ڈیفالٹ دستک دے رہا ہے

تحریر: انور ساجدی
ایک طرف اقتدار کی جنگ جاری ہے دوسری طرف تمام اقتصادی ماہرین اس بات پر متفق ہیں اگر کوئی معجزہ نہ ہوا تو فروری میں پاکستان ڈیفالٹ کرجائے گا۔ ڈیفالٹ سے بچنے کے لئے کم از کم پانچ ارب ڈالر کی ضرورت ہے اور یہ رقم حاصل ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔ اسحاق ڈار نے سعودی عرب کو ایس او ایس بھیجا ہے کہ وہ ہماری درخواست کو منظور کرکے حسب وعدہ چار ارب ڈالر عنایت فرمائیں اگر سعودی عرب نے یہ درخواست تسلیم کرلی تو یہی پاکستان کے حق میں معجزہ ہوگا۔
معاشی زبوں حالی کی کئی وجوہات ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے جو جناب عمران خان نے پیدا کیا ہے اور وہ ملکی حالات دگردوں کرنے میں ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹ رہے۔ انہوں نے صدر علوی کے ذریعے تجویز پیش کی ہے کہ مارچ یا اپریل میں عام انتخابات کی تاریخ دی جائے ورنہ وہ حکومت اور ملک کو چلنے نہیں دیں گے ۔شہباز شریف یا پی ڈی ایم کی حکومت اتنی کمزور اور ناتواں ہے کہ وہ سر ریت میں دے کر مزید خراب حالات کا انتظار کررہی ہے ۔اس حکومت کے غیر فعال ہونے کا ایک بڑا سبب عظمیٰ اور عالیہ ہیں ۔عمران خان کے جو دوست تشریف فرما ہیں وہ وقتاً فوقتاً حکومت کو جھٹکے دے رہے ہیں ۔ساری اشرافیہ ایک دوسرے سے لڑائی لڑرہی ہے اور کسی کو ملک کے ڈوبنے کی کوئی فکر نہیں ہے۔سری لنکا میں بھی ایسا ہی ہوا تھا وہاں پر راجہ پکسا فیملی نے اقتدار پر قبضہ کرکے حقائق سے صرف نظر کیا تھا۔ پاکستان کی اشرافیہ بھی اسی نقش قدم پر چل رہی ہے ۔حکومت کے سامنے صرف عمران خان کا مسئلہ نہیں ہے اور عفریت بھی سر اٹھارہی ہے ،جن میں تخریب کاری سرفہرست ہے یہ عفریت عمران خان حکومت اور اس کے سہولت کاروں کا وہ معاہدہ ہے جو انہوں نے ٹی ٹی پی سے کیا تھا اور طالبان جنگجوئوں کو واپس آنے کی اجازت دی تھی پاکستانی طالبان ہوں یا افغان طالبان ان میں کوئی فرق نہیں ہے ۔جنگجو مزے سے پاکستان میں آتے ہیں کارروائی کرتے ہیں اور سرحد پار کرکے واپس چلے جاتے ہیں ۔شمالی اور جنوبی وزیرستان کے واقعات کے بعد انہوں نے لکی مروت اور بنوں میں بڑی کارروائیاں کی تھیں جبکہ سمبازہ کا واقعہ تازہ ترین ہے ۔پاکستانی طالبان کے ارادے خطرناک ہیں ،وہ وزیرستان پر قبضہ کرکے وہاں افغان برانڈ شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں ۔اس کام میں انہیں مقامی زعما کی حمایت بھی حاصل ہے۔ پاکستانی حکمرانوں نے ابھی تک ٹی ٹی پی سے مذاکرات شروع نہیں کئے اور نہ ہی ان سے پوچھا کہ وہ پاکستان کے امن کو تہہ و بالا کرکے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ حکمرانوں کو ٹی ٹی پی سے کیا گیا معاہدہ پارلیمنٹ میں لانا چاہئے یا نیشنل سیکیورٹی کونسل کا اجلاس بلاکر ایک جامع حکمت عملی طے کرنا چاہئے لیکن ابھی تک انہوں نے کوئی پیش رفت نہیں کی ہے ان کا خیال ہے کہ سیکیورٹی ادارے جو اقدامات اٹھارہے ہیں وہی کافی ہیں لیکن یہ سوچ درست نہیں ہے ٹی ٹی پی نے اپنی کارروائیاں تیز کردی ہیں جس کی دیکھا دیکھی اور گروپوں نے بھی اپنا حصہ ڈالنا شروع کردیا ہے۔
چند روز قبل ٹی ٹی پی نے ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مکران کے ایک گروپ نے اس کے ساتھ مل کر مشترکہ کارروائیوں پر اتفاق کیا ہے سوچنے کی بات ہے کہ ٹی ٹی پی کا مکران میں کیا مفاد ہے وہ اپنے علاقے سے بہت دور جاکر کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے یا اس کا مقصد پاکستان کو بلیک میل کرکے اپنے لئے مزید رعایتیں حاصل کرنا ہے دراصل ٹی ٹی پی سے معاہدہ بھی بارودی سرنگ ہے جو عمران حکومت نے جاتے جاتے بچھائی تھی جس کا خمیازہ اب جاکر بھگتنا پڑرہا ہے یہ حکومت اتنی نااہل ہے کہ ابھی تک یہ کھوج نہ لگاسکی کہ عمران خان کے کن اندرونی و بیرونی گروپوں سے درپردہ تعلقات تھے اور وہ اپنے زوال کے بعد انہیں بروئے کار یا برسر پیکار لانا چاہتے تھے۔
حیرانی کی بات ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی جو ایک قدم بھی مقتدرہ کی منشاء کے بغیر نہیں اٹھاتے وہ ابھی تک عمران خان کے تابع فرمان کا کردار ادا کررہے ہیں حالانکہ عمران خان نے جب جنرل قمر جاوید باوجوہ پر تنقید کی تھی تو پرویز الٰہی کھل کر سابق آرمی چیف کا دفاع کررہے تھے جس کے بعد عمران خان نے باجوہ پر تنقید کم کردی تھی اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان کے سہولت کار دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں جن کا اتنا اثر ہے کہ پرویز الٰہی ابھی تک ان سے چمٹے ہوئے ہیں حالانکہ پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کے مسئلے پر پی ڈی ایم نے ایک بار پھر انہیں اپنا وزیراعلیٰ بنانے کی پیشکش کی تھی جو چوہدری نے ٹھکرادی عمران خان نے باوجوہ پر یہ الزام بھی عائد کردیا ہے کہ انہوں نے زرداری اور مراد علی شاہ سے ڈیل کررکھی تھی یہ پہلا موقع ہے کہ عمران نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ غالباً وہ یہ انکشاف بھی کردیں گے کہ اس ڈیل کا مقصد کیا تھا اور اس سے کیا فوائد حاصل کئے گئے تھے عمران خان الیکشن اگر لڑے تو انتخابی مہم کے دوران باجوہ پر مزید اور سنگین الزامات بھی عائد کریں گے اور ’’ریکوڈک‘‘ کی ڈیل کو اسکینڈل بنانے کی کوشش کرسکتے ہیں حالانکہ کاغذوں پر دستخط باجوہ کے نہیں عمران حکومت کے ہیں اور بلوچستان گورنمنٹ کے ہیں باجوہ سر نے جرمانہ سے بچنے کے لئے معاہدہ کو منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش ضرور کی تھی لیکن معاہدہ تو اصولی طور پر حکومت کے کھاتے میں آئے گا اور عمران خان کوئی بچہ نہیں تھے کہ وہ خود کو اس بے مثال اور تباہ کن معاہدے سے بری الذمہ قرار دیں۔ بادی النظر میں دیکھا جائے تو ریکوڈک کا معاہدہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اور سب سے پراسرار معاہدہ ہے کیونکہ اب تک پاکستان کے اتنے بڑے قدرتی وسیلہ کو یوں کوڑیوں کے مول کبھی بیچا نہیں گیا بیرک گولڈ اور چلی کی کمپنی چونکہ طویل مدت تک فائدے میں رہیں گے لہٰذا ان کے ذمہ داران کبھی اپنے لب نہیں کھولیں گے اگر کچھ گڑبڑ ہوئی تو عمران خان کی طرف سے ہوگی کیونکہ وہ کوئی بھی راز راز نہیں رکھ سکتے۔ موصوف کو لیکر حکمران اشرافیہ بہت پریشان ہے کیونکہ معاشی صورت حال کی وجہ سے وہ جلد الیکشن کروانے کی پوزیشن میں نہیں ہے جبکہ عمران خان کو بہت جلدی ہے اور وہ جلد سے جلد دوبارہ اقتدار میں آنا چاہتے ہیں ان کے پاس ایسا جادو ہے کہ ابھی تک ان کے اراکین اسمبلی انہیں ٹوٹے گوکہ تحریک انصاف کے رہنما نے زرداری پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ وہ پیسے لیکر بلاول ہائوس لاہور میں رہتے ہیں لیکن وہ خریداری کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکے کیونکہ خریداری سرے سے ہوئی نہیں اقتدار کے اسٹیک ہولڈر پریشان ہیں کہ وہ عمران خان کو کیسے روکیں پورا ملکی ٹاٹی ٹائینک ڈبونے پر تلے ہوئے ہیں اگر ان کا راستہ نہ روکا گیا تو نہ صرف پاکستان باقاعدہ طور پر دیوالیہ ہوجائے گا بلکہ وہ اسے پی ڈی ایم حکومت کی نااہلی ثابت کرکے اپنے اقتدار کا راستہ ہموار کردیں گے اگر حکومت اس لئے مجبور ہے کہ عمران خان اب تک 2 درجن مقدمات میں عدلیہ سے ریلیف حاصل کرچکے ہیں اسی قسم کا ریلیف شریف خاندان بھی حاصل کرچکا ہے یہ جو پنجاب میں معاملہ ہوا اور اسمبلی کی تحلیل وقتی طور پر رک گئی یہ صرف اور صرف زرداری کا کارنامہ ہے اگر زرداری کو تمام سیاسی معاملات سپرد کردیئے جائیں تو وہ عمرانی عفریت کا بھی کوئی توڑ نکال لیں گے لیکن ن لیگ مستقبل کا سوچ کر خوفزدہ ہے کیونکہ آئندہ انتخابات میں زرداری جادوئی کمالات دکھاسکتے ہیں زرداری کا ن لیگ کو پہلے سے مشورہ ہے کہ آپ اکیلے انتخابات میں عمران خان کا مقابلہ نہیں کرسکتے آپ کیلئے سولو پروار تباہ کن ہوگی لہٰذا وسیع تناظر میں ایڈجسٹمنٹ کرنا پڑے گی۔
بہرحال جنوری اور فروری اہم مہینے ہیں اسی دوران یہ فیصلہ ہوگا کہ نوبت ڈیفالٹ تک پہنچے گی یا نہیں اگر ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا تو یقینی طور پر عمران خان کو سیاسی ڈیفالٹ کا سامنا کرنا پڑے گا۔