چراغ جلاؤ بڑا اندھیرا ہے

انور ساجدی
اس عنوان سے بلوچستان کے نابغہ روزگار ایڈیٹر لالہ غلام محمد شاہوانی نے 1958ء میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد ایک معرکتہ الآرا اداریہ تحریر کیا تھا مارشل لاء حکومت نے انہیں گرفتار کیا دوران قید ان کی طبعیت خراب ہو گئی لیکن سول ہسپتال کوئٹہ میں درندہ صفت ایم ایس ایم ایم حسینی نے ان کے علاج سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے ان کا اپنڈکس پھٹ گیا اور وہ شہادت کے رتبہ پر فائز ہو گئے اگر یہ کہا جائے کہ وہ حرمت قلم کے پہلے شہید تھے تو بے جا نہ ہوگا انہوں نے جو اداریہ لکھا اگر انصاف سے کام لیا جائے تو وہ آمریت کے خلاف کلمہ حق کہنے کے حوالے سے ایک شاہ کار کی حیثیت رکھتا ہے مگر افسوس کہ ہمارے ہاں کوئی انصاف کوئی میرٹ نہیں ہے لہذا لالہ کا اداریہ نوائے وطن کی فائلوں میں دفن ہے یا ہو سکتا ہے کہ نوائے وطن کی پرانی فائلیں بھی محفوظ نہ ہو۔
جب ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کیا تھا تو وہ ایک نیا تجربہ تھا 1947ء سے 1958ء تک ایوب خان سازشوں میں مصروف رہے تھے اور سیاستدانوں کی کمزور حکومتوں کی شکست و ریخت کو بڑھاوا دیتے رہے تھے چونکہ ملک میں سیاسی استحکام نہیں تھا عوام بدحالی کا شکار تھے خوراک کی قلت تھی معیشت کی گروتھ صفر بعض اوقات منفی تھی روزگار کے ذرائع نہیں تھے لوگوں کو طویل قطار لگانے کے باوجود راشن نہیں ملتا تھا اس لئے وہ نوزائیدہ سویلین حکومتوں سے بری طرح سے مایوس تھے اس لئے جب ایوب خان نے مارشل لاء لگایا تو عمومی طور پر اسے قبول کرلیاگیا حالانکہ اس وقت بہت بڑے اور قد آور سیاسی رہنماء موجود تھے جن میں باچا خان مولانا عبدالحمید خان بھاشانی‘ میاں افتخار الدین‘ شیخ مجیب الرحمان‘ مولانا مودودی‘ جی ایم سید‘ میر غوث بخس بزنجو‘ حیدر بخش جتوئی خاص طور پر قابل ذکر تھے لیکن وہ مارشل لاء کے پہلے چار سالوں میں کوئی مزاحمت نہیں کر سکے۔
تاہم جب ایوب خان نام نہاد صدر بن کر اور ایک عدد آئین 1962ء میں لے آئے تو ان کی مخالفت شروع ہو گئی سیاستدانوں سے بہت پہلے فیض احمد فیض‘ حبیب جالب اور دیگر ترقی پسند ادیب اور شعراء نے مارشل لاء کو چیلنج کیا تھا ایوب خان نے انتہائی طاقت اور جبر کے بل بوتے پر اپنا مصنوعی آئین نافذ کر دیا تھا جس کے تحت قومی اور دو صوبائی اسمبلیاں تشکیل دی تھیں یعنی مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان۔ قومی اسمبلی کی تو کوئی خاص کارکردگی نہیں تھی لیکن مغربی پاکستان میں باقی بلوچ ایم حمزہ اور خواجہ صفدر نے بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کیا تھا حتیٰ کہ باقی بلوچ سے تنگ آ کر گورنر مغربی پاکستان نواب آف کالا باغ نے ان پر قاتلانہ حملہ کروایا تھا تاہم 1965ء میں جب ایوب خان بطور صدر دوسری مدت کیلئے کھڑے ہوئے تو ان کی بھرپور مخالفت شروع ہو گئی ایوب خان کی توقع کے برخلاف بانی پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح مقابلے میں کھڑی ہو گئیں جس کے نتیجے میں ایک بہت ہی مضبوط محاذ کھڑا ہو گیا لیکن ایوب خان نے آزادی اظہار پر جس طرح قدغن لگائی ضیاء الحق کو چھوڑ کر اس کی اور کوئی مثال موجود نہیں انہوں نے پہلی مرتبہ ہر ادارہ کو فوج کے تابع بنایا کرپشن کو فروغ دیا کرپٹ سیاستدانوں کا ایک بڑا ٹولہ تیار کیا البتہ المیہ یہ ہوا کہ جب ایوب خان نے چین سے تعلقات بنائے تو ملک کی سب سے بڑی جماعت نیشنل عوامی پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی کیونکہ مولانا بھاشانی نے پیکنگ نواز پالیسیوں کی حمایت کر دی جبکہ خان عبدالولی خان کی قیادت میں نیب کا دوسرا دھڑا جسے ماسکو نواز سمجھا جاتا تھا وہ حکومت کی مخالفت میں بھرپورکردار ادا کرنے لگی۔
قصہ مختصر کہ ایوب خان نے اس ریاست کی تقدیر سے کھیل کر جو دائمی آمریت کا بیج بویا وہ آج تک قائم ہے کیا یحییٰ خان کیا جنرل ضیاء الحق اور کیا جنرل مشرف اس وقت سے اب تک کبھی صحیح جمہوری نظام نہیں آ سکا لیکن سب سے بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اس وقت جناب عمران خان کی قیادت میں جو سسٹم نافذ ہے بظاہر تو یہ سویلین نظام ہے لیکن یہ صرف سویلین رول میں ملفوف ہے اس کے اندر میٹریل کچھ اور ہے بظاہر پارلیمنٹ قائم ہے لیکن اس کی کوئی حرمت نہیں ہے جو لوگ برسراقتدار ہیں جو اپنے چاروں پیشواؤں کی خامیوں کو اکٹھا کر کے ریاست کو ایک تاریک سمت کی طرف لے جا رہے ہیں زرداری اور نواز شریف یہ کہہ کر ہٹایا گیا کہ انہوں نے کرپشن کا بازار گرم کر رکھا تھا ملکی خزانے کو دونوں ہاتھ لوٹ رہے تھے انہوں نے معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا تھا لیکن آج کیا ہے آزادی اظہار پر مارشل لاؤں سے بھی زیادہ پابندی ہے عوام شکر کریں کہ سوشل میڈیا ابھی تک کسی کے کنٹرول میں نہیں آیا الیکٹرانک میڈیا پی ٹی وی بن چکا ہے ایک مہیب آمریت اس طرح قائم کر دی گئی ہے کہ عوام کو اور ذلیل کیا جا رہا ہے ایک غیر فطری اور مصنوعی اشرافیہ مسلط کر دی گئی ہے دو سال کے دوران معیشت کی نیا پوری طرح ڈوب گئی ہے کہنے دیجئے کہ کرپشن کا گراف پہلے سے بڑھ چکا ہے یہ چینی اسکینڈل‘ یہ سبسڈی‘ یہ آٹا اسکینڈل یہ اقرباء پروری بلکہ خود پروری یہ کیا ہیں۔
کسی بھی سرکاری دفتر میں فائلیں پہیہ کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتیں شمس الجہلا کی ایک ایسی فوج تیار کی گئی ہے جو دلیل‘ منطق اور جواز کے ہتھیاروں سے مسلح نہیں ہے دشنام طرازی مخالفین کے خلاف تضحیک آمیز زبان کا استعمال اور آمرانہ رویہ اس کا وطیرہ ہے حکومت کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کو کچھ نہیں ہے کیونکہ اس سے بدتر گورننس کبھی دیکھنے میں نہیں آئی اس سے تو غریب جمالی اور فقیر شجاعت حسین نے بھی ملک کو بہتر طریقے سے چلایا وفاقی کابینہ اور مشیروں اور معاونین خصوصی مکمل طور پر ادبی شاہ کار ہیں وزیراعظم بذات خود بے اختیار اور غیر موثر ہیں ان کی حیثیت ”شو بوائے“ سے زیادہ نہیں ہے ان کا ادراک‘ ان کا وژن اور ان کی صلاحیتیں حالیہ کورونا بحران کے دوران طشت ازبام ہو چکی ہیں۔
ظفر ہلالی کے مطابق وہ ڈرائیور بننے آئے تھے لیکن کنڈیکٹر بن گئے
وہ ملک کو مزید تباہی کی طرف لے جانے میں ممد ود معاون ثابت ہو رہے ہیں ان میں جرات انکار نہیں ہے حالانکہ معیشت پہلی مرتبہ منفی تک گر چکی ہے اور اس کے کئی سال تک اٹھنے کا امکان نہیں ہے وزیراعظم صاحب تو تبدیلی کا نعرہ لے کر آئے تھے ہاں عوام کی حالت میں زبوں حالی کی تبدیلی ضرور ہوئی ہے۔
کئی لاکھ لوگ اچانک بے روزگار ہو گئے ہیں جب کہ کئی کروڑ لوگ فاقوں پر مجبور ہیں یہ تبدیلی ہے؟لیکن کیا کریں اس وقت کوئی ایسی اپوزیشن نہیں جو اس بدترین آمریت اور نااہلی کو چیلنج کر سکے اپوزیشن کا سارا زور میڈیا پر بیان بازی ہے کوئی عملی اپوزیشن نہیں ہے بدقسمتی سے کوئی نوابزادہ نصر اللہ‘ کوئی بے نظیر بھٹو نہیں ہے آمروں کو شیروں کی طرح للکارنے والے حبیب جالب اور جابروں کے سامنے کلمہ حق کہنے والے احمد فراز نہیں ہیں بدقسمتی سے احمد فراز کے فرزند شبلی فراز نہ صرف آمریت کا حصہ ہیں بلکہ وہ اس کے میڈیا کے سرخیل بھی ہیں پورا میڈیا بے کس اور لاچار ہے حکومت نے اس پر قاتلانہ حملہ کیا ہے وہ زخموں سے چور چور اور آہستہ آہستہ موت سے ہمکنار ہو رہی ہے کسی میڈیا میں یہ دم خم نہیں ہے کہ وہ لالہ غلام محمد شاہوانی‘ فیض احمد فیض‘ منہاج برنا اور نثار عثمانی کی طرح آمریت کو للکار سکیں سوشل میڈیا پر عالموں کی تعداد کم اور مسخروں کی تعداد زیادہ ہے اس میں سنجیدگی اور مقصدیت لانے کی ضرورت ہے اگر اس مرتبہ آمریت نے سویلین روپ میں اپنے پنچے گاڑھ دیئے تو اس سے جان چھڑانا مشکل ہو جائیگا بلکہ وہ آئین پارلیمنٹ اور وفاقیت کو روند ڈالے گی۔
اس حکومت نے تو ملک کا وہ حال بنا رکھا ہے کہ وہ پی آئی اے کے اس کٹھارہ طیارہ کی طرح ہے جو کراچی میں آ کر تباہ ہو گیا کہاں گئے وہ دعوے کہ پی آئی اے‘ ریلوے اور واپڈا کی حالت درست کی جائے گی ریلوے کا جو حال ہے وہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے اب تو پی آئی اے بھی موت کی علامت بن چکی ہے حکومت نے خاموشی کے ساتھ آئی پی پیز سے سودے بازی کر لی ہے حالانکہ اس نے انکوائری کروائی اور لوٹ مار کی رقم واپس لینے کا اعلان کیا لیکن لگتا ہے کہ مک مکا ہوگیا ہے انصاف کا یہ عالم ہے کہ چینی برآمد کرنے کی اجازت اسد عمر نے دی اس کی منظوری کابینہ سے لی گئی سبسڈی وزیراعلیٰ پنجاب سے زبردستی لی گئی لیکن مراعات لینے والوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے جنہوں نے مراعات سے نوازا وہ سارے بے قصور ٹھہرے ہیں بی آر ٹی پشاور کا کیس کہاں گیا مالم جبہ میں تو ایک بڑے سیٹھ نے متنازعہ زمین پر بڑا ہوٹل بھی کھڑا کر لیا ہے وہ معاملہ کہاں دبایا گیا کورونا کیلئے ملنے والی ملکی و غیر ملکی امداد قرضوں کی اقساط کیلئے کیوں چھپا دی گئی غریب عوام بیماری اور بھوک سے مر رہے ہیں لیکن حکومت نے انہیں بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے بلکہ ان کے نام پر آنے والی امداد بھی ہڑپ کر رہی ہے وزیراعظم نے لاک ڈاؤن ختم کر کے کروڑوں عوام کو اللہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں