لاک ڈاؤن میں دوبارہ سختی کی دھمکی

اداریہ
وز یر اعظم کے مشیرِ صحت ظفر مرزانے ایک بار پھر میڈیا کے روبرو کہنا شروع کر دیا ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی سے عوام نے یہ سمجھ لیا ہے کہ کورونا عید تک ہی تھا، اب پاکستان میں نہیں رہا، لہٰذا حکومت سوچ رہی ہے کہ کورونا کیسز اور اموات میں اضافے کے پیشِ نظر عید کی تعطیلات کے بعد اس معاملے پر غور کیا جائے کہ آئندہ کا لائحہ عمل کیسا ہو؟حکومتی سطح پر کورونا ایک خطرناک وباء سمجھی جاتی ہے اور اب پاکستان کورونا کے متاثرین کی تعداد کے حوالے سے 19ویں نمبرپر آگیا ہے اور یہ صورت حال تشویشناک ہے57 ہزارمریضوں کی تعداد کو معمولی نہ سمجھا جائے،اسے روکنے کی کوشش نہ کی گئی اور اگر عوام نے احتیاطی تدابیر سے انحراف کی عادت ترک نہ کی تو اس کا خمیازہ خود عوام کو ہی بھگتنا پڑے گا۔ اس لئے کہ کورونا کے مریض کو عام اسپتال قبول ہی نہیں کرتے۔اور جو کورونا کے مریضوں کا علاج کر رہے ہیں ان کے اخراجا ت کی سکت عام آدمی میں نہیں۔ عام آدمی تو سرنج اور ادویات کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا، اتنے بھاری اخراجات کیسے ادا کرے گا۔اسے سرکاری اسپتالوں میں بے بسی سے تکلیف دہ موت کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔یہاں لوٹ مار کی سوچ کسی سے خوف زدہ نہیں، وزیر اعظم عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں سے بعض کا نام چینی اسکینڈل میں اور مشیرصحت ظفر مرزا کا ادویات اسکینڈل میں موجود ہے، ان سے مالیاتی اختیارات کی واپسی اسی جانب اشارا ہے۔مزید تفصیلات سپریم کورٹ کا متعلقہ بینچ عوام کے سامنے لے آئے گا جو کورونا کے معاملات پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے پہلے ہی پوچھ گچھ میں مصروف ہے۔
در اصل پاکستانی عوام نے ملک میں قانون کی حکمرانی کبھی نہیں دیکھی۔کسی بڑے چوراوربڑے قاتل کو آج تک سزا نہیں دی گئی۔ماڈل ٹاؤن لاہور میں کئے گئے 14پاکستانی شہریوں کے قاتل آزاد گھوم رہے ہیں۔بلدیہ ٹاؤن کراچی کی ایک فیکٹر ی میں سینکڑوں مزدوروں کو زندہ نذر آتش کرنے والوں کو آج تک کسی نے پھول کی چھڑی بھی نہیں ماری۔اربوں روپے کک بیکس لینے والے تمام دستاویزی شواہد مل جانے کے باوجود باعزت شہری بنے پھرتے ہیں اس لئے کہ وہ خود قانون ساز ادارے کے رکن ہیں۔نیب کے قانون میں تبدیلی کے لئے حکومت ان سے مدد چاہتی ہے۔آئی پی پیز کی انکوائری رپورٹ بھی چند دنوں یا ہفتوں میں عوام تک پہنچ جائے گی، مگر اس کے بعد کیا کسی بڑے چور کو سزا مل جائے گی؟ اس کا جواب دینا آسان نہیں۔کہا جائے گا اس میں دوست ملک کی کمپنیاں بھی شامل ہیں، ہلکا ہاتھ نہ رکھا گیا تو دوستی میں فرق آنے کا خطرہ مول لینا ہوگا۔ہماری معیشت برداشت نہیں کر سکتی۔ ایسا ہی عذر ایل این جی اسکینڈل میں ماضی قریب میں بعض وزراء کی زبانی سنا جاتا رہا ہے۔بڑے چوروں کی پیٹھ پر طاقت ور حکمرانوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ان حالات میں عوام سے یہ امید نہ رکھی جائے کہ وہ کورونا وائرس سے بچنے کے لئے حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایس او پیز(احتیاطی تدابیر) پر عمل کریں گے۔ عام آدمی ان ملکوں میں قوانین کی پابندی کرتے ہیں جہاں قانون کی حکمرانی انہیں نظر آتی ہے۔پاکستان کا نام ان ملکوں میں تا حال شامل نہیں ہو سکا لہٰذا یہاں ایسی امیدیں نہ کی جائیں، کورونا کی وباء سے 2،3فیصد لوگ مرتے ہیں، باقی 97،98فیصد بچ جاتے ہیں۔ مرنے والوں کے بارے میں ڈاکٹر میڈیا پر یہ انکشاف کرتے ہیں کہ مرنے والے صرف کورونا کے مریض نہیں تھے، بلکہ انہیں دل کا پرانا مرض بھی تھا، گردے کے پرانے مریض تھے، انہیں شوگر بھی تھی،ان کے پھیپھڑے کمزور تھے اوربلڈ پریشر بھی تھا اس کے علاوہ ان کی عمر بھی 70سال سے زائد تھی۔
جب پاکستانی عوام ماہر ڈاکٹروں سے ایسے انکشافات دن رات سنتے ہیں تو بھری محفل میں کہتے ہیں پھر کورونا کا کیا قصور ہے؟ اسے تو بغیر کورونا کے مرجانا چاہیئے تھا۔ایسے ماحول میں پاکستانی عوام سے یہ امید نہ رکھیء جائے کہ وہ ایس او پیز کی اسی طرح پابندی کریں گے جیسی یورپی ممالک میں دیکھی گئی تھی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی قائم کئے بغیر، حکمرانوں کو ہر سزا سے بالا ترشہریوں کا درجہ دینے کے باوجودعام آدمی کو قانون کے احترام پرقائل کر سکیں گے۔یہ انوکھی امید یا خواہش بند کمروں یا ٹی وی ٹاک شوز کی حد تک بھلی لگتی ہے۔شہر کے گلی کوچوں میں اس پر عمل ہوتے دیکھنا ممکن نہیں۔گرفتاریاں بھی اس کا حل نہیں، دو چار ہزار افراد کو جیل بھیجنے سے 22کروڑ عوام حکومتی ایس او پیز پر کیوں عمل کریں گے، اتنے قیدی ہر وقت جیلوں میں دیکھے جا سکتے ہیں کیاانہیں جیل بھیج کر ملک میں جرائم کا خاتمہ ہو گیا ہے؟73سالہ تجربہ کافی ہونا چاہئے۔حکمرانوں کو جان لینا چاہیئے کہ پورا نظام سدھارنے کی ضرورت ہے۔قانون شکنی کی سرپرستی جاری رکھ کر معاشرے کو قانون پر عمل کا درس تو دیا جا سکتا ہے مگر دلوں میں قانون کی عزت قائم نہیں کی جا سکتی۔یورپی ممالک نے قانون کی حکمرانی قائم کی تب عوام نے قانون کا احترام کرنا شروع کر دیا۔پاکستان کو دنیا کا انوکھا ملک نہ سمجھا جائے، پاکستان کے عوام کو بھی غیر انسانی مخلوق سمجھنے پر اصرار نہ کیا جائے۔چینی اسکینڈل کے ذمہ داروں کو سزا دیں، ان سے لوٹی ہوئی رقم واپس لیں۔عام آدمی دیکھ لے گا کہ پاکستان میں قانون پر عمل درآمد شروع ہوگیا ہے، جہانگیر ترین اور دیگر وزراء سے خصوصی سلوک نہیں کیا گیا،تو عوام ماسک پہن کر گھروں سے نکلیں گے، 6فٹ کا فاصلہ بھی دکھائی دینے لگے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں