کر تاریخی کارنامہ سرانجام دیا۔ لیکن یہ ہم سب کا فرض ہے کہ اس کتاب کو مزید بہتر بنا کر دوبارہ شائع کروائیں۔
نصیر کہنے کی نہیں ہیں یہ باتیں کچھ دوستی میں
اس حقیقت کو بعد مدت بے نقاب آج کر دیا
ایک مضمون ”گل خان نصیرکی شخصیت”میں بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو، گل خان نصیر کے متعلق لکھتے ہیں؛ ”ان کی زندگی مختلف و عجیب سی تھی۔ وہ بہت سی خصوصیات اور خوبیوں کے مالک تھے، وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ وہ گوں ناگوں خوبیوں کے مالک تھے۔ ان کی شخصیت ہشت مہت تھی۔ وہ ایک ایسے گلستان کے مانند تھے جس میں رنگ برنگ پھول کھلے ہیں۔ کہیں ایک شاعر کی حیثیت سے نظر آتے ہیں، کہیں وہ علم و ادب کے جوہر دکھا رہے ہیں۔ کہیں بہت ہی باذوق دوست اور وفادار ساتھی ہیں۔ کہیں صحافی ہیں، رسالوں اور اخباروں کی ادارت کرتے نظر آتے ہیں اور کہیں ایک باعمل سیاسی لیڈر ہیں۔ بہرحال گل خان اتنی خوبیوں کے حامل تھے، جن کا ذکر کرنا آسان بات نہیں، مگر میں گل خان کی ان تمام متنوع خوبیوں اور خصوصیات میں اُن کی شاعری کو امتیازی حیثیت دیتا ہوں۔“
نذرِ گل خان نصیر
ڈھلی جو شام سفرِ آفتاب ختم ہوا
کتاب ِ عشق کا ایک اور باب ختم ہوا
وفا کی راہ میں نقد ِجاں ہی باقی تھا
سو اس حساب میں یہ بھی حساب ختم

اپنا تبصرہ بھیجیں