قیمتی امانتوں کی منتقلی

تحریر : انور ساجدی

بلوچستان ایک غیر سیاسی علاقہ ہے اور یہاں پر ہر دفعہ نت نئے تجربات کئے جاتے ہیں۔ لوگوں کے حالات پہلے سے بدتر ہیں، بھوک افلاس اور بے چارگی کا مستقل ٹھکانہ ہے۔ جبکہ یہاں پر سیاست اسمبلی اور پارلیمان محض اصطلاحیں ہیں چونکہ ان حالات میں بھی زندہ رہنا ہے اور وقت گزارنا ہے تو یہاں زندگی ایک مجبوری ہے ورنہ غربت کی لکیر سے 90 فیصد نیچے دب جانے کے بعد یہ لوگ مزاحمت کے بجائے خودکشی کرتے لیکن وہ مجبور ہیں، اگر مزاحمت نہ کریں تو کیا کریںہفتہ کے روز پی آئی اے کی کوئٹہ سے کراچی جانے والی پرواز دھند کی وجہ سے کوئٹہ آکر واپس اسلام آباد چلی گئی، اس پرواز میں کئی وہ ایم پی اے حضرات بھی جانے والے تھے جن کی اپنے نئے لیڈر یا نئے باس آصف علی زرداری سے ملاقات طے تھی اور ان معززین نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کرنا تھا۔ پرواز کی تاخیر کے باعث ایم پی اے حضرات فوری طور پر بذریعہ سڑک روانہ ہوگئے تاکہ جلد سے جلد شمولیت کی سعادت حاصل کریں۔ ان کو خوف تھا کہ کہیں زرداری صاحب ادھر ادھر نہ ہوجائیں اور وہ اس باسعادت موقع سے محروم نہ رہ جائیں۔
اطلاعات کے مطابق باپ پارٹی کے تین ایم پی اے مشرف بہ پیپلز پارٹی ہوگئے ہیں جبکہ چند مزید اراکین بھی بہت جلد اس پارٹی کا رخ کریں گے۔ عین ممکن ہے کہ قدوس بزنجو اور ساتھیوں کی شمولیت کے بعد ’’ باپ‘‘ نہایت کسمپرسی اور بے چارگی کے عالم میں سانحہ ارتحال سے دوچار ہوجائے یا اس میں صرف سعید ہاشمی رہ جائیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ بلوچستان میں وفاق کی نمائندگی کرنے والے دو اہم اثاثے حضرت انوار الحق کاکڑ اور میر سرفراز بگٹی بھی پیپلز پارٹی کا رخ کررہے ہیں۔ جمال رئیسانی کی شمولیت کے بعد یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ مقتدرہ نے اپنی تمام قیمتی ’’امانتیں‘‘ آصف علی کے سپرد کردی ہیں اور اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ اگلی باری میں سندھ کے ساتھ بلوچستان کی دیکھ بھال بھی پیپلز پارٹی کے سپرد کی جارہی ہے۔ چنانچہ ہوا کا رخ دیکھ کر 1973 کی طرح ایک بار پھر ہزاروں لوگ پیپلز پارٹی کو رونق بخشیں گے۔
بظاہر تو اہم مشاہیر کی کسی جماعت میں شمولیت کوئی بڑی بات نہیں، خاص طور پر بلوچستان جیسے علاقے میں جہاں پارٹیوں کا وجود برائے نام اور نظریہ ضرورت کے مطابق ہے اور یہاں پر کوئی سیاسی نظریہ کار فرما نہیں ہے۔ بلکہ سیاسی غول اپنا وجود رکھتے ہیں اور ہوا کا رخ دیکھ کر حالات کے مطابق پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں۔ باپ پارٹی بنا کر سینیٹر انوارالحق کاکڑ نے دعویٰ کیا تھا کہ پہلے بلوچستان کے فیصلے اسلام آباد میں ہوا کرتے تھے اس جماعت کے بعد تمام فیصلے کوئٹہ میں ہوں گے۔ مقتدرہ سے انوار الحق کاکڑ کی قربت کوئی راز نہیں ہے وہ جنرل مشرف کے حلقہ ارادت میں شامل تھے بعد میں جنرل کیانی اور راحیل شریف کے قریبی مشیر رہے جبکہ جنرل قمر جاوید باجوہ تو ان کے معتقد تھے وہ بلوچستان کے بارے میں کاکڑ صاحب سے مشورے لیتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ پی سی گوادر میں اہم شخصیات کے اعزاز میں ڈنر تھا، صورتحال اس وقت عجیب ہوگئی جب باجوہ انوارالحق کو ایک کونے میں لے گئے اور ڈنر ختم ہونے تک ان کی مشاورت سے فیض پاتے رہے۔ اگر انوار الحق کاکڑ نے بھی باپ پارٹی کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ مرکز میں بلوچستان کے بارے میں پالیسی تبدیل ہوگئی ہے۔
جہاں تک سرفراز بگٹی کا تعلق ہے تو ان کے والد محترم 1980ء کی دہائی میں پیپلز پارٹی میں شامل رہے ہیں۔ اپنے علاقے سے انخلاء کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے ہزاروں بگٹیوں کے قیام اور طعام کا بندوبست کیا تھا۔ اپنی پارٹی چھوڑ کر جانے والوں میں دو اصحاب میر ظہور بلیدی اور سرفراز بگٹی لارنس کالج سے پڑھے ہیں، یہ وہ درسگاہ ہے کہ اس کے دو طالب علم میر ظفر اللہ خان جمالی اور شاہد خاقان عباسی وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچے جبکہ آفتاب شیر پائو وزیر داخلہ رہے۔ اس کے ہزاروں طالب علم ایم این اے، سینیٹر اور وزیر رہے ہیں۔ جب ظہور بلیدی نے جام صاحب کا تختہ الٹا تو اس کی وجہ لارنس کالج کی بے چین روح تھی۔ اگر دیکھا جائے تو پوری باپ پارٹی اپنے جملہ اثاثوں سے خالی ہونے والی ہے۔ ان تمام اکابرین کا کیا دوش بلوچستان کا جو پانی پیتا ہے، وہ پنچھی بن کر اڑ جاتا ہے اور آشیانے تبدیل کرلیتا ہے۔ پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے بیشتر اصحاب پرانے اور سکہ بند سیاسی خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ظہور بلیدی کا پس منظر ان سب سے جدا ہے۔ ان کے خاندان کے سربراہ میر محمد تھے جو مکھی محمد کے نام سے معروف تھے۔ وہ 1950ء کی دہائی میں سیاست میں آئے اور جب حسین شہید سہروردی عوامی لیگ کے صدر تھے تو مکھی محمد کو سینئر نائب صدر بنایا۔
مکھی صاحب نے بعد ازاں سیاست کو خیر باد کہہ دیا اور اپنا باقی وقت شان و شوکت سے گزارا۔ وہ ہمارے بہترین دوستوں میں شامل تھے اور کوئٹہ کے ایک چھوٹے سے ہوٹل مرینہ میں آکر رہتے تھے لیکن رات کو ان سے ملاقات کے لئے چیف سیکریٹری ایس آر پونیگر اور دیگر بڑے افسران آتے تھے۔ وہ جام میر غلام قادر خان کے بھی ذاتی دوست تھے اور وہ مکھی صاحب کا اپنے کمرے سے باہر آکر خیر مقدم کرتے تھے۔ مکھی صاحب کے بعد ایوب بلیدی سیاست میں آئے، انہوں نے قوم پرستی کا راستہ چنا، وہ 1988میں اپنے حلقہ سے ایم پی اے منتخب ہوئے اور صوبائی وزیر بنے، وہ بہت ہی فعال رہنما تھے۔ بدقسمتی سے وہ بہت جلد خونی تنازعات کا شکار ہوئے اور بلآخر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ایوب کے قتل کے بعد یہ خاندان طویل عرصہ تک خونریزی کا شکار رہا اور کئی قیمتی جانیں حادثات و واقعات کا شکار ہوئیں۔ ایوب کے بعد اسلم بلیدی سیاست میں سرگرم ہوگئے لیکن وہ مختلف طرز کے شخص تھے، ان کی شخصیت میں دن اور رات کے تفاوت نے انہیں کہیں ایڈجسٹ نہیں ہونے دیا جس کی وجہ سے وہ نیشنل پارٹی سے آئوٹ ہوئے اور الٹرا قوم پرستانہ نظریات لے کر وہ اپنا وقت گزار رہے ہیں۔
سردار ثناء اللہ کی معزولی اور جام صاحب کی رخصتی کے وقت ظہور بلیدی وزارت اعلیٰ کے پکے امیدوار تھے لیکن بوجوہ ایم پی اے حضرات نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ جب تک لارنس کالج کی روح ان کے اندر زندہ ہے تو وہ آئندہ بھی امیدوار بنتے رہیںگے۔ اگر ان پر نظر التفات مضبوط ہوئی تو موجودہ لاٹ میں وہ وزیراعلیٰ بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن سیاست میں تبدیلی کے بعد آئندہ سال وزارت اعلیٰ کے کئی امیدوار سامنے آئیں گے۔ جن میں نواب ثناء اللہ زہری، جام کمال، کوئی جمالی اور کوئی مگسی ان میں شامل ہوں گے۔ جبکہ جمعیت میں شمولیت کے بعد نواب اسلم رئیسانی بھی پکے امیدوار ہیں۔
یہ بدقسمت صوبہ ایک بار پھر زرداری کو کیسے الاٹ ہوا تو یہ بہت اوپر کی بات ہے اور اس راز سے اونچے طقبہ کے لوگ ہی واقف ہیں لیکن جس طرح ماضی میں یہاں ن لیگ، ق لیگ اور دیگر مرکزی جماعتوں کے تجربات ہوئے ہیں یہ پیپلز پارٹی والا تجربہ تیسری بار ہے۔ 1973 سے 1977اور 2008سے 2013تک بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومتیں رہی ہیں۔ سوائے آغاز حقوق بلوچستان کے اور کوئی کریڈٹ پیپلز پارٹی کے کھاتے میں نہیں ہے۔ مستقبل میں یہ صوبہ ڈائریکٹ کنٹرول میں رہے گا، زرداری تو صرف سہولت کار کا کردار ادا کریں گے جیسے کے باقی کرتے رہے ہیں۔
بلوچستان چونکہ جنگ کی وجہ سے ایک بدترین انسانی المیہ کا شکار ہے اس لئے یہاں پر کسی سے بھی ’’ نارمل رویہ‘‘ کی توقع کرنا بے کار ہے۔ ایک طرف لوگ لاپتہ ہیں اور بڑی تعداد میں خونریزی کا شکار ہوئے ہیں تو دوسری جانب ایسی مخلوق تخلیق کی گئی ہے جو ان اقدامات کی تعریف و توصیف میں زمین اور آسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔ وہ ہر روز طوطے کی طرح رٹے رٹائے الفاظ دہراتے رہتے ہیں اور انہیں اپنے ارد گرد مصائب و آلام، المیہ پہ المیہ اور خون ناحق نظر نہیں آتا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ حالات میں جتنا بگاڑ آئے گا یہ ان کے مفاد میں ہے کیونکہ ان کی مراعات میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کا بینک بیلنس بڑھ جاتا ہے۔ جب اس مخلوق کا کوئی نظریہ ہی نہیں، کوئی زاویہ نگاہ نہیں تو ان کی سوچ منقش رہائش گاہوں، بڑی بڑی گاڑیوں اور پرتعیش لائف اسٹائل کے سوا اور کیا ہوگی۔ یہ اپنے بادشاہ کے آگے دست بدستہ کھڑے ہو کر کورنش بجا لاتے ہیں اور غریب عوام پر مزید ظلم و ستم روا رکھنے کو جائز سمجھتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کی فہرست بنائی جاتی ہے اور اسی کے مطابق ان کی کامیابی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ کیونکہ 1970 کے بعد بلوچستان میں کبھی الیکشن نہیں ہوئے بلکہ ہر دفعہ سلیکشن ہوتی ہے۔ اور یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ بادی النظر میں بلوچستان ایک غیر سیاسی علاقہ ہے اور یہاں پر ہر دفعہ نت نئے تجربات کئے جاتے ہیں۔ لوگوں کے حالات پہلے سے بدتر ہیں، بھوک افلاس اور بے چارگی کا مستقل ٹھکانہ ہے۔ جبکہ یہاں پر سیاست اسمبلی اور پارلیمان محض اصطلاحیں ہیں چونکہ ان حالات میں بھی زندہ رہنا ہے اور وقت گزارنا ہے تو یہاں زندگی ایک مجبوری ہے ورنہ غربت کی لکیر سے 90 فیصد نیچے دب جانے کے بعد یہ لوگ مزاحمت کے بجائے خودکشی کرتے لیکن وہ مجبور ہیں، اگر مزاحمت نہ کریں تو کیا کریں۔ بھائی انوارالحق کاکڑ اور برخوردار ظہور بلیدی کے پاس کوئی فارمولہ ہے تو ضرور رہنمائی فرمائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں