ایئر لائن چلانا آسان میڈیا چلانا مشکل
تحریر: انورساجدی
میں نے اس ہفتہ پہلی مرتبہ فلائی جناح میں سفر کیا ،جناح ایئر لائن تازہ ترین نوساختہ ایئر لائن ہے جو مصروف کاروباری گروپ ’’ لکھانی گروپ ‘‘ نے شروع کی ہے اس سے قبل سیالکوٹ کے ارب پتی سیٹھوں نے ایئر سیال کے نام سے ایک ایئر لائن قائم کی تھی جو ابھی تک چل رہی ہے ۔نیشنل فلیگ کیریئر پی آئی اے دیگر ریاستی اداروں کی طرح جان بلب ہے اور طویل عرصہ سے جان لیوا خسارے میں چل رہی ہے یہ تو معلوم نہیں کہ جناح ایئر لائن کس حد تک کامیاب ہوگی کیونکہ پاکستان کے معاشی حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں جس کی وجہ سے یہاں ہر کاروبار رسک کا شکار ہے گزشتہ ماہ ’’ٹویوٹا ‘‘ کار ساز کمپنی نے کراچی میں اپنا پلانٹ بند کر دیا تھا جبکہ سائوتھ کوریا کی نامور کمپنی نے اپنی متعدد ڈیلر شپ بند کر دی ہیں ایئر لائن چلانا اور مشکل کام ہے حالانکہ پاکستان کی آبادی بہت بڑھ چکی ہے لوگوں کی سفری سہولیات بھی کافی بڑھ چکی ہیں اس لئے یہاں کئی ایئر لائنوں کی ضرورت ہے گزشتہ عشرے میں شاہین ایئر اور انڈس ایئر اپنی سروس بند کر چکی ہیں لیکن ’’لکھانی گروپ ‘‘ سے توقع ہے کہ وہ اپنی ایئر لائن کامیاب بنائے گی ۔
جناح ایئر کی فلائٹ مکمل کاروباری انداز میں چلائی جا رہی ہے ۔مسافروں کو کوئی مفت سروس نہیں ملتی حتیٰ کہ سامان لے جانے کے بھی پیسے دینے پڑتے ہیں اور جہاز کے اندر مسافروں کو سنیکس چائے وغیرہ بھی قیمت لے کر فراہم کی جاتی ہیں ۔جناح ایئر کے بارے میں ابھی معلومات کی کمی ہے البتہ یہ سنا ہے کہ یہ ایکسپریس میڈیا گروپ کے مالک سلطان لکھانی کی ملکیت ہے جو انہوں نے سنگاپور ایئر کی تکنیکی معاونت سے قائم کی ہے ۔یہ افواہ بھی چل رہی ہے کہ ایکسپریس میڈیا گروپ کی فروخت کیلئے بحریہ ٹائون کے ملک ریاض سے بات چیت چل رہی ہے جو آخری مرحلے میں ہے اگر یہ افواہ درست ہے تو اس کا مطلب یہی ہوا کہ فی زمانہ میڈیا چلانا مشکل اور ایئر لائن چلانا آسان ہے ۔
سلطان لکھانی پاکستان کی سب سے بڑی ٹوبیکو کمپنی لیکسن چلا رہے تھے لیکن اچانک انہوں نے سونے کے پتے والا یہ کاروبار امریکی مورس کمپنی کو 40ارب روپے میں فروخت کر دیا یہ رقم ڈالروں کے حساب سے ایک سو ارب روپے بنتی ہے انہوں نے اس رقم سے ایکسپریس اخبار اور ٹی وی چینل کھولا اور غالباً یہ پہلا میڈیا ہائوس تھا جو اتنی خطیر سرمایہ کاری سے قائم ہوا لیکن رفتہ رفتہ ٹیکنالوجی میں بہت بڑا انقلاب آیا جس کی وجہ سے پرنٹ میڈیا چلانا ممکن نہ رہا ، مزید آگے جا کر سوشل میڈیا ‘ ٹی وی چینلوں کو بھی کھا گیا اس کے ساتھ ہی حکومتوں کی تبدیلی ریاست پر آہنی گرفت وسائل کی تقسیم میں شدید اقرباء پروری اور غیر اعلانیہ سنسر شپ نے میًدیا کی کمر توڑ دی جو رہی سہی کسر تھی وہ عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دورر نے پوری کر دی ۔عمران خان اور ان کے ساتھی جانتے تھے کہ سوشل میڈیا جدید دور کی متبادل میڈیا ہے۔اس لئے انہوں نے بیشتر حکومتی وسائل سوشل میڈیا کے ایسے گروپوں کو منتقل کر دیئے جو تحریک انصاف نے قائم کئے تھے ۔موجودہ صدر عارف علوی نے ایڈیٹروں کو فخریہ انداز میں بتایا تھا کہ یہ آئیڈیا انہوں نے عمران خان کو پیش کیا تھا اور تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کی بنیاد انہوں نے خود رکھی تھی ۔شروع میں اس کا پورا خاندان یہ کام کر رہا تھا تاہم تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے بعد حکومت نے نئے تقاضوں کے مطابق درجنوں گروپ بنائے اور مرکزی اشتہارات کیلئے رکھے جانے والے اربوں روپے سوشل میڈیا گروپوں کیلئے مختص کر دیئے ان کے بقول 2018ء کے انتخابات میں کامیابی کا سہرا سوشل میڈیا گروپوں کے سر جاتا ہے ۔تحریک انصاف کی حکومت نے روایتی میڈیا پر پے در پے ضربیں لگائیں ،جنگ کے مالک میر شکیل الرحمان کو سبق سکھانے کیلئے جیل میں ڈال دیا ،مختلف میڈیا چلانے والے متعدد صحافیوں کو عتاب کا نشانہ بنایا ،بعض کو ہراساں کیا گیا جبکہ کچھ پر جان لیوا حملے بھی ہوئے ۔عمران خان کا پلان تھا کہ روایتی میڈیا کو ہر قیمت پر ختم کیا جائے ۔انہوں نے کئی گروپوں کا بائیکاٹ بھی کر رکھا تھا لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود روایتی میڈیا زندہ رہا ،مالیاتی بحران ضرور آیا۔ اب جبکہ عمران خان تخت سے اتر چکے ہیں تو بھی روایتی میڈیا گروپوں سے ان کی مخاصمت جا رہی ہے ۔دوسرا کام یہ ہوا کہ حکومتی وسائل سے محروم ہونے کے بعد تحریک انصاف کے مخالف گروپ زور ہو گئے اور انہوں نے عمران خان کی کردار کشی میں اہم کردار ادا کیا ۔یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا جس کی وجہ سے ان کی شہرت اور ساکھ پر بھی لازمی طور پر حرف آئیگا ۔تحریک انصاف کے دور میں مخالف میڈیا پر سخت سنسر شپ بھی عائد تھی اور یہ غیر اعلانیہ سنسر شپ کے ذریعے خبروں کی آزادانہ اشاعت کی اجازت مفقود کر دی گئی ۔جس کی وجہ سے ایک مادر پدر آزاد سوشل میڈیا نے بلا کی طرح سر اٹھایا ،جس کی توڑ آج تک کوئی حکومت نہ کر سکی ۔جب عمران خان برسراقتدار تھے تو انہوں نے کئی بار ماہرین سے یہ مشورہ کیا تھا کہ کس طرح سوشل میڈیا یا نیٹ ورکس پر روس ، چین ، ایران ، سعودی رب اور ترکی کی طرح سخت پابندیاں عائد کر دی جائیں تاکہ صرف وہ میڈیا زندہ رہے جو تحریک انصاف اور عمران خان کا طرفدار ہو اور ان کا گن گاتا رہے لیکن ان کو رجیم چینج کی وجہ سے روایتی میڈیا کا گلا گھونٹنے کا موقع نہ مل سکا۔
پاکستان کی روایتی میڈیا پر پابندیاں کوئی نئی بات نہیں یہ طویل عرصہ سے چلی آ رہی ہیں۔ چند وقتوں کے سوا اسے ہمیشہ نامساعد حالات کا سامان رہا ۔بدقسمتی سے مرکزی اور صوبائی حکومتیں میڈیا میں آنے والی تبدیلیوں سے کما حقہ آگاہ نہیں ان کا سارا قہر آج بھی روایتی میڈیا پر ہے ۔جبکہ سوشل میڈیا اتنا بااثر ہو چکا ہے کہ انہوں نے پاکستانی سماج اس کی ساخت اور اقدار کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے ۔سوشل میڈیا پر غلط خبروں کا اجراء اور گالم گلوچ ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکا ہے، حکومت کا ان پر اس لئے زور نہیں چلتا ۔
اکثر گروپوں کو مالی اعانت کی ضرورت نہیں ہے جبکہ بعض کو وفاقی حکومت اور دیگر ریاستی اداروں نے اربوں روپے فراہم کر کے رچا دیا ہے اس دیو کو قابو کر کے اپنے تابع فرمان بنانا تقریباً مشکل ہے البتہ حکومت حسب ضرورت مقامی طور پر انٹرنیٹ کی سروس معطل کر کے مخالفانہ خبروں کی اشاعت روک دیتی ہے ۔حکومت کے اس طرز عمل سے کئی وی لاگر ملک چھوڑ کر باہر جا چکے ہیں اور وہاں سے ایسے پروپیگنڈے میں مصروف ہیں جس کا یہاں پر تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ایسے صحافیوں کی تعداد درجنوں میں ہے اور مزید لوگ پابندیوں سے تنگ آ کر اور ہراسانی کے واقعات کی وجہ سے باہر جانے کا پروگرام بنا رہے ہیں ۔باہر جانے والے صحافیوں میں سے ایک ارشد شریف کا کینیا میں بے رحمانہ قتل ہوا جبکہ یورپ اور امریکہ جانے والے وی لاگرز وہاں کے جمہوری نظام اور مضبوط سیکورٹی ٹیم کی وجہ سے محفوظ ہیں ۔بہر حال جو ڈیجیٹل انقلاب آیا ہے ،ہر روز جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے اس میں تیز رفتار تبدیلیاں آ رہی ہیں ۔تمام حکومتیں اس کیلئے تیار نہیں ہیں ۔ان تبدیلیوں نے پہلا کام یہ کر دیا ہے کہ جو مین اسٹریم اپنے آپ کو نیشنل میڈیا کہتا تھا اس کے دعوے کے پرزے اڑ چکے ہیں اس کی جگہ ریجنل اور مقامی سوشل میڈیا نے لے لیا ہے اس لئے نام نہاد قومی اخبارات اور ان کے چینلز اپنی وقعت کھو چکے ہیں لیکن موجودہ مرکزی اور صوبائی سرکار ان کے اثرات سے باہر نہ نکل سکے اور وہ ابھی تک غلط فہمی اور خوش فہمیوں کا شکار ہیں، لیکن وہ نہیں جانتے کہ لوکل سوشل میڈیا کس طرح مقامی طور پر ابھرنے والی تحریکوں کی آبیاری کا باعث بن رہا ہے ۔
مثال کے طور پر نام نہاد نیشنل میڈیا کی رسائی بلوچستان اور صوبہ پشتونخواء کے دور دراز کے علاقوں تک نہیں ہے ۔حکومت بلاوجہ اپنے وسائل ان پر ضائع کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی اکثریت حکومت سے لاتعلق ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے نئے مسائل سر اٹھا رہے ہیں، اگر کراچی ‘ لاہور اور اسلام آباد کے میڈیا پر انحصار کیا جائے تو ان کا بلوچستان سے کیا تعلق بنتا ہے وہ اس بہت بڑے اور مشکل صوبہ کے حالات سے آگاہی نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کی رسائی یہاں کے عوام تک ہے چنانچہ وہ تو ہر لحاظ سے غیر موثر ہیں اسی طرح بعض میڈیا گروپ سو فیصد غیر سیاسی اور غیر متعلقہ دکھائی دیتے ہیں ان کا تو کوئی اثر پڑنا نہیں ہے۔
لہذا مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو چاہئے وہ اپنی میڈیا پالیسیوں میں نئے حالات کے تقاضے کے مطابق تبدیلیاں لائیں اور اظہار آزادی پر ایڈوائس کے ذریعے قدغنوں کا سلسلہ ترک کر دیں ،کیونکہ اس سے روایتی میڈیا تو متاثر ہوتا ہے سوشل میڈیا کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔