کورونا۔انتظامیہ کی بے حسی

اداریہ
کورونا سے خاتون ایم پی اے سمیت مزید 40افراد جاں بحق ہو گئے ہیں جس کے بعد پاکستان میں کورونا سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی ہے اس کے علاوہ وباء سے متاثر ہونے والوں کی تعداد58 ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے پاکستان میں کورونا کی شدت بڑھتی جا رہی ہے خاص طور سے لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ خریداری کے مراکز میں حکومتی ایس او پیز کا کوئی خیال نہیں رکھا جا رہا اور حکومتی اقدامات اور قائدین کے بیانات کے نتیجہ میں عوام میں مرض کے حوالے سے غیر سنجیدگی میں اضافہ ہوا ہے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں روزانہ کی بنیاد پر کورونا میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور بعض لوگوں کا تو خیال ہے کہ کوئٹہ میں کورونا کے باعث بڑے پیمانے پر اموات ہو رہی ہیں لیکن خبریں چھپائی جا رہی ہیں اس کے باوجود بازاروں میں لوگوں کا غیر معمولی رش ہے خریداری کیلئے آنے والے نہ چھ فٹ فاصلے کے قانون کا کوئی خیال کر رہے ہیں نہ ہی ماسک اور دستانے پہننے کا زیادہ رواج ہے حکومت نے بھی سپریم کورٹ کی جانب سے بازار اور دکانیں کھولنے کے فیصلے کے بعد خود کو الگ تھلگ کر لیا ہے انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہر‘ بازاروں‘ سڑکوں‘ گلیوں میں ایس او پیز پر پابندی کرائے ورنہ عید تو ہم مناچکے لیکن اب انتہائی تکلیف دہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی اس بناء پر کی تھی کہ وہ نہیں چاہتے کہ عام لوگ بھوک سے مر جائیں لیکن افسوس کہ ہماری حکومت اور انتظامیہ نے اس جذبہ کو بھی برقرار نہیں رکھا ہے ملک کے مختلف علاقوں میں سرمایہ دار اور صنعت کار جس طرح مزدوروں کو ملازمتوں سے فارغ کر رہے ہیں تنخواہوں میں کٹوتی کی جا رہی ہے اور حقوق مانگنے والوں پر فائرنگ تک سے دریغ نہیں کی جا رہی ہے بلوچستان میں بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائینسز کی انتظامیہ نے عید سے قبل اپنے ملازمین کی تنخواہیں بند کر دی ہے محکمہ واسا کے ملازمین دو مہینوں سے اپنی تنخواہوں سے محروم اور سراپا احتجاج ہیں حکومت وباء کو تو نہیں روک سکتی کم از کم محنت کشوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں تو بند کرائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں