بلوچستان میں خود ساختہ ایمانداروں کی حکمرانی

بایزید خان خروٹی
عید کا دن جہاں باہمی رنجشوں کو بلانے کا بہترین موقع بناتا ہے وہیں پر ہر شخص غم دنیا سے بے خبرسا بن جاتا ہے۔عید کا دن ہے لیکن اس دن کو بھی صوبے سے محبت کرنے والا ہر طبقے کا بلوچستانی اپنے صوبے کے دن بدن خرابی کی طرف گامزن نظام سے پریشا ن دیکھائی دے رہے ہیں۔میری مختلف مکاتب فکر کے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں ان میں کچھ بیورکریٹس شامل تھے میں نے انہیں عید کے دن بھی نظام کی شکست خوردگی اور اسٹیبلشمنٹ کے مسلط کردہ بے رحم گدھ خوروں کی سفاکی پر بہت رنجیدہ پایا۔ کہنے لگے بلوچستان کی بد قسمتی دیکھو گدھ تو مردہ جانوروں کا گوشت کھاتا ہے لیکن یہ ظالم تو گدھ کو بھی کھانے والے نکلے۔کوئٹہ شہر تو اب ہمارے بچپن جیسا رہا ہی نہیں لیکن بچوں کی ضد کی وجہ سے عید کی خریداری کیلئے شہرمیں نکلنا پڑا شہر تو ویسے ہی کا ویسا ہے یہ 25 ارب روپے کہاں خرچ کیے جارہے ہیں۔ جہاں بھی اربوں کے پروجیکٹ شروع کیے جاتے ہیں۔ ان کی مکمل فزیبلیٹی ہر شعبہ کے ماہرین سے کروائی جاتی ہے۔ جس میں انوائرئنمنٹ، آرکیٹیکٹ، ٹریفک آب نوشی، سیوریج، گیس غرض ہر پہلو سے اس کی سٹڈی ہوتی ہے۔بلکہ کوئٹہ پیکج پر حکومتی نااہلی کاپول ڈائریکٹر جنرل انوائرئنمنٹ کا پروجیکٹ ڈائریکٹر المعروف ٹف ٹائل ماسٹر کو لکھا گیا خط ہے جودرحقیقت کرپشن اور لاپرواہی کا چارج شیٹ ہے جس کی کاپیاں تمام اعلی حکومتی شخصیات کو ارسال کی گئی ہیں سب حصہ دارورنہ حقائق جاننے کیلئے انکوائری کیوں نہیں کرائی جاتی۔ حالانکہ کافی پیسے خرچ ہوچکے ہیں۔صوبے میں نام نہاد گڈ گورننس اور پڑھی لکھی قیادت کا حال یہ ہے کہ کسی سے بھی کوئٹہ میں پوچھو کہ اس شہر پر امسال 15 ارب خرچ ہوئے ہیں؟ وہ آپ کے منہ کو تکتا رہے گا کہ بندہ تو ٹھیک ٹھاک لگ رہا ہے لیکن باتیں پاگلوں جیسی کر رہا ہے۔ اگر صوبائی حکومت بلا تخصیص یہی رقم ہر مرد و زن و بچے کو نقد دیتی تو صرف کوئٹہ شہرکی حدود میں بسنے والے 15 لاکھ کی آبادی میں ہر شخص کو دس ہزارروپے مل جاتے جس سے یقینا لوگ مطمئن ہوتے اگر یہ رقم دس، دس روپے کے نوٹ کی شکل بنا دی جائیں توپورے کوئٹہ کے ساتھ مستونگ اور پشین کے اضلاع کے کچھ حصوں کوبھی ڈھانپاجاسکتا ہے۔ اب تو 15 ارب میں سے 50 فیصد کرپشن وگورنمنٹ کے ٹیکس میں چلے گئے باقی 15 فیصد ٹھیکیداروں نے اپنا منافع رکھ لیا جو باقی بچا اسے غیر ضروری اور فالتو کاموں پر لگا دیا۔ سیانے کہتے ہیں سانپ جتنا خوشنما ہو ڈسنا اس کی فطرت ہے۔ اسی طرح کرپشن بعض لوگوں کی فطرت میں شامل ہے چاہے بظاہر وہ باہر سے کتنے ہی پارسا اور نیک سیرت کیوں نا دکھائی دیتے ہوں ایک وکیل دوست نے بتایا کہ آپ کا کالم پڑھا جو فوڈ محکمہ کے متعلق لکھا تھا کچھ دن قبل میرے پاس فوڈ محکمہ کا ایک کیس آیا تھا جس میں 32 کروڑ روپے کے ٹینڈر برائے ٹرانسپورٹیشن کیے تھے اس میں کچھ شرائط تھیں جس میں مالی حیثیت کے علاوہ گزشتہ تین سالوں میں اسی قسم کا کام یعنی ترسیل کا کام سرانجام دیا ہوٹینڈر میں نو بندوں نے حصہ لیا تھا پر کمیٹی نے ملی بھگت کرکے 9 میں سے6 کو ڈسکوالیفائڈ کرکے صرف3 کو کوالیفائی کرنے کی منظوری دی کم ظرفی اور کرپشن کے بازار کو دوام دینے کے لئے ان تین فرموں میں ایک فرم کے تین سال کے ٹرانسپورٹیشن کا تجربہ بالکل تھا ہی نہیں ان کو 210 اہم روٹس کا ٹینڈر دے دیا اور ابھی محکمہ نے نہ تو باردانے کا بندوست کیا اور گندم پروکیورمنٹ کا المیہ کی بات یہ کہ جس فرم کو ٹینڈر دیا تھا اس نے سال 2017 میں صرف کچھ ہزار باردانے کی سپلائی کی تھی۔ ایک جگہ بحث چل رہی تھی کہ آجکل سوشل میڈیا پر محکمہ صحت کی جانب سے اپنے سابقہ وزیر کو تحریر کیا گیا ایک خط زیرگردش ہے جس میں کو ان کو زیر استعمال سرکاری گاڑیوں کی واپسی کا کہا گیا۔واقعی بہت غلط بات ہے کہ انہیں چارج چھوڑنے کے بعد تمام اثاثہ جات واپس کر دینے چاہیے تھے۔ مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مذکورہ سابقہ وزیر نے اسلحہ کے زور پر ان گاڑیوں پر قبضہ کیا؟ ایک صاحب بولنے لگے جناب بصد احترام عرض کرتا چلوں کہ کسی بھی وزیر کے عہدہ سنبھالنے کے بعد محکمہ صحت کے مختلف پروگرامز کے انچارج صاحبان یا براہ راست یا باالواسطہ طور پر ان سے رابطہ کرتے ہیں اور اپنے آپ کو اس عہدہ کے لئے سب سے اہل فرد ثابت کرتے ہیں اور اپنی خصوصیات ثابت کرنے کے لئے محکمہ کی دو چار گاڑیوں کی بلی دان کرتے ہیں۔ جو خصوصی طور پر محکمہ صحت کے تمام پروگراموں میں وزیرکو رام کرنے کے لئے رکھی جاتی ہیں۔ اب ان گاڑیوں کی واپسی اس لئے ضروری سمجھی گئی کہ ہوسکتاہے کورونا کی اس وباء میں محکمہ کو کوئی کل وقتی وزیر مل جائے اور دان کرنے کو یہ بلی موجود ہو۔ پرانے وقتوں میں جب کسی محکمہ کے افسروں کی میٹنگ ہوتی تھی تو میٹنگ کے کمرہ کے باہر اس محکمہ کے وزیر کے گماشتے پارکنگ میں موجود گاڑیوں کا جائزہ لے رہے ہوتے تھے اور میٹنگ کے اختتام کے اگلے گھنٹے میں اس محکمہ کے ڈائریکٹر وغیرہ کو ان گاڑیوں کی لسٹ مل جاتی تھی جو وزیرکے کارندوں نے پسند کی ہوتی تھیں۔ اب یہ تکلف برطرف ہو چکا اب بلی دان کرنے کا رواج جڑ پکڑ چکا ہے۔ ہاں اگر کسی جگہ آفیسرز میں باہمی چپقلش موجود ہو تو مخالف فریق اس آفیسر کے زیر استعمال گاڑی کی تفصیلات چھپکے چھپکے وزیر تک پہنچا
کر صیغہ راز میں بتا دیتا ہے کہ اس سے بہتر پورے محکمہ بلکہ صوبائی حکومت میں نہیں۔ تو گزارش ہے کہ اگر متعلقہ آفیسرز کا یہ کہنا ہے کہ وزیر نے زبردستی گاڑی پر قبضہ کیاہے تو کیا انہوں نے بروقت اپنے محکمہ کو اس کی تحریری رپورٹ بھجوائی۔ اور خط کے مطابق اس دوران جو گاڑیاں سابق وزیر کے استعمال میں رہیں کیا ان گاڑیوں پر کوئی ڈیزل پیٹرول یا مرمتی اخراجات ہوئے یا نہیں۔ ان چیزوں کی چھان بین ہوتو ایمانداری کا یقین ہو کیونکہ محکمہ صحت کا قلمدان بھی وزیراعلی کے پاس ہے اور حکومت کو اپنی خود ساختہ ایمانداری کے دعوے کرنے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آئیگی اور عوام خود انکو ایماندار قرار دینے میں کوئی کوفت نہیں سمجھے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں