چاچا پیر بخش کی لی لینڈ بس

انور ساجدی
عید سے ایک روز پہلے کوئٹہ کے بازاروں اور چھوٹے مالز میں اتنا رش تھا جیسے گزشتہ عیدوں میں ہوتا تھا کہیں پر بھی احتیاطی تدابیر دیکھنے میں نہیں آ رہی تھیں عید کے اچانک اعلان کے بعد شہر میں افراتفری مچ گئی لوگ بازاروں پر ٹوٹ پڑے گاڑیوں کا اژدہام تھا مٹھائی اور بیکریوں میں داخل ہونا مشکل تھا حالانکہ جب میں کراچی سے چلا تھا تو یہی گماں تھا کہ کوئٹہ میں سخت لاک ڈاؤن ہو گا ایس او پی ایز پر سختی کے ساتھ عملدرآمد ہوگا لیکن یہاں آ کر معلوم ہوا کہ بیشتر لوگوں نے ماسک پہننے کا تکلف بھی نہیں کیا تھا لوگوں کے اس طرز عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کورونا کو سنجیدہ مسئلہ نہیں مانتے بلکہ اسے مذاق سمجھتے ہیں دوسری بات یہ کہ وہ حکومت بلوچستان کی کسی ہدایت اور حکم پر یقین نہیں رکھتے یعنی حکومت پر عوام کا اعتماد نہیں ہے حالانکہ کورونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں طبی سہولتوں میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ہے کوئٹہ کی نسبت کراچی میں صورتحال قدرے بہتر تھی اس صورتحال پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ تمام احتیاطی تدابیر صرف ملک کی اشرافیہ تک محدود ہے کیونکہ اشرافیہ کے پاس کھونے کو بہت کچھ ہے جبکہ عام آدمی کے پاس کھونے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے کورونا کے دوران ملک بھر میں بھوک اور فاقوں کی وجہ سے کئی غریب لوگوں نے خود کشی کا سہارا لے کر اپنی مشکل زندگی آسان کر دی یہ جو وزیراعظم اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے غریبوں کی امداد مفت راشن تقسیم حفاظتی سامان کی فراہمی وغیرہ محض سیاسی نعرے تھے نچلا طبقہ چھوٹے دکاندار مزدور اور سفید پوش طبقہ زندگی کے ہاتھوں اتنا تنگ ہو گیا کہ اس نے رد عمل کے طور پر پابندیوں کو توڑنے کا فیصلہ کیا۔
جس کا ثبوت عید کے موقع پر ملک بھر میں نظر آیا حکومت نے زمینی راستے بدستور بند رکھے ہیں لیکن فضائی راستے کھولنے کے ساتھ ہی پی آئی اے کے طیارے کو المناک حادثہ پیش آیا جس میں ایک سو کے قریب انسانی جانیں ضائع ہوئیں اس حادثہ کے بارے میں حکومت حسب دستور لیپا پوتی سے کام لے رہی ہے تحقیقات کا حکم دے کر طفل تسلیاں دے رہی ہے لیکن لوگ جانتے ہیں کہ اس ملک میں ہونے والے بے شمار حادثات کی تحقیقاتی رپورٹوں کا کیا حشر ہوا کون نہیں جانتا کہ جس طرح ملکی معیشت دیوالیہ ہے اسی طرح اس کے تمام ادارے زوال کا شکار ہیں سوشل میڈیا پر ایک جہاز کی تصویر جاری کی گئی ہے جس کے ٹائروں کے درمیان پرندوں نے اپنا گھونسلہ بنا رکھا ہے عام حالات میں جہازوں کی مرمت پر توجہ نہیں دی جاتی چہ جائیکہ کہ کورونا کے دوران ان پرانے اور ناکارہ جہازوں کی دیکھ بھال پر توجہ دی گئی ہو گی بے شمار لوگ فضائی سفر سے خوفزدہ ہیں خاص طور پر وہ سمجھتے ہیں کہ پی آئی اے کے جہازوں میں سفر کا مطلب آخری سفر ہے پاکستان کی قومی ایئر لائن طویل عرصہ سے کورونا کا شکار ہے نئے جہاز خریدنے کیلئے رقم نہیں ہے پرانے جہازوں کو کب تک شیر شاہ کی کباڑی سے پرزے لے کر چلایا جا سکتا ہے چنانچہ سارے جہاز چاچا پیر بخش کی لی لینڈ بس 1940) ماڈل(کی طرح ناکارہ اور کھٹارہ بن چکے ہین چند سال قبل امریکہ کینیڈا اور کئی یورپی ممالک نے پی آئی اے کی سروس بند کر دی تھی اگر حکومت نام نہاد قومی ایئر لائن کے جہازوں کی حالت اور سروس درست نہیں کر سکتی تو اسے چاہئے کہ تمام جہازوں کو گراؤنڈ کر کے پی آئی اے کی باضابطہ تمت باالخیر کا اعلان کرے یا اگر کوئی سیٹھ اسے خریدنا چاہئے تو بے شک اسے فروخت کر دیا جائے اسی طرح ریلوے کا بھی برا حال ہے کئی درجن حادثات ہو چکے ہیں لیکن وزیر ریلوے روز جھوٹ بول کر زبانی کلامی ریل کی حالت میں بہتری کا دعویٰ کر رہے ہیں حالانکہ ریل کے انجن 25 سال یا اس سے بھی زیادہ پرانے ہیں نئے ڈبوں کی بھی قلت ہے اور سب سے بڑی بات کہ انگریزوں نے 1860ء میں جو لائن بچھائی تھی اس کی پٹڑیاں ناکارہ ہو چکی ہیں سگنل سسٹم ازکار رفتہ ہے جبکہ ریلویز جدید کمیونیکیشن سسٹم بھی سے محروم ہے ریل کا یہ نمونہ شائد ہی دنیا کے کسی اور ملک میں بنے شیخ رشید جعلی کامیابیوں کی خاطر ریلوں کی تعداد بڑھا کر پیش کر رہے ہیں جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ جتنی ریلیں آسانی کے ساتھ چل سکتی ہیں اتنی چلائی جائیں روزانہ کہیں انجن بند کہیں حادثے اور کہیں المیئے معلوم نہیں کہ چین کے ساتھ ایم ایل ون کا جو معاہدہ ہوا تھا اس کا کیا بنا شاید پاکستان کے پاس اتنی رقم نہیں ہے جو نئی لائن بچانے کیلئے ضروری ہے جبکہ انڈیا‘ بمبئی سے چینئی تک ریلوے لائن بچھانے کا معاہدہ کر چکا ہے ریلوے کی مال گاڑیاں بھاری سامان کے نقل و حمل کیلئے ضروری ہیں اور یہ نقل و حمل فوجی نکتہ نظر سے بھی ناگزیر ہے لیکن ایل این سی بنا کر ریلوے کی قبر کھودی گئی اوپر سے این ایل سی بھی ناکامی سے دوچار ہے۔
کورونا کے بعد کیا ہوگا یہ سبھی جانتے ہیں لیکن اس کے باوجود شیخی بگھاڑنے کا کام جاری ہے جو کرنے کے کام ہیں حکومت ان سے چشم پوشی کر رہی ہے اس کا سارا زور شہباز شریف کے احتساب پر ہے حالانکہ شہباز شریف کو جیل بھیجنے اور زرداری کو پھانسی لگانے سے نہ تو نیم مردہ ریل چلے گی اور نہ ہی پی آئی اے کامیاب اڑان بھر سکے گی جبکہ وقت کا تقاضہ ہے کہ حکومت سنجیدگی اختیار کرے اور مسخرے وزراء کے عامیانہ بیانات کا سلسلہ ختم کرے ادھر لوگوں کی جان پر بنی ہوئی ہے ادھر وزراء لطائف بیان کرنے اور غیر سنجیدہ پھلجڑے چھوڑنے میں مصروف ہیں خود وزیراعظم کا یہ حال ہے کہ وہ عید نتھیاگلی کے گورنر ہاؤس میں چھپ کر مناتے ہیں اور وہیں بے بلند و بانگ دعوؤں کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں کئی لوگوں کا تو یہ خیال تھا کہ نتھیا گلی کا گورنر ہاؤس اس وقت کمرشل گیسٹ ہاؤ سمیں بدل چکا ہوگا اور حکومت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا کیونکہ وزیراعظم نے برسراقتدار آنے کے بعد یہی اعلان کیا تھا بلکہ یہ بھی کہا تھا کہ تمام گورنر ہاؤسز اور وزیراعظم ہاؤسز کو یونیورسٹیوں میں تبدیل کردیا جائیگا لیکن یہ محض سستی شہرت کے حصول کیلئے ایک عامیانہ نعرہ تھا بالکل اسی طرح تحریک انصاف کی حکومت نے اعلان کیا تھا وہ لوگوں کو 50لاکھ گھر اور ایک کروڑ روزگار دے گی لیکن دو سال میں ایک گھر بھی نہیں بنا اور الٹا ایک کروڑ سے زائد بے روزگار ہو گئے معاشی گروتھ منفی ڈیڑھ فیصد نیچے تک گر گئی اس کے باوجود حکومت کے پاس کوئی پلان نہیں کہ حالات کو کس طرح درست کیا جا سکے اس حکومت کی اہلیت اور صلاحیت تو کورونا کی وباء کے دوران پوری طرح عیاں ہو چکی ہے یہ جو جعلی لاک ڈاؤن اور ایس او پیز ہیں شدید ناکامی سے دوچار ہو چکی ہیں کیونکہ حکومت نے خود ان پر عملدرآمد نہ ہونے دیا اب بہت ہو چکا حکومت کو چاہئے کہ پروازوں اور ریلوے سروس شروع کرنے کے بعد پبلک ٹرانسپورٹ بھی کھول دے کیونکہ لوگ پرائیویٹ سواریوں کے بھاری کرایہ ادا کر کے مجبوری میں سفر کر رہے ہیں اس سے بہتر ہے کہ انٹر پراونشل ٹرانسپورٹ کھول دی جائے کیونکہ ریل کے ڈبے میں لوگ بھیڑ بکریوں کی مانند سفر پر مجبور ہیں کم از کم بسوں اور کوچوں میں ایسی صورتحال تو نہیں ہوگی۔
ملک کے کئی ستم زدہ علاقوں کے لوگوں کو یہ توقع تھی کہ کرونا کی وباء اور عید کے موقع پر حکومت قیدیوں کو رہا اور ان لوگوں کی واپسی کا انتظام کرے گی جنہیں مسنگ پرسنز کہا جاتا ہے برسوں سے مائیں اپنے پیاروں کا انتظار کر رہی ہیں لیکن ہر روز ان کی ناامیدی اور مایوسی میں اضافہ ہو رہا ہے سردار اختر مینگل نے حکومت سے جو معاہدہ کیا تھا اس کی ایک شق تاریک راہوں میں گم ہونے والے مسنگ پرسنز کے بارے میں تھی لیکن حکومت نے چند درجن افراد کو بازیاب کر کے گھروں کو بھیج دیا جبکہ اکثریت ہنوز گم ہیں لگتا ہے کہ حکومت معاہدے کی اس شق کو بھول چکی ہے تبدہ شدہ صورتحال میں اس شق پر عملدرآمد کرنا مشکل لگتا ہے بلوچستان میں ہر سال عید اپنے پیاروں کی یاد میں بطور ماتم منائی جاتی ہے دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسا نہیں ہوتا کہ اپنے ہی لوگوں کو گرفتار کر کے بغیر مقدمہ ہو اور عدالتوں میں پیش کئے بغیر طویل عرصہ تک حراست میں رکھا جائے اگر یہ لوگ سنگین جرائم میں ملوث ہیں تو ان پر مقدمات قائم کر کے عدالتوں میں پیش کیا جائے ماورائے عدل اقدامات سے حکومت کی نیک نامی میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔
(ضروری نوٹ) چاچا پیر بخش انگلینڈ کی ساختہ لی لینڈ بس دوسری جنگ عظیم کے بعد کوئٹہ سے مشکے تک چلاتے تھے جو 3سو میل کا فیصلہ 5دن میں طے کرتی تھی یہ بس ایک آباد کار راجہ احمد خان (راجہ فیض کے والد) نے چلائی تھی اس کی سروس 1972ء میں بند ہو گئی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں