اسلام آباد کے ایوانوں اور دبئی کی دوکانوں میں محصور بلوچستانی

بایزید خان خروٹی
کہتے ہیں کہ بلوچستان کے احساس محرومی کے ازالے کے نام پر چیئرمین سینٹ اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی بلوچستان سے لئے گئے ہیں جس کا مقصد احساس محرومیوں کو ایسے اقدامات کے ذریعے ختم کرنا ہے لیکن انکی اپنی محرومیوں کی جو لسٹ یہ بلوچستان سے اسلام آباد لے کر گئے ہیں تین سال ہونے کو ہے کہ اسکا پہلا صفحہ شاید اب تک ختم نہیں ہوا ہے احساس محرومی یا احساس شخصیت پرستی کے نام پر بظاہر یہ دونوں بڑے آئینی عہدے کہنے کو تو بلوچستان کے پاس ہیں لیکن سلیکٹڈ لوگ عام عوام میں کتنی پذیرائی رکھتے ہیں؟ یہ بات اہم ہے جبکہ دوسری جانب صوبے میں قیادت کا قحط پڑا ہے حالت یہ ہے کہ اسلام آباد میں بلوچستان کامعاشی مقدمہ لڑنے کیلئے صوبے سے ایسے باکمال شخص کو جوصبح شام باقاعدگی سے ٹوئٹر، واٹس ایپ کا استعمال اورہفتے میں متعدد باراپنے دو قدم پر واقع ہمسایوں کے ساتھ ویڈیو کانفرسنگ کرکے مزید خود باکمال ثابت کرنے کے لئے یہ تصاویراخبارات میں بچگانہ عادتوں مجبور جیسی کیفیت کا اظہار کرتے ہوئے چھپواتے ہیں باجو دروزانہ اس خودنمائی کے اب ملکی سطح پر خود نمائی کررہا ہے اس شخص نے اپنا مقدمہ خود لڑنے کیلئے کوئی ایسا شخص نہیں مل رہا ہے جب اسکی خود کی حالت یہ ہے کہ عوامی رابطوں سے انکو سخت نفرت ہے جن کو بلوچستان میں موجود لوگوں کامسئلہ معلوم نہیں ان کو ملک سے باہررہنے والے بلوچستانیوں کے مسائل کا تدارک تو دور انکو شاید مسائل سننابھی پسند نہ ہوگزشتہ دوماہ سے ہزاروں بلوچستانی دبئی و دیگر ممالک میں فضائی سروس بند ہونے کی وجہ سے دیار غیر میں بے یارومدگار محصورہوکر رہ گئے ہیں
سلیکیڈ بادشاہ کویہ معلوم نہیں کہ بلوچستان 1 کروڑ 30لاکھ آبادی میں سے صرف 3 لاکھ چالاک لوگ سرکاری ملازمت کررہے ہیں جبکہ باقی لوگ گزربسر کیلئے یا تودنیا کے مختلف ممالک میں محنت مزدوری کررہے ہیں یا یہاں بلوچستان میں نوجوان اپنی زندگیاں خطرات میں ڈال کر ایرانی پیٹرول کی خودکش جیکٹ نما گاڑیاں سارا دن روڈوں پر دوڑاتے ہیں یا کوئی چمن باڈر سے ایک ٹائر اپنے کندھوں پر مشکل ترین راستوں سے گزار کر اپنے بچوں کیلئے نان شبینہ کا بندوست کرتے ہیں بلوچستان حکومت نے صوبے بھر میں لاک ڈاون کر کے لوگوں کا جہاں کاروبار کو بند کردیا گیا ہے وہیں پرخلیج کے خود کفیل اور مضبوط معیشت کے حامل فلاحی ریاستوں نے بھی اپنے ملکوں میں لاک ڈاون کر رکھا ہے جس کی وجہ سے وہاں برسرروزگار بلوچستانی ملازمین بے روزگار ہو گئے ہیں انکا کاروبار بند ہوتا تو یہ اللہ کی رضا سمجھ کر واپس اپنے گھروں کو لوٹتے لیکن خلیجی ممالک سے آنے والی پروازیں نہ ہوئیں گویا ان ممالک میں محصور بلوچستانی ان جہازوں
میں ملازمت کی درخواستیں دے رہے ہیں بلوچستانیوں کو لاہور، کراچی اور اسلام آباد آنے والی پروازوں میں ٹکٹ نہیں دیا جارہا ہے جبکہ کوئٹہ کیلئے دبئی کی واحد انٹرنیشنل پرواز بند ہے جس کے ذریعے بلوچستان بھر کے دنیا میں مقیم لوگ کنکٹنگ فلائٹ لے کر واپس آتے ہیں جس کی وجہ سے گزشتہ دو ماہ سے ان ممالک میں بلوچستانی مسافر پھنس چکے ہیں ان کے پاس موجود جمع پونجی ختم ہوگئی ہے یہ دیار غیر میں نان شبیہ کے محتاج ہوگئے ہیں وہیں پران کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آگئی ہے۔یہ پاکستان کے خلیجی ممالک میں واقع سفارت خانوں میں اپنے ملک میں واپسی کیلئے متعدد بار رابطے کرچکے ہیں لیکن سوائے اسلام آباد کے ایوان میں مقیم بلوچستانیوں کے رشتہ داروں اور جاننے والوں کے کسی کو واپسی کیلئے سفارت خانے سے کوئی کال نہیں آئی اور انکا معمول بن چکا ہے کہ یہ روزانہ سفارت خانوں کے چکرکاٹ رہے ہیں لیکن مجال ہے کہ کوئٹہ کیلئے دستیاب کسی فلائٹ کی روانگی کی خبر ملے۔ اس سلسلے میں، میں نے دوبئی میں پاکستانی سفارت خانے کہ ایک ذمہ دار شخص سے معلوم کیا تو انکا کہنا تھا کہ ہم ان کے مسائل سے مکمل آگاہ ہیں لیکن کوئٹہ کیلئے کوئی فلائٹ نہیں ہے ہم انکو کس طرح واپس بجھوا دیں بلوچستان حکومت کی کوتاہی ہے ہمارے پاس ہزاروں کی تعداد میں بلوچستانیوں نے واپسی کیلئے اپنا اندارج کروایا ہے لیکن جہاز نہ ہونے کی وجہ سے ہم انکی واپسی کے سفر کا بندوست نہیں کرسکتے ہیں جب کے مخیر حضرات ہم سے رابطہ کرکے پھنسے ہوئے مسافروں کیلئے اپنے خرچے پرواپسی کا جہازتک کروانا چاہتے ہیں میں حیران ہوں کہ وفاق اور صوبے میں سلیکٹڈ بلوچستانی ہی سہی لیکن انہوں نے اپنی نسل اور صوبے کے عوام سے رشتہ تو نہیں توڑ دیا ہے کہنے کو تو بلوچستان کی عوام کو یہ لولی پاپ دیا گیا ہے کہ صادق سنجرانی کو چیئرمین سینٹ، قاسم سوری کو ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اور زبیدہ جلال کو وفاقی وزیربلوچستان کی احساس محرومی کو ختم کرنے کیلئے اہم ترین ذمہ داریاں دی گئی ہیں لیکن یہ سیاسی تربیت کے فقدان اور عوامی سطح سے نہ اٹھنے کی وجہ سے عہدے پر تو بطور بلوچستانی ہیں لیکن حقیقی بلوچستانی عوامی نمائندے نہیں ہیں جن کی یہ خود تصدیق اس بات سے کررہے ہیں کئی مسافروں کے عزیزواقارب نے ان سب سے بارہا رابطہ کیا لیکن یہ ان کیلئے کچھ نہیں کرسکے تاہم ان قریبی لوگوں کی واپسی دیگر صوبوں میں آنے والے جہازوں کے ذریعے یقینی بنائی گئی ہے یہ لوگ وفاق میں اہم ترین عہدوں پر موجود ہونے کے باجود قومی ائرلائن جن کی متعلق روزانہ کی بنیاد پر دیگر صوبوں کے حقیقی نمائندے دونوں ایوانوں سوالات اٹھاتے ہیں کے انتظامی سربراہ کو اپنے چیمبر ز میں طلب کرکے مفت نہیں بلکہ کرائیے پر فلائٹ کا بندوبست نہیں کرواسکتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو ہر بلوچستانی سمجھے گا کہ اسلام آباد کے ایوانوں اوردبئی کی دوکانوں میں بلوچستانی محصور ہیں۔فرق صر ف اتنا ہے کہ کچھ اسلام آباد میں توکچھ دبئی میں کاروبارکے غرض سے مقیم ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں