حکمت سے عاری حکمت عملی

راحت ملک
ریاست کے فیصلے و اختیار کے مالک تمام ادارے رمضان کے آخری عشرے میں لاک ڈاؤن ختم کرنے میں ہم آواز و متفق الرائے نظر آئے۔ البتہ طبی ماہرین جو کرونا کے خلاف جنگ کے اگلے محاذ پر لڑنے والے ہمارے قومی ہیرو بھی ہیں ان کا مدلل انسان دوست نقطہ نظر نظر اقتدار کے ایوانوں صدا بہ صحرا ثابت ہوا جسے کسی توجہ کا مستحق نہیں گردانا گیا. اس کے برعکس سرمائے اور منافع کے حلقوم سے. اٹھنے والی غریب پروری کی پر درد صدائیں اپنا اثردکھاگئیں یوں وزیراعظم کو اپنے ویژن کے مطابق کرونا سے ڈرنا نہیں۔پر عملدرآمد کرانے میں کامیاب رہیں یہ الگ بحث ہے کہ کرونا سے لڑنا بھی ہے والا حصہ ہمارے اجتماعی ویژن میں قوالی میں مصرع طرح بن کر رہ گیا تو اب نتیجہ بھی سامنے ہے۔
عید سے ایک روز قبل ملک میں کرونا کے مریضوں کی تعداد 47000 تھی جو چار دنوں میں 59000 کی حد عبور کرچکی ہے. مگر. منافع طلب حلقے کا شکوہ برزبان جناب عتیق میر.اب بھی یہ ہے کہ. اس سال رمضان المبارک میں صرف دس ارب کا بزنس ہوا ہے جو گذشتہ برس 30 ارب کا تھا۔ بلاشبہ معاشی سرگرمی معاشرتی حیات کے لیے بہت اہم ہے ترقی وخوشحالی کا مکمل انحصار تجارت اور پیداواری ذرائع کے فروغ پر ہے۔ مگر کیا اس مالیاتی سرگرمی کو انسانی صحت و زندگی پر فوقیت بھی حاصل ہے؟ درپیش بحران کی شدت نے اس سوال کی حدت کو بہت نمایاں کر دیا ہے۔
ایک ٹی وی چینل پر گذشتہ شب محترمہ شوذب نے فرمایا کہ حکومت کی دانشمندی کے نتیجے میں آخری عشرے میں صرف چار بڑے شہروں میں 34 ارب کا کاروبار ہوا ہے۔البتہ محترمہ میزبان کے اصرار کے باوجود اس سوال کے جواب سے گریز کر گئیں کہاں کے بیان کردہ اعداد وشمار کہاں سے حاصل ہوئے ہیں؟؟
محترمہ کے فرمودات کی صحت کا اندازہ ٹی وی کے ہی ایک دوسرے پروگرام میں کرونا کے حوالے سے برطانیہ میں آنے والی بھیانک تباہی کے بارے میں انکے اعداد وشمار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ سوبھائی۔۔۔۔بس سنتا جا شرماتا جا کی کیفیت ہے اور حالات کی بڑھتی سنگینی.جس سے نمٹنے کے لیے حکومت کی حکمت عملی. میں حکمت کا عنصر نظر نہیں آ رہا۔
راقم ان بے شمار افراد میں شامل ہے جو لاک ڈاؤن میں نرمی کے مخالف مگر. کم آمدنی والے طبقے کی فوری اور فراخدلانہ کفالت کی دہائی دے رہے تھے۔
ایسے ملک میں جہاں پولیس و قوانین کا اختیار مل کر بھی عوام کو ٹریفک قواعد پر عمل کرانے میں کامیاب نہیں رہا۔ ملک بھر میں شاہراہیں بے ہنگم اور ٹریفک قوانین کی پامالی کا منظر پیش کرتی ہیں جو سوک سینس.(تمدنی احساس) کی عدم موجودگی کا پتہ دیتی ہے وہاں حکومت بھیانک وباء سے نمٹنے کے لیے عوام سے ایس او پیز پر رضاکارانہ طور پر. عمل پیرائی کی نصیحت کرکے اپنے آئینی فرائض و ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے پر اکتفا کرے. تو یہ کہنا مناسب لگتا ہے کہ مذکورہ طرز عمل حکمت سے عاری پالیسی کا عکاس ہے جسے حکمت عملی نہیں کہا جا سکتا۔ المیہ یہ ہے کہ اپنی عاقبت نا اندیشی کی ذمہ داری کا بوجھ بھی عوام پر ڈالتے ہوئے جناب ظفر مرزا نے کل ہی عندیہ دیا ہے کہ. لوگوں کی غفلت بے احتیاطی کی وجہ سے دوبارہ لاک ڈاؤن کا نفاذ ممکن ہے۔
حضور. لاک ڈاؤن ختم کرکے. آپ پہلے ہی. نیم دلی سے عائد کیے گے لاک ڈاؤن کے مثبت اثرات زائل کرچکے ہیں۔ اس کے دوبارہ اجراء. کا مطلب ہوگا. سفر. نکتہ آغاز سے دوبارہ شروع کیا جائے گا۔۔
تو کیا۔ پہلے جیسے لاک ڈاؤن کے اجراء سے صورتحال پر قابو پانا ممکن ہوگا؟ اس کا سیدھا جواب نفی میں ہے. تو پھر. بحران سے نکلنے کی کونسی موثر تدبیر کارگر ہوگی؟ میں اس کے جواب میں طبی ماہرین سے متفق ہوں کہ سخت کرفیو نما لاک ڈاؤن ہی تباہی سے بچا سکتا ہے گو اس کے منفی اثرات بھی ہونگے لیکن ان سے حکمت عملی و فراخ دلی سے عمل کرکے بچنا ممکن ہے.
دوسری صورت میں معیشت بچے گی نا. انسانیت!!!
سخت لاک ڈاؤن کے دوران کمزور مالی حیثیت والے طبقے کی جنگی بنیادوں پر فوری فراخ مدد کا کام تین دن میں مکمل کیا جائے توبعد ازاں کرفیو کی طرز کا ملک گیر لاک ڈاؤن کیا جانا ممکن اور سہل ہوگا۔ کفالت کا میکنزم تشکیل دینے میں وقت برباد کرنے سے گریز اور پہلے سے موجود. شماریات۔مثلاً مردم شماری و نادرا کے ڈیٹا کے ذریعے مستحق افراد کو ضلعی انتظامیہ بینکس اور موبائل کمپنیوں کے ترسیلات زر کے نظام سے استفادہ کرکے کفالت کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔
فرد کی بجائے کنبے کو کفالتی امداد کی اکائی قرار دیں۔ تو قومی شناختی کارڈ کے نمبر میں کنبے کا حوالہ موجود ہے چنانچہ ایک کنبے کے کسی بھی فرد کو فیاضی سے مالی مدد وصول کرنے کا حق دیا جاسکتا ہے جبکہ تصدیق کے لیے بائیومیٹرک سسٹم استعمال کرلیں تو ملک بھر میں کفالت حاصل کرنے والوں کا ریکارڈ مرتب ہوجائے گا جس کا آڈٹ۔۔۔ اگر ضرورت محسوس ہوتو کرنا ممکن ہوگا۔ محکمہ ڈاک بھی کفالت کی تقسیم میں اہم کردار کا حامل ہے ہر گاوں میں ڈاک خانے موجود ہیں ڈاکیہ اور ڈاک خانے کا عملہ بالخصوص دیہات کے ہر شخص کی مالی حیثیت سے واقف بھی ہوتا ہے. بس بھروسے کے ساتھ ان افراد کی کفالت کی جائے جو ناقص فرسودہ معاشی نظام کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہونے اور معاشی ترقی سے محروم رہے. ان کی معاشی تنگدستی کرونا کی وجہ سے وقوع پذیر نہیں ہوئی یہ ان نظام زر کا ناگزیر نتیجہ ہے جس کے تحفظ و بقاء کے لیے ریاستی طاقت مصروف عمل رہی ہے۔ اگر حکومت اخلاص و سنجیدگی سے اس صورت حال کو ناپسند کرتی ہے تو آگے بڑھ کر انسان. پر سرمائے کی برتری کو ختم کرنے کا آغاز کرے۔ غربا ء کی ہمدردی کے بیانات سے حالات میں کسی تبدیلی کا کچھ بھی امکان نہیں۔۔
پس نوشت
حکومت نے مالکان جائیداد کو کرونا میں کرائے نہ لینے یا کم کرنے کا پابند کیا تھا. ستم ظریفی یہ ہے کہ اس حکم پر کوئٹہ کنٹونمنٹ والے.عمل نہیں کر رہے کرایوں میں رعایت دینے کی بجائے انہوں نے کرایہ داروں کو کرایہ جمع کرانے میں ہوئی تاخیر پر جرمانے بھی وصول کیے ہیں۔ اور عدم ادائیگی پر نوٹسز جاری کیے گئے ہیں۔ یہ پہلو فوری توجہ چاہتا ہے۔ اگر ریاستی ادارے حکومتی فیصلوں پر عمل نہیں کرتے تو پھر. مالکان ٍ جائیداد کو کیونکر عمل کرنے رضامند کیا جائے گا۔!!!!!

اپنا تبصرہ بھیجیں